چین دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہوا اب اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ امریکہ، یورپ اور جاپان کے لیے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ معاملات مینوفیکچرنگ کے محاذ پر جنگ کے نہج تک آچکے ہیں۔ چین کو روکنے کی ساری کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ چینی قیادت تاحال کسی بھی مناقشے یعنی باضابطہ جنگ کے لیے تیار نہیں۔ کئی ممالک اور خطوں میں چین کی سرمایہ کاری کا دائرہ اِتنی وسعت اختیار کرچکا ہے کہ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام اور اُن کے ہم خیال ممالک کی جان پر بن آئی ہے۔ اُن کے لیے کچھ زیادہ کرنے یا کر دکھانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چین کی بڑھتی ہوئی برتری ہر اُس ملک کے لیے خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے جو اب تک اس معاملے میں اپنی برتری کا بھرپور فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اپنے لیے جو موافقت پیدا کی تھی وہ کم و بیش ایک صدی (بیسویں صدی) کے دوران عالمی سیاست و معیشت میں اُن کی برتری قائم کرنے کے بعد اب رخصت ہوا چاہتی ہے۔ لاگت اور مہارت دونوں ہی معاملات میں چین نے اپنے آپ کو اِس طور منوایا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے پاس اب کفِ افسوس ملنے کا آپشن رہ گیا ہے۔
ایک عشرے کے دوران امریکہ اور یورپ‘ دونوں ہی نے چینی مصنوعات کو روکنے کے اقدامات کے نام پر کئی بار چین سے مخاصمت مول لی۔ یہ سلسلہ کسی بھی مرحلے پر رُکا نہیں کیونکہ چین بھی رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ دنیا بھر میں انتہائی سستی اشیا کے ذریعے چین نے درجنوں معیشتوں کو انتہائی درجے کی خرابیوں سے دوچار کیا ہے۔ امریکہ اوریورپ کے پاس اب چین کو روکنے کے لیے محاذ آرائی کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔ چینی مصنوعات کی راہیں مسدود کرنے کے اقدامات تجارتی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ چین کے لیے مشکلات نہیں ہیں۔ متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود چینی معیشت استحکام کی منزل سے دور ہوتی جارہی ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ شدید دباؤ میں ہے کیونکہ ایک طرف غیر معمولی تناسب سے پیداوار جاری ہے اور دوسری طرف ان کی نکاس کا خاطر خواہ اہتمام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کا پرچیزنگ مینوفیکچرنگ انڈیکس دسمبر میں مسلسل تیسرے ماہ 49.4 سے 49 فیصد تک گرا۔ اس انڈیکس میں گراوٹ کا مطلب معیشت کا سکڑاؤ ہے۔ معیشت کے دیگر شعبوں نے قدرے اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نان مینوفیکچرنگ پرچیزنگ منیجرز انڈیکس 50 سے بلند ہوکر 50.4 تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تبدیلی متعلقہ شعبے میں صحت مندانہ سرگرمی اور تحرک کی نشاندہی کرتی ہے۔
مغربی ممالک کا شدید خوف میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ ان ممالک نے صدیوں کی محنت کے نتیجے میں جو مقام پایا وہ ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ زیادہ پریشان ہے کیونکہ اُس نے ایسی کسی بھی کیفیت کے لیے تیاری نہیں کی تھی۔ اس کے تھنک ٹینک یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ دنیا کو امریکہ کا متبادل بھی مل سکتا ہے۔ اپنی اپنی معیشتوں کے لیے شدید مسابقت کا ماحول پیدا ہونے کے خوف سے مغربی ممالک کا چین کے خلاف ڈٹ جانا ایک نئی عالمی تجارتی جنگ کے سے حالات پیدا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گنے کے کھیت کی شامت آئی ہوئی ہے۔ چھوٹے اور کمزور ممالک شدید الجھن میں مبتلا ہیں۔ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ کر دنیا کو اپنی طاقت کے بارے میں بتانا چاہا ہے۔ چین اور روس مل کر ایک نیا بلاک تشکیل دے سکتے ہیں۔ اِدھر بھارت بھی عالمی سیاسی و معاشی نظام میں اپنے لیے بڑا حصہ چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چین کو آگے بڑھنے کے لیے ہموار راہ ملتی رہی ہے۔ جب سے اُس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا تب سے مغرب نے اُس کے خلاف محاذ بنانا شروع کردیا تھا۔ چین کے خلاف پروپیگنڈا بھی خوب کیا گیا۔ سخت گیر، غیر لچکدار اور قدرے آمرانہ طرزِ حکومت کو بھی تواتر سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ چین پر ماحول کو نقصان پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا۔ عام چینی باشندوں کو حکومت سے برگشتہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی۔ مغرب کے جن اداروں نے دنیا بھر میں جمہوریت کی بساط لپیٹی اُنہیں چین میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کی فکر لاحق ہے۔ذہن نشین رہے کہ چینی معیشت کو اب امریکہ اور یورپ کی طرف سے غیر معمولی تحفظات کا سامنا ہے۔ یورپی مارکیٹ میں چینی اشیا کی بھرمار نے مقامی صنعتی اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین کی طرف اشیا و خدمات کی ڈمپنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کریں۔چین نے سستی برقی کاریں مارکیٹ میں لاکر یورپی اداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ جاپان کے علاوہ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے کاریں تیار کرنے والے ادارے بھی چینی برقی کاروں کی درآمد پر غیر معمولی ٹیرف کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج جو یورپی اور امریکی صنعتی ادارے چین کے خلاف مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں اُنہی اداروں نے کم و بیش آٹھ عشروں تک عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں جکڑ رکھا ہے۔ جب اُنہیں کوئی روکنے والا نہ تھا تب اُنہوں نے محض معاشی فوائد نہیں بٹورے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں تک تبدیل کیں اور ایسے حالات کو پروان چڑھانے پر توجہ دی جو اُن کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کی راہ ہموار کرتے ہوں۔
چین کو اب ہائی ٹیک کے شعبے میں بھی امریکہ اور یورپ سے غیر معمولی مسابقت درپیش ہے۔ ہائی ٹیک میں نہ صرف یہ کہ چین کمزور نہیں بلکہ لاگت کے معاملے کو بھی کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ چینی ماہرین کی صلاحیتوں سے خوفزدہ امریکی اور یورپی صنعتکار اور تاجر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کا مقصد چینی مصنوعات کی آمد روکنا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی بھی مار بیٹھتے ہیں۔ چین کو روکنے کیلئے امریکہ اور یورپ جو کچھ کر رہے ہیں اُس میں تعقل کم اور بدحواسی زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کے اقدامات خصوصی طور پر زیادہ دور اندیشی کے حامل نہیں۔ وہ ایک زمانے سے عسکری معاملات کی بنیاد پر اپنی برتری منوانے کے فراق میں ہے۔ اب بھی وہ اِسی روش پر گامزن ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کو سیاسی، سفارتی اور سٹریٹیجک امور کے تجزیہ کار اِسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ مغرب اور چین کے درمیان اصل جنگ مینوفیکچرنگ کی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون کیا اور کتنا بناسکتا ہے بلکہ اب معاملات لاگت کی منزل میں اٹک گئے ہیں۔ امریکہ جو چیز تین ڈالر میں تیار کر پاتا ہے چین وہی چیز دو ڈالر میں مارکیٹ میں لے آتا ہے۔ چین کی پوری توجہ لاگت گھٹانے پر مرکوز ہے۔ امریکہ اور یورپ میں قوانین چونکہ سخت ہیں اس لیے تنخواہوں اور مراعات کے معاملے میں ڈنڈی مارنا آسان نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی ادارے آؤٹ سورسنگ کا آپشن استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جو کچھ بھی کسی اور خطے میں کرایا جاسکتا ہے وہ اپنے ہاں کرانے کو ترجیح نہیں دی جارہی۔ یہ اگرچہ منطقی سوچ ہے مگر اِس کے نتیجے میں معیشت کا ڈھانچا کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری بہت سے دوسرے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
مینوفیکچرنگ کی جنگ شدت اختیار کر رہی ہے اور چین کو روکنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی جارہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ سے مرعوب رہنے والے ممالک اب اپنی مرضی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ افریقہ میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے بھی مغربی طاقتیں پریشان ہیں۔ مغرب اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ چین نے افریقہ میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگادیے تو پیداوار یورپ اور امریکہ‘ دونوں کو کھا جائے گی کیونکہ ترسیل کا خرچ بھی نمایاں حد تک گھٹ جائے گا۔ چھوٹے ملکوں کے لیے یہ وقت تماشا دیکھنے کا نہیں بلکہ ایسی حکمتِ عملی تیار کرنے کا ہے جس سے وہ کسی بھی بڑی طاقت سے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹور سکیں۔