پیشرفت جتنی بڑھتی جارہی ہے پیچیدگی میں بھی اُتنا ہی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فی زمانہ کوئی بھی معاملہ تنہا نہیں۔ ہر معاملے کے پہلو بہ پہلو اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ انسان نے جو کچھ سوچا تھا وہ پالیا ہے مگر اِس کے ہاتھوں بہت کچھ کھونا بھی تو پڑا ہے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے مگر اِس میں عجیب کچھ خاص ہے نہیں کیونکہ دنیا ہمیشہ ایسی ہی تھی اور ایسی ہی رہے گی۔ اِسی بات کو جاوید اختر نے بہت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے ؎
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی!
زندگی کے معاملات اِسی طور چلتے رہتے ہیں۔ کچھ ملتا ہے تو کچھ کھو بھی جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جو ہاتھ آجائے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی جو کھو جائے وہ اِس قدر ہوتا ہے کہ زندگی تہی دست سی ہو جاتی ہے۔ آج کے انسان کی ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ذرا سا چلتا ہے اور کسی نہ کسی دو راہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ بات بات پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کیا کرے‘ کیسے کرے۔ اور کبھی کبھی ''کیوں‘‘ بھی بہت پریشان کرتا ہے۔ ایسے میں اگر ذہن چکراکر نہ رہ جائے تو اور کیا ہو؟ ڈھنگ سے جینا کس کا خواب نہیں؟ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں کوئی غم، کوئی الجھن، کوئی پیچیدگی نہ ہو مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے تگ و دَو کرنے والے کم ہیں۔ محض پریشان ہو رہنا تگ و دَو کرنا نہیں ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کسی بھی بحرانی کیفیت میں ذہنی الجھن ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں مگر کسی سے مشورے کے ذریعے یا تفکر کے توسط سے اُس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایسے میں ذہن کا مزید الجھنا بالکل فطری امر ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ذہنی الجھنیں انوکھی ہیں نہ غیر فطری۔ دنیا جس مقام تک آچکی ہے وہاں یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔ ہم اب تک قبولیت کی منزل تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ خیالوں کی دنیا ہمیں صرف میٹھے راگ سناتی رہتی ہے مگر حقیقت کی دنیا میں کھٹا، میٹھا، کڑوا، پھیکا سبھی کچھ ہے۔ زمینی حقیقتیں تو ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ آج کے انسان کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے کہ ہر زمینی حقیقت کو سمجھنا لازم ہے۔ جب تک ہم اِس مرحلے سے نہیں گزریں گے تب تک ہماری تمام ذہنی الجھنیں برقرار ہی نہیں رہیں گی بلکہ پیچیدہ تر ہوتی چلی جائیں گی۔ قدرت نے ہمارے جسم کو دماغ کی صورت میں دراصل انتہائی شاندار اور نتیجہ خیز کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر عطا فرمایا ہے۔ یہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہے۔ کچھ بھی تو نہیں جو اس کے دائرۂ کار اور دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اِس بدیہی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
آپ نے سو بار سُنا ہوگا کہ ڈپریشن بڑھتا جارہا ہے۔ ڈپریشن کیا ہے؟ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ۔ ڈپریشن کی وجوہ کو سمجھنے سے قبل اس حقیقت پر غور کرنا لازم ہے کہ زندگی ہم سے قدم قدم پر توجہ چاہتی ہے۔ جب ہم متوجہ ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے تب ذہن الجھتا ہے اور یہی الجھن بڑھتے بڑھتے وہ شکل اختیار کرتی ہے جسے ہم عرفِ عام میں ڈپریشن کہتے ہیں۔ ڈپریشن کو آج ایک ایسے مرض کی حیثیت حاصل ہے جو زندگی کے تمام اہم معاملات پر محیط ہے یعنی اثر انداز ہو رہا ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں کوئی واضح فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تو اِس حالت کو ڈپریشن کہا جاتا ہے۔ کیا واقعی ڈپریشن کوئی مرض ہے؟ اِس سوال کا جواب ماہرین ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔ ہم تو بس اس قدر کہنا چاہیں گے کہ ڈپریشن کو سمجھنے کے لیے بڑھاپے کو سمجھنا لازم ہے۔ کیا بڑھاپا کوئی مرض ہے؟ یقینا نہیں‘ کسی طور نہیں۔ جسم میں جب اچھی خاصی ٹوٹ پھوٹ واقع ہوچکی ہوتی ہے، ہڈیاں کمزور پڑچکی ہوتی ہیں، خون میں وہ گرمی نہیں رہتی، دل کی دھڑکن متاثر ہوچکی ہوتی ہے اور چلنے پھرنے، سانس لینے، کھائے ہوئے کو ہضم کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تب ہم کہتے ہیں کہ بڑھاپا آگیا ہے۔ بڑھاپا کوئی حادثہ نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ بڑھاپا اچانک نہیں آتا بلکہ ایک نپی تُلی، معقول رفتار سے ہماری زندگی میں رونما ہوتا جاتا ہے۔ جو کیفیت اچانک نہیں آتی بلکہ مرحلہ وار ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہے اُسے سمجھنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو مرحلہ وار آئی تھی اور ہم اُسے سمجھنے کی پوزیشن میں تھے۔ بڑھاپا بھی اچانک نہیں آتا اس لیے اُسے سمجھنے میں زیادہ دشواری محسوس ہونی نہیں چاہیے۔
کیا ہم بڑھاپے کا میرٹ سمجھتے ہیں؟ بالکل نہیں! بڑھاپا سر تا سر محض کیفیت ہے مگر ہم اِسے مرض سمجھ بیٹھتے ہیں۔ 80 سال کی عمر میں چلنا پھرنا دشوار ہو جائے، اٹھنے بیٹھنے میں الجھن درپیش ہو تو گھٹنوں کا علاج کرایا جاتا ہے، گولیاں کھائی جاتی ہیں۔ انتہائی ڈھلکی ہوئی عمر میں گھٹنوں کا جواب دے جانا بیماری نہیں اِس لیے اس کے علاج سے زیادہ خوراک کی درستی پر متوجہ رہنا چاہیے اور معمولات میں پائی جانے والی کجی دور کی جانی چاہیے۔ طرزِ زندگی کو معقول بنائے بغیر محض گولیاں نگلتے رہنے سے کوئی بھی جسمانی پیچیدگی دور نہیں ہوتی۔ ڈپریشن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دنیا بھر میں ڈپریشن کے حوالے سے تحقیق کا بازار گرم ہے۔ جن لوگوں نے یہ بازار گرم کر رکھا ہے اُن کے خلاف تحقیقات کا بازار گرم کیا جانا چاہیے! معاملہ صرف یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں ''ٹرینڈنگ‘‘ کی راہ پر گامزن ہیں۔ بعض معاملات ہر وقت ٹرینڈنگ کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ کہنا فیشن ہوگیا ہے کہ ''میں ڈپریشن میں ہوں‘‘۔ بہت سوں کو ہمدردی بٹورنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں مظلوم سمجھا جائے۔ اس خواہش کے زیرِ اثر اُن کی گفتگو بھی بے دم سی ہوئی جاتی ہے۔ سوچ شکست خوردہ ہو تو لہجہ بھی اَدھ مُوا سا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ہر معاملے میں شکست خوردہ سا انداز اختیار کرتا ہے۔ یوں پوری زندگی شکست خوردگی کی طرف چلی جاتی ہے۔ بار بار ڈپریشن کا ذکر کرکے کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اُن کے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اب کوئی بھی انسان ڈپریشن کی پہنچ سے دور نہیں۔ جو جہاں ہے وہاں ڈپریشن اُس کا خیرمقدم کرنے کو تیار ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کر دیکھے، ڈپریشن سے بچ نہیں سکتا۔ یہ کیفیت اُس کے معاملات پر اثر انداز ہوکر رہتی ہے۔ ڈپریشن کا معاملہ تو ہر دور میں رہا ہے۔
آج ہم گزرے ہوئے زمانوں کے حالات کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ تب لوگ کچھ زیادہ ہی سکون سے جی لیتے تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ ذہنی دباؤ تو ہر دور میں رہا ہے۔ آج ہم جسے ڈپریشن قرار دے رہے ہی وہ کیفیت ہر دور کے انسان کو کسی نہ کسی حد تک برداشت کرنا پڑی ہے۔ گولیاں جسمانی بیماری دور کرنے کے لیے نگلی جاتی ہیں۔ ڈپریشن جسمانی بیماری نہیں۔ ہاں‘ یہ شدت اختیار کر جائے تو جسم کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ڈپریشن کے علاج کے لیے گولیوں کی ضرورت ہے نہ آپریشن کی۔ یہ خالص ذہنی معاملہ ہے۔ دماغ میں خلل واقع ہو، چوٹ لگی ہو تو علاج کرایا جا سکتا ہے، گولیاں نگلی جاسکتی ہیں اور آپریشن کی منزل سے بھی گزرا جاسکتا ہے۔ ذہن کی الجھن دور کرنے کے لیے گولیوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ سوچ بچار کا ہے، بحث و تمحیص اور مشاورت کا ہے۔ ذہن کی کجی صرف اُس وقت دور ہوتی ہے جب انسان اپنا مسئلہ بیان کرکے اُس پر کسی سے بحث کرے، مشورہ طلب کرے اور دوسروں کی آرا کی روشنی میں اپنے مؤقف پر غور کرے اور کوئی معقول رویہ اختیار کرے۔
جب زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی تب ڈپریشن کا گراف بہت نیچے تھے۔ آج اِتنی ترقی ہوچکی ہے کہ معاملات الجھ گئے ہیں۔ ایسے میں ڈپریشن کے گراف کا بلند ہونا فطری امر ہے۔ یہ گراف بلند ہی ہوتا جائے گا کیونکہ پیشرفت کا بازار گرم رہے گا۔ قصہ مختصر‘ ڈپریشن مرتے دم کا معاملہ ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اِسے قبول کیجیے اور موافقت پیدا کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہیے۔