"KDC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال اور اندرونی خلفشار

ایران کے دارالحکومت تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد سے پوری دنیا ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو چکی ہے۔ اس وقت دنیا میں نئی عالمی دھڑے بندیوں اور تیسری عالمی جنگ کے خدشات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سب نظریں ٹکائے ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد ہی کچھ اندازہ ہو سکے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ایران نہ صرف اسرائیل کو بھرپور جواب دینے کا اعلان کر چکا ہے بلکہ قم کی جمکران مسجد کے گنبد پر سرخ پرچم بھی لہرا دیا گیا ہے جو ایرانی روایات میں انتقام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایران کے نگران وزیر خارجہ علی باقری نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ ایران کے ریاستی مہمان تھے‘ صہیونی حکومت نے ان پر حملہ کرکے سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی اور ایران کی خودمختاری کو پامال کیا ہے‘ ایران بہرصورت جوابی کارروائی کرے گا۔ دوسری طرف اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی تحقیقات کے سلسلے میں متعدد انٹیلی جنس اور ملٹری افسران کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اسماعیل ہنیہ کے گیسٹ ہاؤس کے ملازمین بھی اس وقت زیرِ حراست ہیں۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی ایک خصوصی انٹیلی جنس ٹیم اس پورے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ان عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یہ داخلی جھمیلوں میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق طاقت کا سرچشمہ کون ہے؟ سیاستدان‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ عسکری قیادت‘ میڈیا یا عوام۔ پاکستان اس وقت داخلی انتشار و خلفشار کے بھنور میں گھرا ہوا ہے حالانکہ حالیہ دنوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت اسرائیل کی مشرقِ وسطیٰ پر اپنی حاکمیت منوانے کی باتیں ہو رہی ہیں کہ اس کے میزائلوں کی زد میں پورا مشرقِ وسطیٰ ہے ۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یہ بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل اپنے مخالف کسی بھی شخص کو قتل کرا سکتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں تھنک ٹینک اسرائیل کے خطرے کے حوالے سے سر جوڑے بیٹھے ہیں مگر پاکستان میں فلسطین کے حوالے سے جو احتجاج ہو رہے ہیں‘ ان کی علامتی حیثیت بھی کمزور ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو اسرائیل کی جارحیت کی بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مذمت کے لیے مسلم ممالک کے سربراہوں کا اجلاس بلانے اور ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیر خارجہ نے ایران کے نگران وزیر خارجہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی خلفشار ‘ کمزور ترین حکومت اور شدید معاشی مشکلات کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت کو ملکی تاریخ کی کمزور ترین حکومت تصور کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومتی بوکھلاہٹ اور میں نہ مانوں کی پالیسی کی وجہ سے اندرونی تقسیم کا تاثر مزید پختہ ہوا ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ عدالتوں کی رٹ بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اب عوامی حلقوں میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ پاکستان کے تمام سیاستدان ناکام ہو چکے ہیں۔ برسر اقتدار جماعت کے سربراہ نواز شریف کا اپنا حلقہ متنازع ہو چکا ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 130 کے بارے میں غیر سرکاری تنظیموں نے مختلف دلائل کے ساتھ جو رپورٹس جاری کی ہیں‘ انہوں نے اس الیکشن کو متنازع بنا دیا ہے۔ فارم 47 کے حوالے سے ان کے دلائل میں وزن ہے اور الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس وقت صوبائی و قومی اسمبلی کی 171 نشستوں کو الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی 31 نشستوں کا معاملہ الیکشن ٹربیونلز کے زیرِ سماعت ہے اور اگر یہ 31 نشستیں فارم 45 کے مطابق تحریک انصاف کو مل جاتی ہیں تو ملک کے سیاسی نظام میں زبردست تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ خواتین اور مخصوص نشستوں میں اضافے کے بعد تحریک انصاف سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر تنہا وفاقی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ایسی صورت میں آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم شہباز شریف کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں یہ حکومت ازخود تحلیل ہو جائے گی۔ اس سے قبل اگر نواز شریف بھی الیکشن ٹربیونل کے ذریعے اپنی نشست سے محروم ہو گئے تو انتخابات کی شفافیت کا پول کھل جائے گا اور حکومت ڈگمگانے لگے گی‘ لہٰذا یہ خوف بھی الیکشن ٹربیونلز کو کسی نتیجے پر نہیں پہنچنے دے رہا۔
ان حالات میں نواز شریف کی پُراسرار اور چودھری پرویز الٰہی کی معنی خیز خاموشی ملکی سیاست پہ گہرا اثر چھوڑے گی۔ نواز شریف کو احساس ہونا چاہیے کہ نو مئی کے واقعے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اس سانحہ پر حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ دراصل وفاقی حکومت میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو نو مئی کے مجرموں کے خلاف کیس تیار کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے اس ادارے کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنا آئین کے مطابق درست نہیں۔ آئین نے چیف الیکشن کمشنر کو آرٹیکل 222 کے تحت اختیار دے رکھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو من وعن تسلیم کر لینا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو اس پر عمل درآمد کر کے اپنے ادارے کی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ملک کے سیاسی حلقوں میں اس وقت ایک نئی سیاسی پارٹی کا شور سنائی دے رہا ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد ایک اہم سیاسی جماعت کو بحال کر کے اس کی قیادت سنبھال رہے ہیں۔ اگست 2023ء میں نگران حکومت کی تشکیل کے وقت نگران وزیراعظم کے طور پر ڈاکٹر عشرت العباد کا نام زیر غور رہا اور وہ پاکستان آنے پر تیار بھی ہو چکے تھے لیکن اچانک نام نہاد اپوزیشن لیڈر کی وساطت سے انوار الحق کاکڑ کا نام سامنے آیا‘ جن کی کمزور ترین کابینہ نے ملک کی معاشی بدحالی میں اضافہ ہی کیا۔ میری اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد نے مقتدر حلقوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔
اس وقت جو حالات ہیں‘ داخلی مسائل سے اوپر اٹھ کر عالمی حالات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ مقتدر حلقوں کو مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحیت اور ملک کے اندر سیاسی خلفشار پر قابو پانے کے لیے ملک کو اندرونی تقسیم سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک سیاستدانوں کی بار بار کی رسہ کشی ریاست پر جس طرح اثر انداز ہوئی ہے‘ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج معاشی ابتری میں بھی بڑا حصہ اسی کا ہے۔ لہٰذا ملک کو اندرونی خلفشار سے بچانے کے لیے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں