"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات‘ خدشات اور سیاسی حربے

الیکشن 2024ء کا نتیجہ تو 8 فروری کے بعد ہی سامنے آئے گا؛ تاہم سیاسی سرگرمیاں اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھی اس وقت اپنے بانی رہنما کے نام پر انتخابی سرگرمیوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ ان انتخابات میں خاموش ووٹرز انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ بنیں گے اور اپنا فیصلہ کن ووٹ کاسٹ کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن جیتنے کے لیے مختلف حربے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں اور بعض حلقوں سے ووٹرز کو پیسے بانٹنے کی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ دراصل ہماری سیاسی تاریخ میں الیکشن میں اپنی جیت یقینی بنانے کے لیے اس طرح کے حربے ہر دور میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔دوسری جانب ووٹنگ ٹرن آئوٹ کے حوالے سے بھی خاصے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ بعض انتظامی معاملات سے بھی ووٹنگ کے ٹرن آئوٹ پر فرق پڑتا ہے‘ جیسے حساس پولنگ سٹیشنوں اور حساس مقامات پر ٹرن آؤٹ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ سکیورٹی کے مراحل سخت ہوتے ہیں اور ووٹرز کو سخت ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ موسمی حالات بھی ووٹنگ ٹرن آئوٹ پر خاصے اثر انداز ہوتے ہیں۔ شدید سردی میں لمبی قطاروں کی وجہ سے ووٹرز دلبرداشتہ ہو کر واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے پولنگ سٹیشنز کے اندر بھی ووٹ کو چیلنج کر کے ووٹرز کو ہراساں کرنے کی مختلف سکیمیں بنائی ہوتی ہیں جن کے باعث پولنگ کا عمل سست ہو جاتا ہے۔ حساس علاقوں میں متعدد پولنگ ایجنٹس اپنے مخالف کے ہر ووٹر کو چیلنج کرنے کی پالیسی پر مامور ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ کار 1988ء کے الیکشن میں جنرل حمید گل نے متعارف کرایا تھا اور اس وقت اکثر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے حلقوں کے حساس پولنگ سٹیشنوں پر یہ طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ ابتدا میں ووٹ کو چیلنج کرنے کی فیس دو روپے مقرر کی گئی تھی مگر اب یہ فیس 100 روپے کر دی گئی ہے۔ سو روپے ادا کر کے ووٹر کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، ایسے ووٹر کا ووٹ علیحدہ لفافے میں شامل کر کے ریٹرننگ افسران کو بھجوایا جاتا ہے اور حتمی رزلٹ تیار کرتے وقت اس کو شمار کرنے کے مراحل بھی بڑے مشکل ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی خدشات کے باوجود انتخابات‘ مقررہ وقت پر 8 فروری کو کرانے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے روایت کے برعکس یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے جن حلقوں سے متعلق دو فروری کے بعد فیصلہ آیا ہے‘ ان حلقوں میں الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔ اِس وقت تک چار حلقوں میں ہی امیدواروں کے انتقال کے سبب انتخابات ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، ان حلقوں میں این اے 8 (باجوڑ)‘ پی کے 22 (باجوڑ)‘ پی کے 91 (کوہاٹ) اورپی پی 296 (صادق آباد) شامل ہیں۔ ان حلقوں میں انتخابات کا شیڈول بعد میں جاری ہو گا۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کے لیے سخت ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔ عام انتخابات کے نتائج الیکشن ایکٹ کے مطابق رات ایک بجے تک جاری کیے جائیں گے ‘ البتہ ملک کا میڈیا حسبِ روایت غیر حتمی‘ غیر سرکاری نتائج دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ سرکاری طور پر ریٹرننگ آفیسرز غیر حتمی رزلٹ رات ایک بجے تک جاری کریں گے۔ یہ عام روایت ہے اور حالات و واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ریٹرننگ افسران اس پر عمل درآمد کریں گے۔
تحریک انصاف نے اپنے انتخابی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن عام انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں ہی بتا دیا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد ہی کرائے جائیں گے۔ قبل ازیں تحریک انصاف نے انٹراپارٹی الیکشن 5 فروری کو کرانے کا اعلان کیا تھا حالانکہ ایسے وقت میں جب 8 فروری کا دن سر پر ہے‘ 5 فروری کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔ بادی النظر میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی اپنی پارٹی پر گرفت اب برائے نام رہ گئی ہے اور ان کے اردگرد اس وقت جو لوگ جمع ہیں‘ جو ان کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور ماضی میں بانی تحریک انصاف نے ان کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیا تھا۔
شنید ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ان کو کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت کا سگنل دیا جائے گا۔ اسی حوالے سے تحریک انصاف کی چند غیر معروف سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہو رہی ہے‘ ان جماعتوں میں سب سے اہم جماعت جس پر بانی چیئرمین متفق نظر آ رہے ہیں‘ جماعت اسلامی ہے۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی مولانا شیرانی کی جماعت کے بہت نزدیک ہے جبکہ صوبہ سندھ میں ممکن ہے کہ ان کے ایم کیو ایم رہنمائوں خالد مقبول صدیقی اور امین الحق سے رابطے ہوئے ہوں کیونکہ سابق وزیراعظم اپنے دورِ اقتدار میں ان دونوں شخصیات کی ایمانداری اور ان کے وژن سے کافی متاثر نظر آتے تھے۔ ویسے بھی متحدہ قومی موومنٹ پی ٹی آئی حکومت کی اہم اتحادی رہی اور کابینہ میں بھی اس کی نمایاں نمائندگی تھی۔ بطور وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور استفادہ کیا جاتا رہا۔ اس وقت ملک اہم ترین موڑ سے گزر رہا ہے‘ میری گزشتہ روز ملکی حالات کے حوالے سے بیرسٹر فروغ نسیم سے بات ہو رہی تھی‘ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ ملک کی وحدت و سالمیت اس وقت شدید خطرات کی زد میں ہے‘ ان سے تفصیلی گفتگو تو نہ ہو سکی لیکن ان کا اشارہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکانِ اسمبلی کے بارے میں ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ چونکہ آزاد ممبر ہوں گے لہٰذا انتخابات کے بعد ایک نئی منڈی کھل جائے گی اور ممبرانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کے بعض رہنمائوں کی جانب سے اس قسم کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔ ممکن ہے کہ آزاد اراکین کو کابینہ میں بڑا حصہ دینے کی ترغیب دے کر ٹاپ پارلیمانی جماعتیں انہیں اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں لیکن ملک کی موجودہ صورتِ حال‘ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش‘ بانی تحریک انصاف کے خلاف حالیہ فیصلوں اور ان کے امیدواروں کے خلاف مقدمات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بانی چیئرمین کی اجازت اور خواہش کے برعکس ان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہونے کے بعد کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اس وقت تحریک انصاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کاغذوں کی حد تک ہی رجسٹرڈ جماعت ہے‘ بادی النظر میں اس کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشانات بھی اُٹھ رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کی آئینی پٹیشن اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جبکہ الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے۔ انہوں نے اپنی پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ فارم 33 میں میرا نام آزاد امیدوار کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر درج کیا جائے کیونکہ میں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ بھی لف کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت کو انتخابی نشان نہیں ملا لیکن پی ٹی آئی بطور جماعت ختم نہیں ہوئی۔ لاہور ہائیکورٹ نے ان کی درخواست پر 25 جنوری کو فیصلہ محفوظ کر کے 29 جنوری کو سنایا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ میں اس پٹیشن‘ جس کا تعلق آئین کے آرٹیکل 17(3) اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 سے ہے‘ پر 8 فروری کے بعد ہی سماعت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں