"MIK" (space) message & send to 7575

کرو یا مَرو

ہماری ایک تابندہ روایت ہے کہ اگر کوئی اکاؤنٹ کھلا ہوا ہو تو سب کچھ اُسی میں ڈال دو۔ یہ روایت سیاست، معیشت، ریاستی میکنزم اور کرکٹ ... ہر معاملے میں بہت نمایاں دکھائی دیتی رہی ہے۔ معین خان کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اُنہوں نے ایک غلطی کی اور اُس کا خمیازہ یوں بھگتا کہ اچھا خاصا ٹور داؤ پر لگ گیا۔ اور داؤ پر کیا لگا، ہار بھی گئے۔
ایک بار پھر یہ ہوا ہے کہ کسی ایونٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے اور ہمارے لیے do or die یعنی ''کرو یا مرو‘‘ کا مرحلہ آگیا ہے۔ ورلڈ کپ میں پہلے دونوں میچ ہارنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ زمبابوے کو شکست دے کر اکاؤنٹ کھولے۔ توقعات اور اُمیدوں کا دباؤ اِس قدر ہے کہ کپتان مصباح الحق کو بھی کہنا پڑا ہے کہ کرکٹ ٹیم کے بارے میں افواہیں پھیلانے والوں کو قوم مُسترد کردے، اُن کی باتوں پر دھیان نہ دے۔
بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ بہت سی ٹیمیں کسی ایونٹ میں نشیب و فراز کے مراحل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں۔ ایک یا دو میچوں میں شکست سے سب کچھ ختم نہیں ہو جاتا، سارے پیمانے تبدیل نہیں ہوجاتے۔ مگر ہم ہر معاملے کی طرح کرکٹ کو بھی دِل و دِماغ پر سوار کرلیتے ہیں۔ ٹیم نے دو میچ ہارے تو پوری قوم نفسیاتی طور پر کلین بولڈ ہوگئی۔ ایسا اشتعال پیدا ہوا کہ کنٹرول لائن پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ سے بھی پیدا نہیں ہوتا۔ سبھی چیخ پڑے۔ وہ شور مچا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہ دی۔
ایسے میں بھلا ہو معین خان کا جنہوں نے آسٹریلیا میںکسینو جاکر قوم کے غم اور غُصّے کو بہہ نکلنے کے لیے نالی فراہم کردی۔ ایسا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ معین خان کو وطن واپسی کا ٹکٹ کٹاتے ہی بنی۔ وہ شاید یہ سوچ رہے تھے کہ جس طرح بیٹنگ میں امپائر شک کا فائدہ دیا کرتا ہے بالکل اُسی طرح قوم شک کا فائدہ دے گی مگر یہاں تو لوگ ''یقین کا خسارہ‘‘ دینے پر تُل گئے تھے۔
قوم نے پہلے بھارت اور پھر ویسٹ انڈیز سے شکست پر ضرورت سے زیادہ اور قدرے غیر منطقی ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ مگر اِس میں غیر منطقی کیا تھا؟ جب ٹیم جیت جاتی ہے تو ساری منطق بالائے طاق رکھ کر جشن منانے کے معاملے میں بھی تو ہم حد سے گزر جاتے ہیں۔ ہم ہیں ہی ایسے۔ محبت بھی انتہا کی، نفرت بھی انتہا کی۔ بقول ضیاءؔ جالندھری ؎
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے!
پے در پے دو میچ ہارنے پر جب قوم نے ٹیم کی کلاس لینا شروع کیا تو کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان کے لیے بھی الجھن پیدا ہوئی۔ ٹیم کی کارکردگی اُن کی اہلیت پر بھی سوال اُٹھا رہی تھی۔ ایسے میں اُنہیں میڈیا کے سامنے آنے کے لیے موقع کا انتظار تھا۔ معین خان کی غلطی نے اُنہیں میڈیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ شہریار خان نے معین خان کے حوالے سے قوم کا غُصّہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی‘ جو ناکام رہی۔ قوم چیف سلیکٹر کی معافی قبول کرنے کو تیار نہ ہوئی اور اُن کی واپسی کے مطالبے پر قائم رہی۔ شہریار خان نے جب دیکھا کہ قوم کسی طور نہیں مان رہی تو ہتھیار ڈال دیئے اور معین کو طلب کرلیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ قومی ٹیم کا دفاع کرنے کی غلطی بھی کر بیٹھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم پر ضرورت سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ یعنی یہ کہ کھیل میں یہ سب چلتا ہے، کوئی ٹیم خراب کارکردگی کا بھی مظاہرہ کرتی ہے اور بعد میں اپنی اصلاح بھی کرلیتی ہے۔
شہریار خان نے قومی ٹیم کی ڈھارس بندھانے کی جو کوشش کی وہ قوم سے ہضم نہ ہوئی۔ وہ شاید ''تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ والے گیت کے تناظر میں قوم کو رام کرنا چاہتے تھے۔ شہریار صاحب بھول گئے کہ جب پاکستانی بپھر جائیں تو ایسے گیتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی یہ گیت شاید گزشتہ برس بنگلہ دیش میں پہلے میزبان اور بھارت کی ٹیم کو ہرانے کے حوالے سے تیار کیا گیا تھا۔ راؤنڈ کے میچ میں بنگلہ دیش اور پھر سیمی فائنل میں بھارت کو ہرانے پر قوم اِتنی خوش تھی کہ فائنل میں سری لنکا سے ٹاکرے کی کسی کو ذرا بھی پروا نہ تھی۔ ہم نے سری لنکا کو وہ فائنل بہت حد تک پلیٹ میں رکھ کر دیا مگر قوم نے پلٹ کر نہ پوچھا۔ بھارت کو ہرا دینا کافی تھا!
ورلڈ کپ ابھی شروع ہوا تھا کہ ہم اپنے stakes داؤ پر لگا بیٹھے۔ قوم آس لگائے بیٹھی تھی کہ بھارت کو ہراکر ورلڈ کپ میں اُس کے ہاتھوں شکست کا سلسلہ روکیں گے۔ مگر قومی کرکٹرز نے قوم کا دِل توڑ دیا۔ ہر شخص کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا ؎
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ مِرا دُور تک نبھانا تھا
مگر قوم بھی حیران کیوں ہے؟ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔ یہ کئی بار کی کہانی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹرین آرزوؤں اور اُمیدوں کے پلیٹ فارم سے روانہ ہوئی اور کچھ ہی دیر میں پے در پے شکستوں کے سگنل پہ رُک گئی۔ پھر قوم نے دُعاؤں اور وظیفوں کے انجن فراہم کیے تو گاڑی آگے چلی۔ اور یہ بھی طُرفہ تماشا ہے کہ قوم کو صرف ٹیم کی فتح کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی شکست کے لیے بھی دُعائیں مانگنا پڑتی ہیں۔ یعنی فلاں ٹیم فلاں سے ہار جائے تو ہماری ٹیم کے راستے میں بِچھے ہوئے کانٹے دُور ہوں! اِس قوم کو بھی کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ میرزا محمد رفیع سوداؔ نے ایسی ہی کیفیت یُوں بیان کی ہے ؎
فکرِ معاش، ذکرِ بُتاں، یادِ رفتگاں
اِس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی!
ٹیم قلابازیاں کھانے سے باز نہیں آتی اور اِدھر ہم ہیں کہ پہلے تنقید اور پھر دُعا سے دامن کش نہیں ہوتے۔ گویا دونوں اپنے اپنے ''موقف‘‘ پر قائم ہیں!
1992ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ہم 9 پوائنٹس لے پائے تھے۔ اگر میزبان آسٹریلیا کی ٹیم نے اپنا پورا زور لگاکر ویسٹ انڈینز کو شکست نہ دی ہوتی تو کالی آندھی 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ جاتی اور ہم مُنہ لٹکائے رہ جاتے! تب آسٹریلیا نے ساتھ دیا تھا۔ اب کی بار ویسٹ انڈیز نے پہلے آئر لینڈ اور اب جنوبی افریقہ سے عبرت ناک شکست کو گلے لگاکر ہمارے لیے امکانات کا پہلا چراغ جلا دیا ہے۔ زمبابوے سے میچ جیتنا ہمارے لیے ''کرو یا مرو‘‘ والا مرحلہ ہے۔ یہیں سے ہمارے امکانات کا سفر شروع ہونا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 257 رنز سے ہارنے والے ویسٹ انڈینز بھارتی ٹیم کے مقابل بھی شدید دباؤ میں ہوں گے مگر وہ منزل ابھی دُور ہے۔ تب تک لازم ہے کہ ہم زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کی ٹیم کو ہراکر اپنا جھنڈا گاڑنے کی ابتداء تو کریں۔
اس کے لیے بیٹنگ لائن کو لائن پر لانا ہے۔ بیٹنگ لائن اگر آن لائن دستیاب ہوتی تو ہم خرید لیتے! ؎
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مِرا جامِ سِفال اچھا ہے!
مگر صاحب، یہاں تو یہ مِٹّی کا پیالہ بھی قوم کے آنسوؤں سے گُھلتا دِکھائی دے رہا ہے!
سینیٹر قیوم سُومرو شِدّتِ جذبات میں کہہ گئے کہ قوم ''اللہ کرے‘‘ کہتے کہتے تھک گئی ہے، اب تو شاید ''خدا نخواستہ‘‘ کہنے سے بات بنے۔ اللہ کرے کہ قیوم سُومرو کی بات غلط ثابت ہو اور زمبابوے سے آج کا مقابلہ ہمارے حق میں رہے۔ گو کہ ورلڈ کپ میں یہ آخری جاں گُسل معرکہ نہیں یعنی ع
ابھی عِشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مگر خیر، کسی طور خیر کی ابتداء تو ہو۔ اُمیدوں کو زندہ اور لہو کو گرم رکھنے کے لیے آج فتح کے تخت پر بیٹھنا ناگزیر ہے۔ اللہ نہ کرے کہ قومی ٹیم کے لیے ع
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
والی کیفیت پیدا ہو۔ ''تم ہارو یا جیتو‘‘ والی جگت بازی ترک کیجیے۔ یہ تو قومی ٹیم کے لیے شُبھ شُبھ بولنے کی گھڑی ہے۔ یعنی تم جیتو اور جیو ہزاروں سال!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں