"MIK" (space) message & send to 7575

تکون

ڈھنگ سے جینے کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ جو کچھ بھی درکار ہے‘ پورا درکار ہے۔ ذرا سی کمی ہو تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ عام آدمی ڈھنگ سے جینے کی کوشش سے اِسی لیے جی چُراتا ہے کہ کہیں ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو بات بگڑ جاتی ہے، کسی اہم معاملے کا سِرا ہاتھ سے چُھوٹے تو پھر مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ کون ہے جو مثالی نوعیت کی کامیابی نہیں چاہتا؟ سبھی اس بات کے خواہش مند رہتے ہیں کہ اُنہیں اِس دنیا سے زیادہ سے زیادہ ملے اور وہ جی بھر کے کھائیں پئیں، اچھا پہنیں، اچھے گھر میں رہیں اور خوب گھومیں پھریں۔ یہ بات بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض خواہش کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ خواہش بنیادی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ جب انسان خواہش کے مرحلے سے گزرتا ہے تو کچھ کرنے کی تحریک بھی ملتی ہے۔ تحریک دوسروں کو دیکھ کر ملتی ہے لیکن اگر اپنے طور پر پیدا ہو تو کیا ہی بات ہے۔ ماحول ہمیں بہت کچھ کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم اچھے ماحول میں ہوں تو دل چاہتا ہے کہ ہم بھی کچھ ایسا کریں جو اس ماحول کی خوبصورتی اور افادیت میں کچھ اضافہ کرے اور اگر ماحول خراب ہو تو ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہرگز نہ کرنا‘ بچ کر رہنا۔ کارل مارکس نے اِسی لیے کہا تھا کہ انسان اپنے حالات یا ماحول کی پیداوار ہے۔ انسان جو کچھ بھی بنتا ہے حالات ہی کے ہاتھوں بنتا ہے۔ ایسے میں کم ہی لوگ ہیں جو اپنے طور پر کچھ طے کریں اور ماحول کے کچھ سکھانے سے پہلے ہی بہت کچھ سیکھ جائیں۔
کیا کسی بھی انسان کو ماحول سے کچھ سیکھنے کی ضرورت محسوس ہونی چاہیے؟ کیا اپنے طور پر بہت کچھ نہیں کیا جاسکتا؟ ماحول سے کچھ سیکھنے کی ضرورت محسوس کرنے کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ ماحول ہمارے تحت الشعور کا حصہ ہوتا ہے۔ ماحول سے ہم بہت کچھ اخذ کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اِس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ماحول سے ہمارے تعلق کی دو سطحیں ہیں جو ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ ہم ماحول سیکھیں، اُسے اپنائیں اور دوسری سطح یہ ہے کہ ہم ماحول سے بچیں، اُس سے دور رہیں اور اُسے ہرانے کی کوشش کریں۔ ماحول میں جو اچھا ہے وہ ہمارا ہے اور جو کچھ کسی بھی سطح پر اچھا نہیں ہے وہ ہمارا ہو ہی نہیں سکتا۔ ماحول سے ہمارا یہ کھٹا میٹھا رشتہ مرتے دم تک کا ہے۔
اب آئیے! اس بنیادی سوال کی طرف کہ انسان اپنے ماحول کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سفر کرتے کرتے بھرپور، شاندار اور قابلِ فخر کامیابی کی طرف کیسے بڑھ سکتا ہے۔ کامیابی ہم میں سے ہر ایک کی آنکھوں کا سُندر سپنا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک زندگی بھر اِس سپنے کو پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ یہ امر چونکہ فطری ہے اس لیے حیرت انگیز بھی نہیں اور بُرا بھی نہیں۔ انسان وہی تو کرتا ہے جو اُس کی آنکھوں میں سپنا بن کر بسا ہوا ہوتا ہے۔ جو خواہش ہمارے تحت الشعور کا حصہ بن کر رہ جائے وہی تو حقیقت کا روپ دھار کر ہماری تشفی کا سامان کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں مثالی نوعیت کی کامیابی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب وہ آنکھوں میں سپنا بن کر رہے اور پھر تحت الشعور کا حصہ بنے۔ انسان جس چیز کے بارے میں سوچتا رہتا ہے وہ رفتہ رفتہ تحریکِ عمل بھی دینے لگتی ہے۔ جب دل و دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں تو انسان کو متوجہ ہونا چاہیے۔ کوئی بھی خواہش جب شدت اختیار کرتی ہے تو انسان کو عمل کی راہ بھی دکھاتی ہے۔ یہ ویک اَپ کال ہوتی ہے جس کا جواب دینے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔
کبھی آپ نے کامیابی یقینی بنانے والے عوامل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے؟ کامیابی کے بارے میں سوچنا اور ہے اور کامیابی یقینی بنانے والے عوامل کے بارے میں سوچنا کچھ اور۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کامیابی تو حاصل کرلیتے ہیں مگر اُسے برقرار رکھنے کے مرحلے میں لڑکھڑا جاتے ہیں اور یوں اُن کی ساری محنت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ لازم نہیں کہ ہر کامیابی بھرپور محنت کا نتیجہ ہو۔ کبھی کبھی اچھی خاصی شاندار کامیابی محض حسنِ اتفاق یا بدلے ہوئے حالات کا بھی نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی کامیابی ہم سے زیادہ توجہ اور محنت طلب کرتی ہے۔
آئیے! ذرا اِس امر کا جائزہ لیں کہ لوگوں کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرنے والی کامیابی کس طور ممکن بنائی جاسکتی ہے یعنی وہ کون سے عوامل ہیں جو کامیابی یقینی بناتے ہیں۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی شعبے میں شاندار کامیابی سب سے پہلے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان جب سوچنے لگتا ہے تب کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔ کرکٹر اٹھارہ انیس سال کی عمر میں ٹیم کا حصہ بنتا ہے مگر اُس کے اندر تو کرکٹرز بچپن ہی سے موجود ہوتا ہے۔ کامیابی کا اولاً ذہن میں پیدا ہونا عرفِ عام میں خواہش کہلاتا ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے خواہش کے تحت کرتا ہے۔ خواہش ہی اُسے راستہ دکھاتی ہے، آگے بڑھاتی ہے۔ کیا محض خواہش کرلینا کافی ہوتا ہے؟ یقینا نہیں۔ محض خواہش کرنے سے اگر بہت کچھ ہو جایا کرتا تو پھر کسی کو اِتنی تگ و دَو کیوں کرنا پڑتی؟ خواہش لازم ہے مگر یہ سب کچھ نہیں‘ کافی نہیں۔ جب انسان کچھ کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے تگ و دَو بھی کرتا ہے، اپنے آپ کو آزمائش کی بھٹی میں بھی جھونکتا ہے۔ یہ مراحل سب کے لیے ہوتے ہیں۔ جسے بھی کامیاب ہونا ہے اِنہی راستوں پر چل کر کامیاب ہونا ہے۔ کوئی بھی شدید خواہش انسان کو قابلیت یقینی بنانے کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ قابلیت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہو پاتی۔ اور سکت؟ اُسے آپ کس مقام پر رکھیں گے؟ تھوڑی سی توجہ دینے پر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کامیابی تین عوامل سے مل کر متشکل ہوتی ہے یعنی کوئی واضح شکل پاتی ہے۔ پہلے نمبر پر ہے خواہش۔ دوسرے نمبر پر ہے قابلیت اور تیسرے نمبر پر ہے سکت یعنی طاقت۔ یہ تکون ہے۔ تکون میں تین کونے ہوتے ہیں۔ ایک کونا نہ رہے تو تکون تکون نہیں رہتی، محض لکیر بن جاتی ہے۔
آئیے! کامیابی کی تکون کے پہلے کونے یا زاویے کا جائزہ لیتے ہیں۔ خواہش پہلا زاویہ ہے۔ یہ زاویہ بنیادی ہے یعنی کسی بھی سطح کی کامیابی سب سے پہلے خواہش کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ خواہش کو آپ عملی سطح پر لگن بھی کہہ سکتے ہیں، لگن یعنی کسی بھی کام کے کرنے کی شدید خواہش۔ بھرپور لگن چاہتی ہے کہ کام کرنے کی قابلیت بھی ہو۔ قابلیت نہ ہو تو انسان کام کیسے کرسکتا ہے؟ قابلیت ناگزیر ہے۔ بالعموم قابلیت کے گراف سے کامیابی کی سطح کا تعین ہوتا ہے۔ تکون کا تیسرا زاویہ ہے سکت یعنی طاقت۔ طاقت نہ ہو تو انسان لگن اور قابلیت کا کیا کرے؟ اس بات کو یوں سمجھیے کہ کوئی پہلوان 70 سال کا ہوچکا ہے۔ اب وہ کشتی نہیں لڑسکتا کیونکہ کشتی لڑنے کا فن تو آتا ہے، لگن بھی ہے مگر سکت یعنی طاقت نہیں رہی۔ اِسی طور اگر کوئی اچھا کاریگر ہے، کام اچھی طرح جانتا ہے اور عمر بھی زیادہ نہیں یعنی جسم میں اچھی خاصی توانائی ہے مگر کامیابی ممکن نہیں ہو پارہی کیونکہ کام کرنے کی لگن ہی نہیں ہے! کسی بھی شخص کو کام پر رکھتے وقت دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس میں قابلیت اور سکت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی لگن بھی ہے یا نہیں۔ لگن نہ ہو تو انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ بہت سوں کو آپ اس حال میں پائیں گے کہ دن رات کچھ نہ کچھ کرنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں یعنی کام کرنے کی لگن غیر معمولی ہوتی ہے۔ سکت بھی خوب ہوتی ہے۔ جوانی میں کام کرنے کے لیے درکار توانائی بھرپور تناسب سے پائی جاتی ہے۔ تو پھر انسان کامیاب کیوں نہیں ہو پاتا؟ قابلیت کے نہ ہونے سے۔ اگر کام کرنا ہی نہ آتا ہو تو لگن اور سکت سے کیا ہوسکتا ہے؟ تکون کے تینوں زاویے موجود ہوں تو بات بنتی ہے۔آپ نے جو کچھ بھی سوچ رکھا ہے وہ اُسی وقت بروئے کار لایا جاسکتا ہے جب آپ کی تکون کے تینوں زاویے برقرار ہوں۔ غیر معمولی قابلیت آپ کو کچھ بھی نہ دے پائے گی اگر آپ نے لگن پروان نہ چڑھائی اور سکت میں اضافے پر بھی متوجہ نہ ہوں تو۔ آگے بڑھنا ہے تو اپنی تکون کو پروان چڑھاتے رہیے، مضبوط بناتے رہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں