"MIK" (space) message & send to 7575

ہم خواب کدے میں جی رہے ہیں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس پختہ تر ہوتا جارہا ہے کہ ہم کسی خواب کدے میں جی رہے ہیں۔ جو کچھ آج ہمارے ارد گرد اور خود ہماری زندگی میں ہو رہا ہے وہ گزرے ہوئے تمام زمانوں کے عجیب و غریب واقعات کے نچوڑ سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے مگر اب کسی بھی بات پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ ہر دن کسی نہ کسی نئی بات کو لے کر آرہا ہے۔ جب روز کچھ نہ کچھ نیا ہو رہا ہے تو پھر حیرت کیسی اور کیوں؟ ہر طرف تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ کوئی ایک شعبہ یا معاملہ بھی ایسا نہیں جو اپنی پوزیشن چند دن بھی برقرار رکھ سکے۔ دنیا بھر میں ہر آن ایسا بہت کچھ ہو واقع رہا ہے جو بہت کچھ بدلنے پر تُلا رہتا ہے۔ دن رات رونما ہونے والی تبدیلیوں نے زندگی کا ڈھانچا پورا کا پورا بدل ڈالا ہے۔ بیشتر معاملات اپنی اصل سے اس قدر دور ہٹ چکے ہیں کہ بہت کوشش پر بھی پہچانے نہیں جاتے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ ہم میں سے بیشتر نے سوچنے اور سمجھنے کے معاملے میں کماحقہٗ تگ و دَو سے گریز کی راہ اپنا رکھی ہے۔
کیا یہ سب کچھ یونہی برقرار رہے گا؟ کیا تبدیلیوں کا بازار یونہی گرم رہے گا؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ فطری علوم و فنون میں حیرت پیشرفت دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ ماہرین بہت کچھ سوچ ہی نہیں رہے بلکہ انتباہ بھی کر رہے ہیں کہ ہوشیار رہنے کے سوا اب کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کے باوجود معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے جو تربیت لازم ہے وہ نہیں لی جارہی۔ کسی بھی معاشرے میں اس وقت مکمل توازن کی حالت دکھائی نہیں دے رہی۔ جن معاشروں میں معاشی استحکام زیادہ ہے وہاں بھی سب کچھ درست نہیں۔ لوگ پیٹ بھر کھانے اور زیادہ سے زیادہ آرام کی سہولت میسر ہونے پر بھی اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں۔ اس کے بہت سے بنیادی اسباب ہیں۔ ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک انتہائی تشویش ناک منفی تبدیلی ہے۔
فی زمانہ تبدیلیوں کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ جس نے ذرا سی بھی کم فہمی کا مظاہرہ کیا وہ تو گیا۔ ہر شعبہ اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا ناگزیر حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اگر کسی کو علم و فن اور پیشہ ورانہ مہارت کی دنیا میں قدم جمائے رکھنا ہے تو لازم ہے کہ اپنے آپ کو محض تبدیل نہ کرے بلکہ مسلسل تبدیل ہوتے رہنے کے لیے بھی تیار رہے۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ لگتا تو نہیں! ہمارے ارد گرد بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے مگرہم تبدیل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ماحول بدل جائے تو سمجھتے ہیں کہ وہ بھی تبدیل ہوگئے۔ محض نئی طرز کے کپڑے پہننے اور تھوڑے وکھری ٹائپ کے کھانوں سے پیٹ بھرنے کو تبدیلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے مگر ہم بہت کچھ سے بہت آگے جاکر 'سب کچھ‘ چاہتے ہیں۔ سب کچھ پانا تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ہاں‘ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر انسان بہت کچھ پاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے ہی ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جنہوں نے ہمارے سامنے ہی صفر سے سفر شروع کیا اور کہیں سے کہیں جاپہنچے۔ وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ انسان چاہے تو اپنی لیاقت اور محنت کے ذریعے بہت کچھ پاسکتا ہے۔
زندگی ہم سے اب جو کچھ مانگتی ہے وہ گھما پھراکر صرف اتنا ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں۔ سنجیدگی اختیار کیے بغیر ہم کسی بھی طور ایسی زندگی بسر نہیں کرسکتے جو قابلِ رشک اور اطمینان بخش ہو۔ محض مادی سطح کی ترقی ہمارے کسی کام کی نہیں۔ ہم چاہیں تو بھی اُس سے بھرپور لطف کشید نہیں کرسکتے۔ زندگی ہمارے لیے اگر کچھ ہوسکتی ہے توصرف اُس وقت جب ہم اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش اُسی وقت بارآور ثابت ہوتی ہے جب ہم زندگی کے روحانی پہلو کو بھی ذہن نشین رکھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جینا الف سے ی تک اور سر سے پاؤں تک صرف اور صرف چیلنج ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ ہمیں زندگی کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زندگی کا جھکاؤ کسی ایک طرف نہ ہو۔ صرف مادی پہلو کو ذہن نشین رکھیے گا تو زندگی کا خالص روحانی اور اخلاقی پہلو تشنہ رہ جائے گا۔ اگر ہر وقت روحانیت میں گم رہیے گا اور اخلاقیات ہی کو سب کچھ گردانیے گا تو مادی سُکھ یقینی بنانا ممکن نہ ہوگا اور یوں زندگی دوسری طرف جھک جائے گی۔ زندگی اِدھر جھکنی چاہیے نہ اُدھر۔ اِسے متوازن اور معتدل رہنا چاہیے۔ یہی زندگی بسر کرنے کا سب سے اچھا اور معقول ترین طریقہ ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ہمیں بہت سے معاملات میں اپنی پسند یا ترجیح کو ایک طرف ہٹاکر سوچنا پڑتا ہے۔ آج کی زندگی کیا ہے؟ اِس کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے سوچنے والوں نے بہت کچھ سوچا مگر پھر بھی انہیں کچھ خاص اندازہ نہیں تھا کہ دو‘ چار سو یا ہزار‘ بارہ سو سال بعد یہ دنیا کیا شکل اختیار کرے گی اور تب زندگی بسر کرنے والوں پر کیا گزرے گی۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف تمام معاملات کا مرکب پایا جاتا ہے۔ ایک طرف آسانیاں ہیں اور دوسری طرف طرح طرح کی مشکلات۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ ہی ہمیں زندگی بسر کرنی ہے۔ دو‘ چار سو یا ہزار سال پہلے کے کسی بھی دانشور کو کچھ خاص اندازہ نہ تھا کہ یہ دنیا کبھی اِتنی پیچیدہ ہوجائے گی کہ لاکھ کوشش پر بھی پہچانی نہ جائے گی۔
آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں سے ہر معاملے میں کئی راستے جاتے ہیں۔ قدم قدم پر انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ ذہن بھول بھلیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ انسان کے پاس ہر معاملے میں اِتنے آپشنز ہیں کہ وہ انتخاب کے گم تاڑے کی نذر ہو رہتا ہے۔ بیشتر معاملات میں ذہن صرف اور صرف الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ہم نے کبھی جو خواب دیکھتے تھے وہ تعبیر کے مرحلے سے گزرتے جا رہے ہیں۔ انسان جو کچھ بھی دیکھنا، سننا اور حاصل کرنا چاہتا تھا وہ سب اُسے میسر ہے۔ جو کچھ بھی انسان سوچ سکتا تھا وہ بہت حد تک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ مزید بہت کچھ ہے جو حقیقت میں ڈھلتا جارہا ہے۔ سوچنے کی حد ہے نہ اُس کے حقیقت بننے کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام خوابوں کی تعبیر خوش کن نہیں۔ بہت سے خواب اس طور حقیقت کا روپ دھارے ہوئے ہیں کہ انسان سہما ہوا ہے۔ آرزوئیں بھی بہت تھیں اور امیدیں بھی۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ خدشات بھی تو تھے۔ وہ خدشات آج شدید پریشانی کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، کہیں نہ کہیں ایسا الجھتا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا اور گر ہی پڑتا ہے۔ بعض خوابوں کی تعبیر خون تُھکوا رہی ہے :
تعبیر کا زہر پی رہے ہیں
ہم خواب کدے میں جی رہے ہیں
اب اہم بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کرے تو کیا کرے، کس طور اپنے معاملات کو متوازن رکھے، بالکل درست راہ پر سفر کیسے کرے اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ درست راہ کا تعین کیسے کرے۔ سوال اور بھی بہت سے ہیں اور اُن کے جواب بھی لازمی طور پر درکار ہیں۔ آج کے انسان کو یہ نہیں بھولنا ہے کہ ہر معاملے میں صرف دنیا کا نہیں ہو رہنا اور ہر معاملے میں صرف آخرت ہی کا خیال نہیں رکھنا۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ اپنے آپ کو متوازن رکھنا ہے۔ خود کو متوازن رکھنے کی ہر وہ کوشش کرنی ہے جو کی جانی چاہیے۔ بیشتر یہ حال ہے کہ بہت سوچنے پر جب معقول راہ نہیں سُوجھتی تو اپنی سوچ کا معیار بلند کرنے کے بجائے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر سوچنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ جھنجھلاہٹ، یہ بیزاری، یہ چڑچڑا پن زندگی کی بنیادوں کو چاٹ رہا ہے، کھوکھلا کر رہا ہے۔ خبردار اور باہوش رہیے۔ خوش دلی کی راہ پر چلنا ہے، دنیا کو کھلے دل سے قبول کرنا ہے۔ گنجائش تساہل کی ہے نہ تغافل کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں