رواں ماہ کے آغاز میں وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہا تھا کہ شملہ معاہدہ ختم ہوگیا‘ کنٹرول لائن کو اب سیز فائر لائن سمجھا جائے لیکن اُس سے اگلے ہی روز وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ حکومتِ پاکستان نے تاحال شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔وزیر دفاع کی طرف سے یہ بیان شاید بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے تناظر میں دیا گیا تھا لیکن ایسے بیانات سے پہلے ملک کی خارجہ پالیسی کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
شملہ معاہدہ جولائی 1972ء میں صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے مابین طویل مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں بھارتی سیکرٹری خارجہ پی کے دھر نے نہایت عیاری سے ''لائن آف کنٹرول‘‘ کو انگریزی میں بڑے حروف میں تحریر کیا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس پر لکیر کھینچ دی اور اسے چھوٹے حروف میں لکھنے پر زور دیا۔ اِندرا گاندھی نے مسکراتے ہوئے کہا: جناب صدر! اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تو بھٹو صاحب نے وضاحت کی کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بڑے حروف میں لکھنے سے اس کی حیثیت دائمی سمجھی جائے گی جبکہ چھوٹے حروف میں عام فہم انداز سے لکھنے سے معاہدے پر مستقبل میں نظرِ ثانی ممکن ہو گی۔ اگر بھارتی سیکرٹری خارجہ پی کے دھر کے لکھے الفاظ کو برقرار رکھا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ پاکستان نے بھارتی مؤقف اور کشمیر پر اس کے قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ نکتہ ہماری وزارتِ خارجہ میں انڈیا ڈیسک کے ڈائریکٹر اے ستار نے اٹھایا تھا جسے بھٹو صاحب نے آگے بڑھایا۔ بعد ازاں اے ستار مشرف حکومت میں وزیر خارجہ بھی رہے۔ اے ستار محبِ وطن‘ ذہین اور باریک بین انسان تھے۔بدقسمتی سے آج وزارتِ خارجہ ایسے ذہین بیوروکریٹس سے محروم ہو چکی ہے۔
شملہ معاہدہ پُراسرار انداز میں طے پایا تھا۔ شنید ہے کہ اندرا گاندھی کو یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں گی جس سے عوام بتدریج مسئلہ کشمیر کو بھول جائیں گے۔ وزیراعظم اندرا گاندھی‘ وادیٔ کارگل‘ جو کشمیر کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے‘ کو حاصل کرنے کی خواہش مند تھیں۔ کارگل 1948ء سے 1972ء تک پاکستان کے قبضے میں رہا۔ وادیٔ لیپا بھی بھارت کیلئے ایک اہم چوکی تھی۔ اندرا گاندھی نے چالاکی سے کارگل اور وادیٔ لیپا کا بالائی حصہ بھارت میں شامل کروا لیا۔ اس کے عوض 90 ہزار پاکستانی قیدیوں کو واپس بھیجنے کا اعلان کر دیا اور ان پر جنگی جرائم کے مقدمات کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔ پاکستانی عوام اس معاملے سے بے خبر رہے اور صدر بھٹو خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے شملہ سے لاہور واپس آ گئے‘ حالانکہ پاکستان کے دو قیمتی اور حساس علاقے اس معاہدے کے تحت بھارت کے پاس چلے گئے تھے۔
کارگل ہمیشہ سے بھارت کیلئے ایک حساس اور اہم ترین وادی رہی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے کارگل کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا تھا تاہم معاہدۂ تاشقندکے دوران روسی وزیراعظم کوسی جین کی مداخلت پر بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے وہ حصہ بھی پاکستان کو واپس کر دیا۔ بھارتی وزیراعظم نے مذاکرات میں کارگل کی واپسی کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے اسے بھارتی پارلیمنٹ سے مشروط کرنا چاہا لیکن روسی وزیراعظم کی یہ دھمکی کہ اگر کارگل واپس نہ کیا گیا تو روس کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل میں ویٹو کا استعمال بند کر دے گا‘ بھارتی قیادت کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوئی۔مگر یہی کارگل شملہ معاہدے کے تحت بھارت کے پاس چلا گیا جس کی واپسی کیلئے جنرل مشرف نے 1999ء کی کارروائی کی تھی۔
شملہ معاہدے سے پیشتر جون 1972ء میں صدر ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنے پریس سیکریٹری خالد حسن کے توسط سے تین اہم مضامین پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر کو ارسال کیے۔ اس وقت میری پوسٹنگ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ایک ذیلی ادارے میں تھی۔ مجھے سیکرٹری اطلاعات و نشریات ممتاز علوی نے خصوصی ہدایت دی کہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر احمد حسن سے ملاقات کر کے ان مضامین کی فوری اشاعت کا بندوبست کیا جائے۔ اس دوران نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین حامد محمود سے بھی ملاقات کر کے ان مضامین کی اہمیت سے آگاہ کرنا تھا۔ میں نے حامد محمود سے ملاقات کر کے شملہ کانفرنس کے موقع پر ان مضامین کی اشاعت کے سلسلے میں سیکرٹری اطلاعات کا پیغام پہنچایا جس پر انہوں نے ان کی اشاعت کا فوری حکم جاری کر دیا۔ پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والے ان مضامین میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ کشمیر‘ قانونی نقطۂ نظر سے پاکستان اور بھارت کا کم اور ''بھارت اور کشمیر‘‘ کا زیادہ بڑا تنازع ہے‘ اس لیے ماضی کو ترک کر دینا چاہیے۔ دوسرے مضمون میں دو قومی نظریے پر اعتراض کیا گیا جبکہ تیسرے مضمون میں بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن بنانے کی وکالت اور کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت سے دستبرداری کی حمایت کی گئی تھی۔ ان مضامین کے متن کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں نے ممتاز علوی کو ان کے گہرے مضمرات سے آگاہ کیا۔ ان مضامین کی اشاعت کے بعد مولانا کوثر نیازی نے بھی ایک خفیہ مراسلے کے ذریعے صدر بھٹو کو اطلاع دی کہ ان مضامین کی اشاعت سے عسکری حلقوں میں بے چینی جنم لے رہی ہے اوریہ تاثر ابھر رہا ہے کہ صدرِ پاکستان بھارت کیساتھ کنفیڈریشن کی آڑ میں متحدہ ہندوستان کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال پر بھٹو صاحب نے ان مضامین کی اشاعت میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ تاہم 16اکتوبر 1973ء کو شیخ حامد محمود نے اعتراف کیا کہ یہ تمام مضامین ''پاکستان ٹائمز‘‘ میں صدرِ پاکستان مسٹر بھٹو کی منظوری ہی سے شائع کیے گئے تھے۔ امکان ہے کہ شیخ حامد محمود کا اعترافی نوٹ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ریکارڈ میں آج بھی موجود ہو۔شملہ معاہدے کے مضمرات نہ صرف زمینی نوعیت کے تھے بلکہ نظریاتی اساس کو بھی چیلنج کرتے تھے۔ اس معاہدے کے تحت سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دے کر اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا گیا۔ اس تبدیلی نے بھارت کی کشمیر پر حاکمیت کو ایک قانونی جواز مہیا کر دیا۔
13 دسمبر 1972ء کو میری خاتونِ اول محترمہ نصرت بھٹو سے ایوانِ صدر میں ملاقات ہوئی جس کا مقصد انہیں خدشات سے آگاہی دینا تھا۔ نصرت بھٹو نے استفسار کیا کہ بھٹو کی عوامی مقبولیت میں کمی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ عوام میں یہ تاثر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو متحدہ ہندوستان کے صدر بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور انہوں نے وزارتِ اطلاعات میں ایک خفیہ سیل قائم کر رکھا ہے جس میں بھارت نواز صحافیوں کو پے رول پر رکھا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس بارے میں صدرِ مملکت کو آگاہ کریں گی۔
وزیر دفاع کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ شملہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر کالعدم قرار دینے سے پاکستان بھارتی جارحیت کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست پاکستان اور بھارت کے مابین طے پایا تھا۔ اسکے برعکس معاہدۂ تاشقند میں روسی وزیراعظم ضامن تھے اور اس میں پاکستان کا مؤقف تسلیم کیا گیا تھا‘ تاہم معاہدۂ تاشقند کو امریکہ نے ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے سبوتاژ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت وزیر خارجہ تھے‘ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ معاہدۂ تاشقند سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ شملہ اور تاشقند معاہدوں کی اصل روح کو سمجھنے کیلئے معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی کتاب Secrets of Tashkent کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح شملہ معاہدے سے قبل پاکستان ٹائمز میں کشمیر اور بھارت سے کنفیڈریشن کی راہ ہموار کرنے کیلئے جو مضامین شائع کرائے گئے‘ ان کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔