"MIK" (space) message & send to 7575

مل کر ہی چلنا پڑے گا

خالص عقلی نقطۂ نظر سے اپنے اور ماحول کے تعلق پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو جائے گا کہ جو بھی کچھ ہے وہ صرف relevance ہے، تعلق ہے۔ تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں یعنی دوسروں سے ہٹ کر‘ کٹ کر وہ ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ کچھ لوگ اپنے مزاج کی کجی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ماحول سے غیر متعلق رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے ماحول سے روابط ختم یا کم کرکے کوئی بھی ڈھنگ سے جی نہیں سکتا مگر پھر بھی یہ روش وہ ترک نہیں کرتے۔ کیا ہم اپنے ماحول سے قطعِ تعلق کر سکتے ہیں، جو کچھ بھی ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے اُس سے بے نیاز یا لاپروا رہا جاسکتا ہے؟ ایسا ایک خاص حد تک ہی ممکن ہے! اِس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہم چاہے جس بھی ماحول میں رہیں‘ کچھ وقت اپنے وجود کو دینا ہی پڑتا ہے یعنی ایک خاص حد تک تو لوگوں سے کنارہ کش رہنا ہی پڑتا ہے۔ ایسا تعلیم کے لیے بھی ضروری ہے اور آرام کی غرض سے بھی۔ بکھرے ہوئے خیالات کو ترتیب دینے کے لیے بھی تھوڑی سی کنارہ کشی لازم ہوا کرتی ہے۔ سوال موزونیت کا ہے۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنے ماحول سے کس حد تک دُور رہ معاملات کو درستی کی راہ پر لاسکتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو پھر اپنے ماحول کا حصہ بن جائیے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو بہت کچھ طے کرنا لازم ہے اُس میں یہ نقطۂ جاں فزا بھی شامل ہے کہ ہمیں کس سے کتنا ملنا ہے۔ میل جول زندگی کا محض حصہ نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں۔ کبھی ہم کسی کی مدد کرتے ہیں اور کبھی کسی سے مدد لیتے ہیں۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے اور اِسی طور جاری رکھا جاسکتا ہے۔
کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جس میں ہمیں کسی نہ کسی طور دوسروں کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں، دوسروں سے روابط اُستوار رکھے بغیر، اُن سے مدد لیے بغیر معقول انداز سے جینا ممکن نہیں ہو پاتا۔ انسانوں کو مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ دیگر مخلوق بھی مل جل کر ہی رہتی ہے مگر انسان کو یہ کام خالص عقلی بنیاد پر کرنا ہے۔ دیگر مخلوق چونکہ شعور سے محروم ہے اس لیے اُسے بہت کچھ جبلّی طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ قدرت نے اُن کے لیے جو راستہ متعین کردیا ہے اُس پر اُسے چلتے رہنا ہے۔ انسان کو اپنے لیے راہ کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ شعور کے ساتھ ساتھ اُسے ارادہ و اختیار بھی بخشا گیا ہے۔ اُسے ڈھنگ سے جینے کا ڈھب طے کرنا ہوتا ہے۔ چاہے تو معقول راہ پر چلے اور اگر نہ چاہے تو نہ چلے۔ فرد اور ماحول کا تعلق ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ فرد بہت کچھ کرسکتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ مل کر، اُن سے تعلق اُستوار رکھ کر، اُن سے مدد لیتے ہوئے۔ اشتراکِ عمل انسان کی فطرت، خصلت اور جبلّت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہ چونکہ فطری معاملہ ہے اِس لیے اِس کے خلاف جانا کبھی سُودمند ثابت نہیں ہوتا۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ کوئی بضد ہو تو صرف نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔ ماحول سے بے نیاز ہوکر جینے والے آپ نے یقینا دیکھے ہوں گے۔ کبھی سوچا ہے کہ اُن کی زندگی میں کتنی الجھنیں ہوتی ہیں؟ ماحول سے دُوری انسان کو بہت سے معاملات میں عجیب و غریب طرزِ فکر و عمل کی حامل بنادیتی ہے۔ بیشتر معاملات میں یہ ہوتا ہے کہ انسان جب ماحول سے بے نیازی کی روش پر گامزن ہوتا ہے تو نقصان اٹھانے پر بھی محض خفت کے احساس کے ساتھ اُسی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ معاملات اُسے تائب ہونے کی تحریک دے رہے ہوتے ہیں اور تائب ہوئے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوتا مگر وہ اپنی روش ترک نہیں کرتا اور ''شرما حضوری‘‘ یا پھر ہٹ دھرمی کے ہاتھوں اپنے نقصان کا سلسلہ دراز کرتا چلا جاتا ہے۔
اشتراکِ عمل کے نتیجے میں انسان کی صلاحیتیں کھلتی، کِھلتی اور پنپتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ تنہا جینا کسی کے بس کی بات نہیں۔ کوئی بضد ہو تو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر ایک دوسرے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ کھانے پینے، اوڑھنے بچھانے اور سفر و حضر کے تمام معاملات میں اشتراکِ عمل کے بغیر گزارا نہیں۔ اگر کسی کے پاس اچھی خاصی دولت ہو تو کیا وہ دوسروں سے مدد لیے بغیر جی سکتا ہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں! دولت سے اشیا و خدمات حاصل کرکے ڈھنگ سے جیا جاتا ہے۔ اشیا و خدمات یعنی انسانوں کی کاوشوں کا نتیجہ! دولت اشیا و خدمات یعنی دوسروں کی کاوشیں‘ خرید کر ہماری مشکل آسان کرتی ہے۔ بات پھر وہیں آگئی کہ دوسروں کی محنت سے مستفید ہوئے بغیر ہم اپنے لیے ڈھنگ کی زندگی ممکن نہیں بناسکتے۔ مفت ملے یا کچھ قیمت دے کر‘ مدد تو لینا ہی پڑتی ہے۔ سخت لگے تو کمبل اوڑھنا پڑتا ہے۔ یہ کمبل کسی نہ کسی سے خریدا ہوتا ہے۔ دولت سردی سے نہیں بچاسکتی، اُس کی مدد سے خریدا ہوا کمبل سردی سے بچاتا ہے۔ یہ آسان سی بات ہے مگر بہت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ زندگی کا سارا حُسن اس بات میں ہے کہ ہم اپنے ماحول کی خوبیوں اور اچھائیوں سے بخوبی مستفید ہوں اور زندگی کا حسن دوبالا کریں۔ تنِ تنہا جینا اول تو ممکن نہیں اور اگر کوئی بضد ہوکر جیسے تیسے جی ہی لے تو ایسے جینے کو زندگی نہیں کہا جائے گا۔ یہ سراسر ہٹ دھرمی اور سرکشی کا مرقع ہے۔ ہٹ دھرمی اور سرکشی ہر جگہ اور ہر معاملے میں روا نہیں۔ جہاں ماننا ہو وہاں ماننا پڑے گا اور سر جھکانا لازم ہو وہاں سر اٹھانا محض خسارے سے دوچار کرے گا۔
ہمارا پورا ماحول ہمیں یہی سکھا رہا ہوتا ہے کہ مل جل کر رہنے اور ساتھ ساتھ چلتے رہنے میں خیر و عافیت ہے‘ برکت ہے۔ معاشرتی سطح پر اِسے میل جول کہا جاتا ہے اور عملی یعنی پیشہ ورانہ زندگی میں اِسے اشتراکِ عمل یا ٹیم ورک کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی ٹیم کسی ایک کھلاڑی کی محنت کے بل پر نہیں چل سکتی۔ سب کچھ کو نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ایسی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہتی ہیں جنہیں کسی ایک یا دو تین ارکان پر انحصار پذیر نہ رہنا پڑتا ہو۔ بالکل اِسی طور ہمارا ماحول ہم سب سے مل کر بنتا ہے۔ چند افراد پورے ماحول کے ارتقا کے ذمہ دار ہوتے ہیں نہ اِس حوالے سے کریڈٹ لے سکتے ہیں۔ سب کو مل کر بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اِسی صورت زندگی کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی تربیت چھوٹی عمر سے دی جائے تو اچھا۔ بچوں کو ٹیم ورک کے بارے میں بتاتے رہنا چاہیے۔ اُن کے ذہنوں میں اشتراکِ عمل کا بیج بونے سے بڑی عمر میں ایک اچھا، تناور درخت سامنے آتا ہے۔ بچوں کو اگر ذہن نشین کرایا جاتا رہے کہ بہتر نتائج اشتراکِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں تو وہ مل کر کام کرنا سیکھتے ہیں اور اِس روش پر مرتے دم تک رواں رہتے ہیں۔ مل کر کام کرنا سب کے لیے لازم ہے لیکن اگر یہ روش بخوشی اپنائی جائے تو بات ہی کچھ اور ہے۔ آج کی دنیا کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو آپ خود اندازہ لگاسکیں گے کہ انسان انفرادی طور پر بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے مگر پھر بھی ناگزیر ہے کہ مل کر کام کیا جائے کیونکہ ٹیم ورک کے نتائج کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے اِس کی نمایاں ترین مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ قابل ترین افراد کو بھرتی کرکے اُن کی اجتماعی لیاقت سے مستفید ہوتے ہیں۔ ٹیم ورک کی صورت میں پیشہ ورانہ امور زیادہ اچھی طرح انجام دیے جاسکتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کا بھی یہی ''فنڈا‘‘ ہے ؎
ملے جو کڑی کڑی‘ ایک زنجیر بنے
پیار کے رنگ بھرو‘ زندہ تصویر بنے
ہم سفر ہو جو کوئی تو سہانا ہے سفر
جو اکیلا ہی چلے اُسے نہ ملے ڈگر
کہانی صرف اِتنی ہے کہ خواہ مخواہ تنہا چلنے سے بہتر ہے کہ مل کر چلئے اور پھیکے رنگ کے سفر کو رنگین بنائیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں