سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما‘ ممبر قومی اسمبلی اور قائدِحزب اختلاف عمر ایوب خان کے خلاف نااہلی کا جو ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کیا گیا تھا گزشتہ روز اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سماعت ہوئی۔عمر ایوب سماعت میں پیش ہوئے اور الیکشن کمیشن سے وکیل کرنے کے لیے مہلت طلب کی۔ دورانِ سماعت عمر ایوب نے مؤقف اختیار کیا کہ جلد ہی بجٹ اجلاس شروع ہو رہا اور میں فنانس کمیٹی کا رکن ہوں‘ وہاں پر دو ہفتے تک مسلسل بجٹ میٹنگز ہوتی ہیں۔ مجھے بجٹ اجلاس اور وکیل مقرر کرنے کے لیے وقت دیں‘ جولائی کے مہینے میں سماعت رکھ لیں۔ جس پر ممبر الیکشن کمیشن سندھ نے کہا کہ سپیکر ریفرنس پر 90 دن کا وقت ہوتا ہے۔ ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے اگست تک کا وقت ہے اس لیے اس معاملے کو طول نہیں دے سکتے‘ لیکن بعد ازاں الیکشن کمیشن نے عمر ایوب کی استدعا مان لی اور کیس کی سماعت یکم جولائی تک ملتوی کر دی۔عمر ایوب خان کے خلاف نااہلی کا یہ ریفرنس سابق رکن قومی اسمبلی بابر نواز کی جانب سے جمع کرایا گیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ عمر ایوب خان نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات میں غلط بیانی کی ہے۔ عمر ایوب خان نے متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاری ویزے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع یا نقصان کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔مزید یہ کہ انہوں نے ایک کمپنی کے حصص اور منافع کو بھی ظاہر نہیں کیا جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کا باعث بن سکتا ہے۔ عمر ایوب خان کے خلاف یہ ریفرنس بظاہر نواز شریف کے 27 جولائی 2017ء کے پانامہ کیس سے ملتا جلتا ہے۔ نواز شریف نے بھی اقامہ کو چھپائے رکھا اور اسی بنیاد پر ان کو نااہل قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا‘ لیکن اب چونکہ نواز شریف اقامہ کیس میں بری ہوچکے ہیں اور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نواز شریف کے خلاف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر آئین کے آرٹیکل62اور63(A) کی مکمل وضاحت بھی دے چکے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بنچ عمر ایوب خان کے کیس میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی کارروائی آگے بڑھائے گا۔
دوسری جانب اتوار کے روز پنجاب اسمبلی کے حلقہ 52میں ہونے والی ضمنی الیکشن کے نتائج سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ 2008ء کے بعد سے پنجاب میں ووٹنگ کا طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے اور سیاسی واقعات بھی تبدیل ہورہے ہیں۔اگر اس ضمنی الیکشن کے نتائج کا بغور جائزہ لیا جائے تو اسے دھاندلی زدہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ برسر اقتدار جماعت کو ہی ووٹ دیے جاتے ہیں اور اپوزیشن ہمیشہ گھاٹے میں رہتی ہے۔ اس الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حنا ارشد وڑائچ کو 71 ہزار ‘ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار فاخر نشاط گھمن کو 39ہزار اور پیپلز پارٹی کے امیدوار راحیل کامران چیمہ کو تقریباًسات ہزار ووٹ ملے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن ابھی خاصی کمزور ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی پنجاب میں صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہو گا۔پیپلز پارٹی اس مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہے جبکہ ان کے گورنر کا بھی کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے گورنر ہاؤس میں مقیم ہیں۔ وہ پشاور اور اپنے علاقے کا رُخ نہیں کرتے اور صرف مخصوص میڈیا پرسنز ہی ان کی مصروفیات کو کور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ 52میں کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر شور مچانے کی اصل وجہ ریٹرننگ افسر کی تعیناتی ہے جو سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ شنید ہے کہ اس الیکشن کا ریٹرننگ افسر ایک ایڈیشنل کمشنر تھا جو آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات میں خواجہ آصف کے حلقے کا ریٹرننگ افسر تھا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کو انتظامی امور پر دسترس حاصل ہے‘ بالخصوص چیف الیکشن کمشنر پنجاب کی بیوروکریسی کو بہت قریب سے جانتے ہیں کیونکہ وہ خود کافی عرصہ تک صوبائی انتظامیہ میں اہم پوزیشن پر تھے‘ انہیں ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کو بھی اپنی اندرونی کشمکش پر دھیان دینا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے اس حلقہ میں جس امیدوار کو ٹکٹ دیا اس کا ووٹ بینک برائے نام تھا‘ جو 39ہزار ووٹ اس امیدوار کو ملے ہیں وہ محض عمران خان کی بدولت ملے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہے لیکن صوبے میں اپنی کمزور پارٹی پوزیشن کی بات نہیں کر رہی۔
بعض سیاسی اور سفارتی حلقوں کے مطابق نواز شریف عملی سیاست سے باہر ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اپنی عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اصل طاقت اور مقتدرہ کا اعتماد شہباز شریف کے پاس ہے اور شہباز شریف کو اب نواز شریف سے کوئی سیاسی خوف نہیں۔ اب وہ نواز شریف کے اثر سے نکل چکے ہیں اور اپنی خود مختار سیاست کا آغاز کرچکے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران نواز شریف کی کئی روز تک پُراسرار خاموشی نے بھی عوام کے ذہنوں میں کئی سوال پیدا کیے ہیں۔شنید ہے کہ پنجاب حکومت میں اہم تبدیلی اور متبادل قیادت کو آگے لانے کا منصوبہ بھی تیار ہے۔ یہ اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ بجٹ کی منظوری کے بعد ملک کے اندرونی سیاسی نظام‘ پارلیمنٹ کی کارکردگی اور صوبائی حکومتوں کی ناکام پالیسیوں پر غور و خوض کیا جائے گا‘ جس کا مقصد کوئی ایسا فارمولا تیار کرنا ہے جس سے سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ ہو سکے اور تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفادات کی خاطر متحد ہو سکیں۔
ادھر ایک تہلکہ خیز خبر بنگلہ دیش سے آئی ہے کہ وہاں کے کرنسی نوٹوں سے شیخ مجیب الرحمن کی تصویر ہٹا کر نئے ڈیزائن والے نوٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ نئے نوٹوں میں بنگلہ دیش کے تاریخی ورثے اور ثقافتی پہچان کو اُجاگر کرنے والے فن پارے شامل کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے ترجمان کے مطابق اب سے تمام نوٹ غیر جانبدار طور پر ڈیزائن کیے جائیں گے اور ان پر کسی بھی شخصیت کی تصویر شامل نہیں کی جائے گی۔ اس پالیسی کا مقصد کرنسی کو شخصی وابستگی سے آزاد کرنا اور قومی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ایک وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت قومی کرنسی کو محض مالیاتی شناخت نہیں بلکہ ثقافتی اظہار کا ذریعہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان واقعات کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ بھارت فرار ہو گئی تھیں اور تب سے وہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت‘ عوام‘ میڈیا‘ سرکاری ادارے اور تھنک ٹینک بڑے باشعور ہیں۔ ان کی سوچ قومیت اور وطن کے مطابق ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے ۔