"KDC" (space) message & send to 7575

اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے ممکن ہیں؟

وزیرِ اعظم 2023ء کے قومی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروانے کے لیے پُرعزم ہیں اور قانون سازی کے لیے اسی سال پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑا تو وہ قانونی اور آئینی حق کو بروئے کار لائیں گے‘ اور قانون سازی کا عمل اسی سال مکمل کیا جائے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103 کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں‘ پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے حکومت بیک ڈور پالیسی کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان سینیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے سینیٹ سے ہی انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے میں کامیاب ہوجائے۔ اسی طرح شہباز شریف جو مفاہمت کی پالیسی کا باربار ذکر کررہے ہیں تو ان کی نیم رضامندی سے حکومت آسانی سے قانون سازی کراکے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اجرا کے لیے الیکشن کمیشن کو قانونی دائرہ کار تک محدود کر سکتی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پارلیمنٹ ایکٹ منظور ہو جائے گا‘ ممکن ہے پارلیمنٹ کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ ایکٹ کو چیلنج کر دیا جائے‘ لیکن امکان یہ ہے کہ عدالت بھی پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد کسی قسم کی آئینی پٹیشن کو شاید قبول نہ کرے‘ لہٰذا حکومت 2023ء کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے مگر اس سسٹم میں نقائص پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں چھ ماہ سے جو بحث چل رہی ہے وہ اپنی جگہ پر ہے۔
میری نظر میں الیکٹرانک ووٹنگ شفاف انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی مجاز اتھارٹی اس اہم ٹاسک پر کام کررہی ہے اور الیکشن کمیشن اپنی تجاویز حکومت کو پیش کرے گا‘ جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی تعداد کا بھی تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ الیکشن کمیشن کو جو بریفنگ دی گئی تھی اس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے علیحدہ علیحدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہونا ہے اور ایک لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر چار لاکھ پولنگ بوتھ قائم کیے جائیں گے‘ جس کے مطابق آٹھ لاکھ کے لگ بھگ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری ہونی ہے‘ جن کی لاگت کا تخمینہ ایک اندازے کے مطابق 50 ارب روپے کے قریب ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کے بعض ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اسے مسترد کردیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے ارکان کے مطابق جن لوگوں کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا‘ وہ مشین کیسے استعمال کریں گے جبکہ الیکٹرانک وٹنگ مشین کو اپنے خصوصی پروگرام سے رزلٹ تبدیل نہ ہونے کی گارنٹی نادرا اور سائنس و ٹیکنالوجی منسٹری سے حاصل کرنا ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ایک ماہر کی رائے کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کم سے کم چار ماہرین ہر پولنگ سٹیشن پر موجود ہوں گے‘ اسی طرح الیکشن عملے کی تعداد میں چار لاکھ اضافی افراد کا تقرر کرنا ہوگا‘ اتنی بڑی تعداد کو ٹریننگ دلانا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آپریٹ کرانا‘ الیکشن کمیشن کی استعداد سے بالاتر ہے کیونکہ الیکشن رولز کے مطابق ایک لاکھ پولنگ سٹیشنز کے قیام پر تیرہ لاکھ عملہ درکار ہوتا ہے اور الیکٹرانک ماہرین کی تعداد کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد سترہ لاکھ تک پہنچنے کا احتمال ہے‘ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو تمام امور پر سیر حاصل مہارت حاصل کرنا ہو گی اور مشینوں کی خریداری کے لیے انٹرنیشنل سٹینڈرڈ دیا جائے گا‘ جس کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اور قومی احتساب بیورو نے بھی پس پردہ اسی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے معیار پر نظر رکھنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن ممکن ہے کہ اس کام سے باہر رہے اور حکومت ہی ایسے سودے کرتی رہے جبکہ بھارت میں الیکشن کمیشن کے ماہرین کی موجودگی میں یہ مشینیں تیار کی جاتی ہے۔ ایک اہم اور عجیب بات یہ سامنے آتی ہے کہ پچاس ارب روپے سے زائد اخراجات ادا کرکے جو مشینیں تیار کی جاری ہیں کیا وہ ایک الیکشن تک ہی استعمال میں رہیں گی یا پھر اگلے تین یا چار انتخابات بھی انہی مشینوں سے کروائے جائیں گے ؟ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کو اس سوال کا جواب تحریری صورت میں الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا چاہیے۔
چونکہ حکومت اٹھارہ اگست 2023ء کو برخاست ہو کر نگران سیٹ اپ کے حوالے کردی جائے گی توکیا نگران حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے شفافیت لانے میں کامیاب ہوجائے گی؟ موجودہ حکومت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر پارلیمنٹ ایکٹ 2017ء کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشین زیرِ استعمال لائی جائے گی تو نگران حکومت آرڈی نینس کے ذریعے اس ایکٹ کو مؤخر یا مسترد بھی کرسکتی ہے لہٰذا اس سسٹم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 اور 218 میں مناسب ترامیم کی جائے تاکہ اسی سسٹم کو آئینی تحفظ حاصل ہو جائے۔
2022ء اصولی طورپر بلدیاتی انتخابات کا سال قراردیا جائے گا کیونکہ قوی امکان ہے کہ مارچ 2022ء میں پنجاب کے بعد بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اور یہ سلسلہ جون 2022ء تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسی عرصے میں ترقیاتی کام رک جائیں گے اور معاشی طورپر جو حکومت آگے جارہی ہے وہ اس سسٹم کے تحت مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ مئی جون 2022ء میں بجٹ اجلاس ہونا ہیں اور اگست تک پاکستان میں ترقیاتی کام رک جائیں گے ‘ اسی دوران جبکہ الیکشن کمیشن بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں مصروف ہوگا‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں حساس نوعیت کے فیصلے کیسے ممکن ہوں گے؟یوں حکومت کے پاس جون 2023ء تک کا وقت رہ جائے گا اور نگران حکومت کے قیام کیلئے سیاسی طورپر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گی۔ ان معروضی حالات میں الیکشن 2023ء میں الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے کروانے کا منصوبہ مکمل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022ء تک حلقہ بندیاں بھی مکمل کرنی ہیں اور مردم شماری بھی اسی دوران ہونے والی ہے جس پر صوبہ سندھ میں مردم شماری کے خلاف طبل جنگ بج جائے گا‘ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کو درست حالات سے باخبر رکھیں‘ وزیرِ اعظم کو الیکشن کے ماہرین کی ٹیم سے مکمل بریفنگ لینی چاہیے۔ یاد رہے کہ یہی طریقہ وزیرِ اعظم بھٹو نے اپنایا تھا‘ اس کے باوجود وہ شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہوگئے اور قوم کو 5جولائی 1977ء کا سانحہ دیکھنا پڑا تھا۔
اور اب کچھ بات سیاست کی ہو جائے۔ حکومت شہباز شریف کے کراچی کے دورے کے دوران ان کی پریس کانفرنس سے مطمئن ہے۔ دراصل شہبازشریف کے دورہ کراچی کے دوران بزنس کمیونٹی نے باور کرایا کہ حکومت مضبوط معاشی پالیسی کی شاہراہ پر کھڑی ہے اور پاکستان کے صنعتکار‘ سرمایہ دار اور سٹاک ایکسچینج کے اہم سرمایہ کار حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں‘ لہٰذا مفاہمت کی پالیسی اپنا کر آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ یوں لگتا ہے کہ شہباز شریف کچھ بزنس گھرانوں کے دبائو میں آ گئے اور انہوں نے کراچی میں جو پریس کانفرنس کی‘ اس کے بعد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں حیثیت مغل سلطنت میں بہادر شاہ ظفر جیسی رہ جاتی ہے کہ جن کی حکومت محض دربار تک ہی محدود تھی۔ وجہ یہ ہے کہ نواز شریف عدالت کی جانب سے نااہل قرار پا چکے ہیں‘ وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے‘ اب اگر معاملات کو شہباز شریف مکمل کنٹرول کرلیں تو نوازشریف کے پاس فیصلہ سازی بھی نہیں رہے گی۔ پاکستان کی سیاست میں تلاطم فی الحال نہیں ہے اور نواز شریف لندن کے رہائشی علاقے تک مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے صاحبزادے بین الاقوامی طورپر رئیل اسٹیٹ کا بزنس کررہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اس وقت حکومت مخالف کسی قسم کی تحریک کا جواز نہیں بنتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں