"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن میں فارمولا چل گیا

ایک سال سے زائد تاخیر کے بعد گزشتہ روز خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن کا عمل مکمل ہو گیا۔اس الیکشن کے دوران ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کیلئے صوبائی حکومت اور اپوزیشن میں چھ پانچ کا فارمولا طے پایا تھا‘ اس فارمولے کے مطابق پی ٹی آئی کو بلامقابلہ چھ جبکہ اپوزیشن کو پانچ نشستیں ملنی تھیں‘ تاہم پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے دستبردار نہ ہونے سے بلامقابلہ انتخاب ممکن نہ ہوسکا۔ اگرچہ پی ٹی آئی قیادت اتوار کی رات تک چار ناراض ارکان کو منانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن خرم ذیشان کے دستبردار نہ ہونے پر پولنگ کروانا پڑی۔اس الیکشن میں 11 نشستوں کیلئے 25 امیدوار میدان میں تھے‘ اور 145 ارکانِ اسمبلی نے ووٹ دیا۔جنرل نشستوں پر حکومت نے چار جبکہ اپوزیشن نے تین امیدوار میدان میں اتارے‘ خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں پر دونوں جانب سے دو‘دو امیدواروں نے قسمت آزمائی کی۔پی ٹی آئی نے جنرل نشستوں پر مراد سعید‘ فیصل جاوید‘ مرزا آفریدی اور پیر نورالحق قادری کو میدان میں اتارا تھا جبکہ خواتین کی نشست پر روبینہ ناز اور ٹیکنوکریٹ کے لیے اعظم سواتی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ اپوزیشن کی جانب سے جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے نیاز احمد‘ پیپلز پارٹی کے طلحہ محمود اور جے یو آئی (ف) کے عطا الحق امیدوار تھے۔ خواتین کی نشست پر پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد جبکہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر جے یو آئی (ف) کے دلاور خان مقابلہ کر رہے تھے۔ گزشتہ رات سامنے آنے والے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے چھ جبکہ صوبائی اپوزیشن نے سینیٹ کی پانچ نشستیں حاصل کر لیں۔ ادھر پنجاب میں پروفیسر ساجد میر کی وفات سے خالی ہونے والی سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حافظ عبدالکریم اپوزیشن کے امیدوار مہر عبدالستار کے 99 ووٹوں کے مقابلے میں 243 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ تین ووٹ مسترد ہوئے۔ایوانِ بالا میں حکمران اتحاد کو اب دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔حالیہ سینیٹ الیکشن کے بعد ایوان بالا میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 26‘ پی ٹی آئی کی 22 اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 20ہو گئی ہے۔یعنی پیپلز پارٹی ایوانِ بالا کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔
سینیٹ الیکشن کے بعد ایوانِ بالا میں حکومت کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی ہے اور قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں واضح اکثریت ملنے سے اسے نئی آئینی ترامیم کے حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم یہ آئینی ترامیم ریاستی مفادات کے تناظر میں ہونی چاہئیں۔ اگر حکومت کی طرف سے آئین میں ترامیم کا کوئی سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ان میں مزید صوبوں کے قیام‘ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کیلئے براہِ راست انتخابات‘ آئین کے آرٹیکل 140-Aمیں ترمیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی‘ نیز آرٹیکل 243 اور 62 میں بھی ترامیم ہونی چاہئیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت سے مزید ضروری ترامیم بھی کی جائیں تاکہ آئندہ انتخابات پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔اسی طرح زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی اجازت ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ دستور میں پائے جانے والے ابہام کو ختم کرنے کیلئے واضح اور مؤثر ترامیم کی جانی چاہئیں۔مستقل سیاسی استحکام‘ عالمی طاقتوں کے ساتھ باوقار معاہدات‘ پاکستان کو جنوبی ایشیا کی ایک مؤثر قوت اور نظریۂ پاکستان کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے پارلیمانی نظام کو فرانس کے نظام سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم کی ڈائری کے اوراق اور موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں فرانسیسی طرزِ جمہوریت ہمارے مزاج کے قریب محسوس ہوتا ہے۔
ملک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں اربابِ اختیار کو قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے بھی فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں گول میز کانفرنس منعقد کر کے عدلیہ‘ انتظامیہ‘ میڈیا اور الیکشن کمیشن سے متعلق اصلاحات پر سنجیدہ غور ضروری ہو چکا ہے۔ ملکی استحکام کیلئے ریاستی اداروں کا شفاف احتساب بھی بہت اہم ہے۔ سکیورٹی صورتحال بالخصوص بین الاقوامی حالات کے تناظر میں وسیع تر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے اہم سیاسی رہنماؤں سردار اختر مینگل‘ ڈاکٹر عبد المالک‘ سردار یار محمد رِند اور محمود خان اچکزئی سے اُسی طرز پر مذاکرات کیے جانے چاہئیں جیسے ماضی میں چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید کے ذریعے نواب اکبر بگٹی سے مفاہمت کیلئے کیے گئے تھے‘ جنہیں جان بوجھ کر سبوتاژ کیا گیا اور اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے حقوقِ بلوچستان کے نام سے ایک مثبت پروگرام شروع کیا تھا؛ اس پر مزید مثبت پیشرفت ہونی چاہیے؛ البتہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کیلئے کسی نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
دیکھا جائے تو اکثر بلوچ قبائل 1947ء ہی سے مرکزی دھارے اور جمہوری عمل میں شامل نہیں ہوئے۔ نواب آف قلات‘ نواب احمد یار خان کو بھی یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی اور قیامِ پاکستان کے بعد آزاد ریاستِ قلات کے قیام کی سازش رچائی گئی تاہم گورنر جنرل ‘قائد اعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان نے لسبیلہ‘ کلہان اور خاران کی ریاستوں کا پاکستان سے الحاق کروا کر ان کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا اور ان ریاستوں نے 27 مارچ 1948ء کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا۔ اس مرحلے پر نواب اکبر بگٹی‘ مندوخیل‘ جمالی اور رئیسانی قبائل نے وفاق کا ساتھ دیا۔ تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ ریاستِ قلات کے کچھ اہم سرداروں‘ جن میں غوث بخش بزنجو اور پرنس عبدالکریم شامل تھے ‘ نے بھارتی وزیراعظم نہرو سے مداخلت کی درخواست کی جسے نہرو نے مسترد کر دیا تھا۔ شنید ہے کہ سر ظفراللہ خان اور قاضی محمد عیسیٰ کی طرف سے بھی آزاد ریاستِ قلات کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر قائداعظم نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
ملک میں سیاسی استحکام‘ معیشت کی بحالی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اعلیٰ سول و عسکری قیادت متحد نظر آتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی واشگاف الفاظ میں ان افواہوں اور قیاس آرائیوں کی تردید کر چکے ہیں کہ آصف علی زرداری صاحب کو صدرِ مملکت کے عہدے سے سبکدوش کیا جا رہا ہے۔ میری اطلاعات بھی یہی ہیں کہ میڈیا کے کچھ حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز اعلیٰ حلقوں میں زیرِغور ہے۔دوسری جانب حکومت کی اتھارٹی کمزور ہونے‘ وزارتِ خارجہ اور ایف بی آر کے نظام پر سوالات اٹھنے کے باعث آج کل روز کرپشن کی نئی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جن میں کھربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا ذکر ہے مگر انہیں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ 15سے زائد سرکاری ادارے مجموعی طور پر 59کھرب روپے سے زائد کے نقصان میں جا چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی 40 ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں بھی حالات زیادہ اچھے نہیں۔ گورننس کے دعووں کے باوجود زمینی حقائق تسلی بخش نہیں ہیں۔ کرپشن کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی اہم وجہ مہنگی پٹرولیم مصنوعات ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ ایران سے سستا پٹرول اور گیس خریدنے پر غور کیا جائے تاکہ عوام پر معاشی بوجھ کم ہو سکے۔ اپنے معاشی حالات کے تناظر میں ہمیں امریکی دباؤ سے نکلنے کی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ ملک ریاض اور اعلیٰ قیادت کے مابین مفاہمت آخری مراحل میں ہے۔ اگر یہ مفاہمت ہوجاتی ہے تو بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا جو ملک کیلئے خوش آئند ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں