"KDC" (space) message & send to 7575

تاحیات نااہلی کیس اور آئین

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی سے متعلق کیس چار جنوری تک ملتوی کر دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ کوشش ہو گی کہ چار جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ مشاورت کے بعد اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کر سکتے ہیں کیونکہ عدالت کو اس معاملے پر معاونین کی خدمات درکار ہو گی۔ ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے‘ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔ اس کیس کے لارجر بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے دورانِ سماعت استفسار کیا کہ ایک شخص کو سزامل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی وہ کبھی انتخابات نہ لڑ سکے‘ آئین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہوسکتی ہے۔ قانونی ماہرین نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ماضی میں تاحیات نااہلی کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 62اور 63کو الگ الگ دیکھ کر غلط فیصلے کیے گئے۔ آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔ اگر نااہلی 62 (ون) (ایف) کے بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو اس سے نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔ اب اس کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232‘ ماضی کے فیصلوں اور اس کیس کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے گا۔ لیکن عوام اس کیس کی باریکیوں میں نہیں جائیں گے بلکہ اس کیس کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ اُسے موجودہ سیاسی ماحول کے تناظر میں دیکھیں گے۔ اس کیس کے فیصلے سے عوام کا اندازِ فکر تبدیل ہو سکتا ہے۔
ماضی کے حکمرانوں کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے ماضی کے عدالتی فیصلوں کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر ملکی سمت کا رُخ موڑنا مقصود ہے تو ماضی کے غیر جمہوری حکمرانوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6اور 183کے تحت مقدمہ بعد از مرگ دائر کیا جائے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں بلوچستان کی جن شخصیات نے یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے گورنر ایئر مارشل نور خان سے جو فوائد حاصل کیے‘ ان کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سابق صدر ایوب خان کے الیکشن ایجنٹ‘ جن کا تعلق بلوچستان سے تھا‘ ان کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے۔ محض زبانی جمع خرچ سے یہ آئینی مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ اس سے اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 2 (اے) سے منسلک کرکے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس امانت کو منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرنے کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں‘ ان کے تحت جھوٹے شخص کی سزا تاحیات نااہلی ہی بنتی ہے۔ ملک کے ممتاز دینی رہنماؤں کو آگے بڑھ کر اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنی چاہیے اور عدالتِ عظمیٰ کو بھی اس حوالے سے ملک کے ممتاز علمائے دین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ میری نظر میں اگر آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کی مزید تشریح کرتے ہوئے نااہلی سزا کی مدت میں کوئی ترمیم کی گئی تو اس سے کرپٹ پریکٹسز کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس لیے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ عجلت میں کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ اسے عام انتخابات تک مؤخر کر دیا جائے۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ماضی میں آئین سے غداری کرنے والوں کو محفوظ راستہ مل چکا ہے۔ لہٰذا نہ صرف پانچ جولائی کے ذمہ داران بلکہ ان کی حکومت کو آئینی قرار دینے والوں کو بھی عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے کسی ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ ان صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے جو آئین سے رو گردانی کرنے والوں کو مردِ مومن اور مردِ حق کے خطابات دیا کرتے تھے۔ اسی طرح 12اکتوبر 1999ء کے بھی تمام کرداروں کو عدالت میں لایا جائے اور جنہوں نے ان اقدامات کو آئینی قرار دیا تھا‘ ان کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ صرف اشاروں کنایوں سے یہ آئینی مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
آج کل ملک میں کاغذاتِ نامزدگی کی مستردگی کے حوالے سے کافی زور و شور سے بحث جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 7473امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جن میں سے 1024امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے جب کہ 6449 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی درست قرار دیے گئے۔ اسی طرح چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے 18478 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے اور آر اوز نے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے 2216 کاغذات مسترد کیے جن میں سے 2081 مرد اور 135خواتین شامل ہیں جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے 16262 کاغذات منظور ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کے ریٹرننگ افسران نے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف قانون کو مدِ نظر رکھا ہے۔ الیکشن ٹربیونلز میں کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری اور مستردگی کے خلاف اپیلیں دائر ہو چکی ہیں جن کا حتمی فیصلہ الیکشن ٹربیونلز نے ہی کرنا ہے۔ نوازشریف سمیت کئی دیگر اہم شخصیات کے کاغذاتِ نامزدگی بھی چیلنج ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری کے خلاف اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دیا‘ اس لیے وہ الیکشن کے اہل نہیں۔ درخواست میں یہ مؤقف بھی اپنایا گیا ہے کہ نواز شریف خود ریٹرننگ افسر کے پاس حاضر نہیں ہوئے‘ اس لیے ان کے کاغذات مسترد کیے جائیں۔ الیکشن ٹربیونلز کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی جائے گا لیکن ان تمام قانونی مراحل کے باوجود الیکشن شیڈول متاثر نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف نے ابھی تک اپنے انتخابی نشان کا مقدمہ لڑ رہی ہے جس کی اگلی سماعت نو جنوری کو ہو گی۔ اگلے روز پارٹی کے چیئرمین کا یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ اگر انہیں بلّے کا انتخابی نشان واپس نہ ملا تو وہ جو نشان ملا‘ لے لیں گے لیکن الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔ دراصل 2018ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے پارٹی الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور چیف الیکشن کمشنر کے بار بار یاد دہانی اور سرزنش کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے۔ اور اب جب گزشتہ ماہ یہ الیکشن کرائے گئے تو متنازع قرار پاگئے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلی سماعت میں پشاور ہائی کورٹ اپنا فیصلہ برقرار رکھے اور تحریک انصاف کو اُس کا انتخابی نشان واپس مل جائے۔عدالتِ عظمیٰ آئین کی تشریح کرنے کی مجاز تو ہے لیکن جب آئین کے آرٹیکل 63(ون) (ایف) کے تحت پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے اکثریتی فیصلہ میں قرار دیا گیا تھا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والوں کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا تو چند جج صاحبان نے ریمارکس دیے تھے کہ اس فیصلے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آئین کی ری ڈرافٹنگ ہو رہی ہے۔ اب قوم کی نظر میں چار جنوری کے فیصلے پر لگی ہوئی ہے کہ تا حیات نااہلی ہی برقرار رہے گی یا پھر سے آئین کی تشریح کی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں