"KDC" (space) message & send to 7575

مودی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟

چھ اور سات مئی کی درمیانی رات بھارت کی طرف سے پاکستان میں مساجد اور سویلین مقامات کو نشانہ بنانے ‘ آٹھ مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈرونز بھیجنے اور نو مئی کی رات پاکستان کی ایئر بیسز پر حملوں کے بعد افواجِ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بیشتر بھارتی ایئر بیسز‘ براہموس میزائلوں کی ذخیرہ گاہ اور بھارت کے دفاعی نظام ایس400 کو تباہ کر دیا۔ بھارت پر فتح وَن اور ٹُو میزائلوں کی بارش کر کے آدم پور‘ بٹھنڈہ‘ سورت گڑھ‘ پامپور‘ جموں‘ سرسہ اور برنالہ ایئر بیسزکو نشانہ بنایا گیا۔ افواجِ پاکستان نے جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ایسی طاقتور جوابی کارروائیاں کیں کہ بھارت چند گھنٹوں میں ہی پسپائی اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت پاکستان کی اس بھرپور جوابی کارروائی سے بوکھلا گئی۔ بھارتی حکام نے فوراً امریکہ سے رابطہ کیا اور سیز فائر پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ہفتے کے روز سے اب تک دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے مابین تین مرتبہ رابطہ ہو چکا ہے جس میں جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ جنگ بندی پر مجبور ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا کیونکہ ایک تو اسے پاکستان کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے‘ دوسرا عالمی بینک کے صدر نے بھی واضح کر دیا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا‘ یہ معاہدہ صرف اُسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے یا اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے جب دونوں فریقین اس پر راضی ہوں۔
پاکستان امن کا علمبردار ملک ہے جس واضح ثبوت یہ ہے کہ جب بھارت کی طرف سے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان پر بلاجواز الزام تراشی کی گئی اور حملے کی دھمکیاں دی جانے لگیں تو پاکستان نے بھارت کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کسی عالمی فورم سے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی پیشکش کی جسے بھارت کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ بھارت اپنی عسکری طاقت کے زعم میں مبتلا تھا ‘ اس نے ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سمجھ لیا تھا لیکن افواجِ پاکستان کے منہ توڑ جواب نے بھارت کی ساری غلط فہمیاں دور کر دی ہیں۔
بہر حال چار روزہ کشیدگی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا تصادم وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور اس میں امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت پاکستان کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکام رہا جبکہ پاکستانی افواج نے بھارتی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو ایک فاتح قوت کے طور پر منوایا ہے۔ پاکستانی عوام بھی اپنی افواج کے ساتھ مکمل طور پر متحد نظر آتے ہیں۔ اس فتح مبین کا سہرا جنرل عاصم منیر کے سر ہے جنہوں نے اس آپریشن کو قرآن مجید کی ایک آیت کے الفاظ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کا نام دے کر دشمن کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے عوام اور افواج دفاعِ وطن کی خاطر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ تاہم اس ساری صورتحال کے دوران حکمران جماعت کی مرکزی قیادت منظر سے غائب رہی اور عوام میں یہ چہ مگوئیاں ہوتی رہیں کہ شاید وہ مودی سرکار کے خلاف کوئی بیان دینے سے گریزاں ہیں اسی لیے منظر عام سے غائب ہیں‘ اوراب یہی سیاسی قیادت افواجِ پاکستان کے اس عظیم کارنامے کا کریڈٹ لینے کے لیے آگے آگے ہے۔ اُن کی حامی کچھ اینکرز اور پارٹی کارکنان بھی بھارت کے خلاف پاکستان کی اس کامیابی کا سہرا اپنی سیاسی قیادت کے سر باندھنے میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب پاک بھارت جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود کو عالمی امن ساز کے طور پر پیش کررہے ہیں اور ان کے وزیر خارجہ اس جنگ بندی کو اپنی پہلی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔افواجِ پاکستان کے ترجمان قوم کو بتا چکے ہیں کہ پاکستان کس طرح بھارتی جارحیت کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس مختصر سی جنگ میں افواجِ پاکستان فاتح بن کر اُبھری ہیں اور پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ جبکہ سیاسی رہنما اس دوران خاموشی سے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے‘ اور ان کی اس پُراسرار خاموشی سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
بھارت کو اس مِس ایڈونچر کا بھرپور جواب ملنے کے بعد پاکستان کو فی الوقت بھارتی جارحیت کا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ رواں برس بھارت کی ریاست بہار میں جو الیکشن ہونے جا رہے ہیں‘اس مِس ایڈونچر کے بعد ممکن ہے کہ بی جے پی کو اُن میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ بھارت کی انتہاپسند جماعت بی جے پی اگلے مرکزی انتخابات میں پارلیمنٹ سے باہر نظر آ رہی ہے۔ راہول گاندھی نریندر مودی کی جگہ لینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ اس شکست کے بعد مودی سرکار ہر ممکن کوشش کرے گی کہ دونوں ملکوں کے مابین کسی قسم کے مذاکرات نہ ہو سکیں کیونکہ مذاکرات سے خطے میں امن قائم ہو گا جبکہ امن و امان مودی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ مگر مودی کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان اب اس کے کسی بھی مِس ایڈونچر کا بھرپور جواب دینے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔
اس عظیم فتح کی یاد میں حکومت نے ہر سال 10مئی کو یومِ معرکہ حق کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے بھارت کے خلاف اس معرکے کو معرکۂ حق کا نام دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 10 مئی ویسے بھی تاریخی طور پر ایک اہم دن ہے۔ 1857ء میں اسی روز مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تھا مگر اب 10 مئی 2025ء کو پاکستان نے بھارت کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے تاریخ کا نیا باب رقم کیا ہے۔ اس معرکے نے نریندر مودی کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں بھارت کی مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ یعنی پاکستان کو نہ صرف جنگی محاذ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے بلکہ دنیا کی نظر بھی پھر سے مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا ہے‘ جسے بھارت اپنے تئیں اگست 2019ء میں حل کر چکا ہے۔
16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے بھارت نے خود کو خطے کی سب سے بڑی طاقت سمجھ لیا تھا مگر افواجِ پاکستان کی 10 مئی کی کارروائی نے بھارتی طاقت کا طلسم توڑ دیا ہے اور دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان بھارت کی ٹکر کا ملک ہے۔افواجِ پاکستان سے ہزیمت اٹھانے کے بعد سے بھارت کی عسکری قیادت اور مودی نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اپنے ہی میڈیا اور عوام کی سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کارروائی سے جہاں بھارتی وزیراعظم کا سیاسی مستقبل تاریک ہوا ہے وہیں بھارتی عوام نے اپنے پارلیمانی نظام پر بھی سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
اب جنگ کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ مودی کی اس چال کا واضح مقصد پاکستان کو اشتعال انگیزی پر اُکسا کر عالمی سطح پر تنہا کرنا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے اس ساری صورتحال کو کمال صبر و تحمل سے ہینڈل کیا گیا۔ پاکستان نے چینی جنگی جہازوں اور میزائلوں کی مدد سے بھارتی جارحیت کو خطے کے توازن میں بدل دیا ہے۔ بھارت کی نفسیاتی برتری‘ جو اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھی‘ نیست و نابود ہو چکی ہے۔ نہ صرف بھارت کی نفسیاتی برتری بلکہ اس کے جنگی جہاز بالخصوص تین رافیل طیارے بھی تباہ ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کا اَکھنڈ بھارت کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔ یعنی اس معرکے کے بعد بھارت کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔دنیا اب پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اب خطے کی قیادت پاکستان کے ہاتھ میں ہے بشرطیکہ ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں