"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ انتخابات کا سنگِ میل

گزشتہ روز سینیٹ کی 19نشستوں پر انتخابات کا انعقاد ہو گیا۔ ابتدائی طور پر 48 سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ ہونا تھی جس میں سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 11‘ 11 جبکہ پنجاب اور سندھ سے 12‘ 12 اور اسلام آباد سے دو سینیٹرز کا انتخاب شامل ہے‘تاہم پنجاب اور بلوچستان سے 18 سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد باقی 30 نشستوں پر انتخاب کے لیے 59 امیدوار میدان میں تھے۔لیکن خیبر پختونخوا کی 11نشستوں پر ہاؤس مکمل نہ ہونے کی بنا پر انتخابات ملتوی کر دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل (3)218 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کیے ہیں۔ سندھ میں 12نشستوں پر ہونے والے الیکشن میں سب سے زیادہ یعنی 10نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں ۔ اسلام آباد کی سینیٹ کے لیے ٹیکنو کریٹ اور جنرل نشستوں پر حکومتی اتحاد کے امیدوار و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور رانا محمود الحسن کامیاب ہوگئے ہیں۔ گوکہ مجموعی طور پر سینیٹ کی 37نشستوں پر انتخاب مکمل ہو چکا ہے لیکن چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا انتخاب نہیں ہوجاتا‘ اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک خیبر پختونخوا میں الیکٹورل کالج کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ ایونِ بالا 96 ارکان پر مشتمل ہو گا جن میں سے 23‘ 23 اراکین چار صوبوں اور چار اسلام آباد سے ہوں گے۔ ایک صوبے کے لیے مختص کردہ 23 نشستوں میں 14 جنرل نشستیں‘ 4 خواتین کے لیے‘ 4 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہیں۔محتاط حساب و کتاب کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ حکمران اتحاد کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے 96 رکنی سینیٹ میں 64 سینیٹرز کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ججز کے خط کا معاملہ زیر بحث ہے ۔پیر کے روز جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے حکومت کی طرف سے ججز خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی تھی اور چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا جو آج سے سماعت شروع کرے گا۔اس طرح یہ معاملہ صحیح پلیٹ فارم پر پہنچ گیا ہے‘ کیونکہ انکوائری کمیشن کے سربراہ کی سفارشات کے بعد بھی یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ نے ہی دیکھنا تھا۔ اب اس معاملے کی بے لاگ جانچ پڑتال کی جائے گی۔ خط لکھنے والے جج صاحبان کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جائیں گے اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی۔ انہوں نے خط میں وزیراعظم‘ کابینہ‘ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا شکریہ ادا کیا۔جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر تحفظات تھے۔ ججز نے اپنے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کو مخاطب کیا تھا‘ اس وجہ سے ان کے خیال میں کمیشن اس حوالے سے انکوائری کا مناسب فورم نہیں ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے قائم کردہ انکوائری کمیشن اس معاملے کو آگے لے کر چلتا تو وہ جج صاحبان کے الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد ہی یہ تعین کرسکتا تھا کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن نے طے کرنا تھا کہ کوئی ریاستی اہلکار نظامِ انصاف میں مداخلت میں ملوث تھا یا نہیں۔ اب یہ معاملہ چونکہ از خود نوٹس لیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں جا چکا ہے اس لیے اب عدالتِ عظمیٰ ہی اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کی مجاز ہے۔ تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن بننے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات میں مشکوک کردار کے حامل ریٹرننگ آفیسرز کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی اس انکوائری کمیشن کے سامنے رکھنے کا بازگشت سنائی دے رہی تھی ۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت چٹھہ جنہوں نے پریس کانفرنس میں دھونس اور دھاندلی کا اعتراف کیا تھا وہ بھی اس انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہو کر الزامات پر مبنی اپنی رپورٹ کمیشن میں پیش کر سکتے ہیں‘ بہرکیف تصدق جیلانی صاحب کے معذرت کر لینے سے کمیشن تشکیل ہی نہیں پاسکا‘ اس لیے اس حوالے سے جو خیالات ظاہر کیے جارہے تھے ان پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آ سکی۔معزز جج صاحبان کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں‘وہ سنگین نوعیت کے ہیں جنہیں ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں۔
تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں مداخلت کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا۔ شنید ہے کہ جب ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے گرد قانونی گھیرا تنگ ہوا تو چیف الیکشن کمشنر پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ چیف الیکشن کمشنر کومبینہ طور پر یہ پیغام پہنچایا گیا کہ ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کو ابتدائی سماعتوں پر ہی داخلِ دفتر کر دیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے اس پیغام کی آڈیو ریکارڈ کرکے کارروائی کے لیے متعلقہ فورم تک پہنچا دی تھی۔وہ کسی دبائو میں نہیں آئے اور انہوں نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ہتک آمیز مہم بھی چلائی گئی جس پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کوتوہینِ الیکشن کے نوٹس جاری کیے اور ابھی تک یہ مقدمات الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں اور ان پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔
بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹس کے کُل آٹھ میں سے چھ جج صاحبان کی طرف سے جس مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے اس کو نوٹ کروانے میں تاخیر کیوں کی گئی۔ فوراً مداخلت کے مرتکب افراد کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردینا چاہیے تھا۔اگر یہ نوٹس جاری کر دیے جاتے تو شاید سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
سیاسی رہنمائوں کے بیانات پر غور کریں تو نوازشریف‘ مریم نواز‘ خواجہ آصف اور عمران خان بھی اپنے بیانات میں مداخلت کا ذکر کر چکے ہیں‘امید ہے کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ اس معاملے پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے جس طرح سیاست ہو رہی ہے یہ غیر ضروری اور نامناسب ہے۔ اس حساس معاملے پر سیاست ملکی نظام کے لیے خطرات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ کسی کو شبہ نہیں ہوتا چاہیے کہ اداروں میں تصادم ریاست کے مفاد کے منافی ہے ‘لہٰذا وہ حلقے جو اس صورتحال کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ‘ انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے جو خط لکھا ہے اُس کی بے لاگ تحقیقات ضروری ہیں لیکن اس معاملے سے سیاسی حلقوں کی ذاتی مفاد کشید کرنے کی کوشش ملک میں سیاسی انتشار اور بد اعتمادی کو ہوا دے سکتی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے پہلے ہی احتجاجی تحریک کا اعلان کر چکے ہیں۔21اپریل کو ملک میں ضمنی انتخابات کے بعد احتجاجی تحاریک زور پکڑ سکتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں