"KDC" (space) message & send to 7575

سیاست کا توڑ سیاست

مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا فیصلہ کوئی عام فیصلہ نہیں تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے طاقتوروں کی مرضی اور منشا کے خلاف فیصلہ سنایا جس سے عدلیہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو تو سہارا مل گیا ہے مگر سٹیٹس کو کی کم ہوتی ہوئی طاقت کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ عدلیہ اور مقتدرہ کے درمیان اس وقت شدید محاذ آرائی کا تاثر ہے نتیجتاً نظام کے لپیٹے جانے اور ایمرجنسی سمیت طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں‘ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس محاذ آرائی سے مؤثر جمہوریت کا راستہ بھی نکل سکتا ہے۔ اس محاذ آرائی کا نتیجہ واضح ہے کہ اگر مقتدر حلقے بھاری پڑے تو وہ عدلیہ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر عدلیہ کا زور چلا تو وہ سیاست اور ادارہ جاتی نظم میں غیر جمہوری طاقتوں کے کردار کو کم کر دے گی۔ اب یقینا کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا اور جو بھی ہو گا ملک کے لیے بہتر ہی ہو گا۔ مگر یہ کب ہو گا‘ کیسے ہو گا اور حتمی نتیجہ کیا ہو گا اس کا اندازہ فی الحال مشکل ہے۔
مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن بھی تبدیل ہو جائے گی اور اگر اب مزید کوئی رخنہ نہ ڈالا گیا تو برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کی 119 نشستیں کم ہوکر 108 رہ جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کی نشستیں 72 سے کم ہو کر 68 ہو جائیں گی۔ جے یو آئی (ایف) کی نشستیں 10 سے کم ہو کر 8 رہ جائیں گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں نشستیں 106 تک پہنچ جائیں گی۔ دو نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بھی ہیں جبکہ مزید چھ آزاد اراکین کی شمولیت سے قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد مجموعی طور پر 114 تک پہنچ جائے گی۔سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد سے قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم‘ (ق) لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کی نشستوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ ایم کیو ایم کی 21‘(ق) لیگ کی پانچ اور استحکام پاکستان پارٹی کی چار نشستیں برقرار رہیں گی۔ اسی طرح مجلسِ وحدت المسلمین‘ بی این پی‘ بی اے پی‘ نیشنل پارٹی‘ پی کے میپ اور مسلم لیگ (ض) کی ایک ایک نشست بھی برقرار رہے گی۔ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے الیکشن کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ اس وقت کے پی کی سینیٹ کی 11 سیٹیں خالی ہیں اور امید ہے کہ پی ٹی آئی ان 11 میں سے 10 نشستوں پر بآسانی کامیاب ہو جائے گی جس سے پی ٹی آئی سینیٹ کی بھی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ اِس وقت سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے جس کے سینیٹرز کی تعداد 24 ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی تعداد 19ہے۔ ایم کیو ایم کے تین‘ جے یو آئی (ایف) کے پانچ‘ بی اے پی کے چار‘ اے این پی کے تین جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے اور آزاد سینیٹرز کی تعداد پانچ ہے۔
گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ایسا کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں‘ یہ ایک سیاسی پارٹی ہے اور اس کا نام بھی سیاسی پارٹیوں کی فہرست میں شامل ہے جو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح بھی نہیں کی‘ البتہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخاب کو درست قرار نہیں دیا تھا جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو Uphold کیا گیا۔ چونکہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست قرار نہیں پائے‘ لہٰذا الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت اس کا انتخابی نشان واپس لیا گیا۔عدالتی فیصلے میں جن 39 اراکینِ قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا رکن قرار دیا گیا ان سب نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی کا حلف نامہ جمع کرایا تھا جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کیلئے ریٹرننگ آفیسر کے پاس پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن جمع کرانا ضروری ہے۔ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا انہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی پارٹی سے وابستگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع نہیں کرایاتاہم الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت تین دن کے اندر ان اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی لہٰذا اُن کو آزاد امیدوار قرار دیناقابلِ فہم نہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ پی ٹی آئی تو اس کیس میں نہ الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ میں فریق بنی۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ فریق نہیں تھی لہٰذا اس کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس وقت کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو (ن) لیگ دفاعی اور تحریک انصاف جارحانہ سیاست کرتی نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو خوف ہے کہ جس پارٹی نے چار حلقے کھلوانے کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا‘ وہ دو تہائی اکثریت چھن جانے پر کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟ گزشتہ دنوں وزیر دفاع نے بھی ایک پریس ٹاک میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ نومبر کے بعد 2024ء کے الیکشن پر حملہ ہو گا اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے فل کورٹ بینچ بنوانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ غالباً اسی لیے تحریک انصاف کو فتنہ پرور اور دہشت گرد جماعت قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں مگر امریکہ کی جانب سے اس پر اظہارِ تشویش اور اتحادیوں کے پس و پیش کے بعد حکومت اس معاملے پر یوٹرن لیتی نظر آ رہی ہے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف پر پابندی کے لیے ممنوعہ فنڈنگ‘ نو مئی کیسز میں پارٹی قیادت کے ملوث ہونے‘ سائفر کا سیاسی استعمال اور بیرونِ ملک ریاستِ پاکستان کے خلاف لابنگ جیسی ٹھوس وجوہات موجود ہیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے محض اعلان کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 17 جماعت سازی سے متعلق ہے جس میں کوئی بھی تنظیم یا جماعت بنانے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے کو بنیادی شہری حق تسلیم کیا گیا ہے۔ البتہ اس آرٹیکل میں سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار بھی واضح کیا گیا ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان کسی پارٹی کو ملکی سالمیت اور خود مختاری کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے تو وہ اس پر پابندی کے اعلان کے 15 دن کے اندر اس معاملے کو سپریم کورٹ کو بھیجے گی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی اس معاملے میں حتمی سمجھا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں کسی بھی جماعت پر چارج شیٹ عائد کرنا اور اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاست کا توڑ صرف سیاست سے ممکن ہے۔ سیاست کا توڑ انتظامی ہتھکنڈے یا جیلیں نہیں ہوتیں۔ ایسے اقدامات سے سیاسی مخالفین کو مزید شہرت ملتی ہے۔ عمران خان کی حالیہ شہرت کے پیچھے موجودہ اور سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے غلط فیصلے ہیں‘ لہٰذا عمران خان کو مزید ہیرو بنانے کے بجائے اقتدار میں آنے دیں۔ عمران خان اگر شکست کھائے گا تو اپنی غلط سیاست اور بیڈ گورننس سے کھائے گا‘ حکومتی ہتھکنڈوں سے نہیں۔ مقتدر حلقے بھی اپنے تھنک ٹینکس کو عوامی دباؤ اور رائے عامہ کے اثرات کا 'پوسٹ مارٹم‘ کرنے کا ٹاسک دیں‘ اس سے تعمیری فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں