"KDC" (space) message & send to 7575

پاک افغان کمیشن کا قیام ضروری!

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں پہلی پریس کانفرنس کی تو کئی خدشات ختم ہو گئے۔ یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹہ تک جاری رہی اور وہاں پر موجود صحافیوں نے ان سے سوالات بھی کیے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ افغانستان میں جاری جنگ ختم ہو چکی ہے‘ مگر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا ایک ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر آیا‘ جس میں اُس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی؛ تاہم تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان ملک کے تمام اہم سرحدی راستوں اور مقامات کا کنٹرول اپنے قبضے میں کر چکے ہیں، محض چند علاقے ایسے ہیں جہاں طالبان کی جانب سے قبضے کا دعویٰ سامنے نہیں آیا۔ کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کر کے طالبان نے پورے افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے ممالک پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔
دوسری جانب پنٹاگون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے کہ امریکی صدر، پنٹاگون، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے ایک پالیسی پر گامزن نہیں تھے اور متضاد خیالات کے حامی حلقے ایک دوسرے کو نیچا دکھا رہے تھے۔ امریکا اپنی پسپائی اور افغانستان سے نکلنے کا یہ جواز دے رہا ہے کہ وہ جس مقصدکے لیے افغانستان میں آیا تھا، وہ مقصد حاصل کر لیا ہے، یعنی القاعدہ کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہیں کہ بیس سال میں حامد کرزئی، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ‘ سبھی افغانستان میں قومی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکا تین کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی وہاں طاقت ور فوج بنانے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا نے معدنی وسائل پر قابض ہونے کے لیے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا جیسے کئی ممالک تباہ کر دئیے لیکن اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا افغان طالبان کی جانب سے کرنا پڑا۔ افغانستان کے طالبان نے امریکی اتحاد کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی اختیار کی اور امریکی فوج کے انخلا تک اپنی حکمتِ عملی پر قائم رہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ افغانستان کے صدر (سابق) اشرف غنی اربوں ڈالروں سمیت ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق وہ یو اے ای پہنچ گئے ہیں۔
اگرچہ پریس کانفرنس میں افغان طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کیا، مگر کابل میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے بعد اشرف غنی اور اُس کے حامی گروپ کو سزا دیئے جانے کا اندیشہ ہے اور ممکنہ طور پر ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔ طالبان نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کی فوج سے مفاہمت کر لی‘ جس کے نتیجے میں افغانستان کی سرکاری فوج نے پُرامن طریقے سے ہتھیار پھینک دیے جس کی وجہ سے کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں خانہ جنگی نہیں ہوئی اور حالات زیادہ قابو میں رہے۔
اب چونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے اور پھر حکومتی شعبوں میں ایسے ماہرین شامل ہیں جن کے مفادات امریکا سے وابستہ ہیں، حساس نوعیت کی اہم پوسٹیں ایسے غیر منتخب افراد کو دی گئی ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکہ کی دُہری شہریت کے حامل ہیں؛ چنانچہ جب طالبان براہِ راست امریکیوں سے معاہدہ کر رہے تھے تو طالبان نے پاکستان سے بظاہر سست روی اور لا تعلقی کا مظاہرہ کیا، لہٰذا وزیرِ اعظم عمران خان کو زمینی حقائق کے مطابق وزارتِ خارجہ میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ایسے معاونین فارغ کرنا ہوں گے جن کے بارے میں افغانستان کی نئی حکومت کو تحفظات ہوں کیونکہ ابھی دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کا طالبان پر اثرورسوخ بہرحال زیادہ ہے۔
پاکستان، چین، روس اور ایران مل کر افغانستان کے طالبان کے سامنے سب کے وسیع تر مفاد میں کوئی قابل عمل فارمولا رکھیں تو یقینا طالبان کے لیے انکار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اس سلسلے میں میری تجویز ہے کہ اعلیٰ سطح کا پاکستان افغان کمیشن مقرر کیا جائے تو معاملات کو درست دھارے پرڈالا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ہمایوں اختر کی خدمات مفید ثابت ہو سکتی ہیں‘ جو جنرل اختر عبدالرحمن کی ماضی کی پالیسیوں کی بدولت طالبان سے مذاکرات کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اعجازالحق کے اثرورسوخ سے بھی فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر پاک افغان کمیشن بنانے میں تکنیکی رکاوٹ پائی جائے تو ہمایوں اختر خان کو وزیرِ اعظم کا مشیر برائے افغانستان امور مقرر کیا جا سکتا ہے، وہ وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم پاکستان کے بھی مشیر معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمایوں اختر تجربہ کار سیاست دان ہیں اور میرے خیال میں وہ بہتر طور پر پالیسی چلا سکتے ہیں۔
ان لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ملک میں طالبان کے خلاف کنفیوژن پھیلانے کی کوشش میں ہیں۔ فرسودہ قسم کے تجزیوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں اچھے تاثرات پیدا نہیں ہو رہے۔ میرے نقطہ نظر سے امن و امان اور خطہ میں پُراَمن ماحول آنے کے بعد اٹھارہویں ترمیم پر نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور اقوامِ متحدہ نے افغانستان کی صورتِ حال پر گہری نظریں رکھی ہوئی ہیں۔ چین، روس، سعودی عرب، ترکی کے سفارت کار افغانستان کے حوالے سے اپنی اپنی سفارشات اپنے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔ افغانستان میں اندرونی کیفیت بھی غیر یقینی ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان کو ان حالات میں بھی بھارت کی سازشی تھیوریوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان اپنی اندرونی سیاسی سرگرمیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر ترکی، چین کا دورہ کریں اور عالمی برادری کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ عالمی برادری افغانستان کے زمینی حقائق مدِ نظر رکھتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ عبوری حکومت کو تسلیم کر کے افغانستان میں نئے سرے سے انتخابات کرانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے تاکہ افغانستان میں امن کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔ افغانستان خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کا امن خاص طور پر پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ جن جن رہنمائوں پر احتساب بیورو میں مقدمے چل رہے ہیں‘ ان کو چلنے دیں لیکن میری نظر میں اپوزیشن کو افغانستان کی پالیسی بناتے ہوئے اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ طالبان کی حکومت پاکستان کے مفاد میں ہے۔
صدر جو بائیڈن اس وقت دو راہے پر کھڑے ہیں۔ امریکی عوام اُن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور میڈیا اُن پر شدید تنقید کر رہا ہے۔ ان حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان اُمت مسلمہ کے رہنما بن کر سامنے آئیں اور متوازن پالیسی اختیار کریں تو حالات پر قابو پانے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
آئندہ انتخابات کے لیے اب اکتوبر 2023 کا انتظار کرنا ہی اپوزیشن کے لیے سود مند ثابت ہو گا‘ اور حکومت کے لیے بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں