ہر شعبے میں اِتنی زیادہ اور ایسی ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ جو متوجہ نہ ہوا سمجھ لیجیے وہ مارا گیا۔ تبدیلی کو سمجھنا اور اِس تفہیم کی بنیاد پر خود کو بدلنے کے لیے تیار کرنا ہر انسان پر اب اُسی طور لازم ہے جس طور سانس لیے بغیر چارہ نہیں۔ تبدیلی بھی اب زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ویسے ہر دور میں تبدیلی زندگی اور موت ہی کا معاملہ رہی ہے مگر اب معاملہ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ وہ دور کب کا جاچکا جب کسی بھی ماحول یا معاشرے میں وقت کے ساتھ قدم ملاکر نہ چلنے کا بھی آپشن ہوا کرتا تھا۔ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے خود کو آمادہ نہیں پاتے تھے وہ ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتے تھے۔ یہ سہولت اب ختم ہوچکی ہے۔ آج کی دنیا میں ہر انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے، تبدیل ہونا ہی ہے۔ تبدیل ہونے سے انکار انسان کو وہاں نہیں رہنے دیتا جہاں وہ ہے بلکہ انتہا درجے کی پستی سے دوچار کرتا ہے۔ پھر بقا کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ فی زمانہ ہر وہ انسان بقا کے مسئلے سے دوچار ہے جس نے اپنے آپ کو نہ بدلنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ بیشتر پسماندہ معاشروں کا یہی مسئلہ ہے۔ ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں؛ تاہم کسی نہ کسی طور وہ برقرار محض اس لیے ہیں کہ ان کے مٹ جانے کی صورت میں زیادہ بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے معاشروں کو عالمی برادری کسی نہ کسی طور کم ترین درجے میں زندہ رکھتی ہے۔ فرد کی سطح پر یہ سہولت میسر نہیں۔ اگر کوئی انسان خود کو بدلنے پر آمادہ نہ ہو اور جمود کو ہر حال میں برقرار رکھنے پر بضد ہو تو اُس کی زندگی بالآخر اس مقام تک پہنچ ہی جاتی ہے جہاں موت کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ یہ موت حالات کی پیدا کردہ بھی ہوسکتی ہے اور اپنی خواہش و ارادے کا نتیجہ بھی۔
چین آبادی کے اعتبار سے اب دنیا کا سب دوسرا بڑا ملک ہے‘ حال ہی میں بھارت نے چین کو اس معاملے میں پیچھے چھوڑا ہے۔ اس وقت چین کی آبادی ایک ارب 41 کروڑ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو کنٹرول کرنا بجائے خود ایک بڑا مسئلہ اور کارنامہ ہے۔ چینی حکومت اتنی بڑی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں کا اہتمام ممکن بنانے پر غیر معمولی توجہ دیتی ہے۔ انسان کو اور کچھ درکار ہو یا نہ ہو‘ کھانا تو روزانہ ہی درکار ہوتا ہے اور وہ بھی دو سے تین بار۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی حکومت اتنے بڑے پیمانے پر خوراک کی فراہمی یقینی بنائے رکھنے پر کتنی توجہ دیتی ہوگی۔
خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرتے رہنا چینی حکومت کے لیے ناگزیر مرحلہ ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے پر وہ بہت متوجہ رہتی ہے، بہت محنت کرتی ہے۔ خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے کھیتی باڑی میں جدت لانا لازم ہے۔ زمین زرخیز ہونے پر بھی بہت سے ممالک زیادہ پیداوار حاصل نہیں کر پاتے۔ پاکستان اِس کی ایک واضح مثال ہے۔ ہمارے ہاں زرخیز زمین کی کمی نہیں مگر پھر بھی ہم خوراک کے حوالے سے مکمل خود کفیل نہیں ہیں۔ حد یہ ہے کہ پیاز اور ٹماٹر جیسی عام سبزیاں بھی اکثر درآمد کرنا پڑ جاتی ہیں۔ دالیں اور گندم بھی درآمد کی جاتی رہی ہے۔ ایسی ہر درآمد ہمارے لیے شرم ناک ہے۔
بات ہو رہی ہے چین کی جس کی حکومت نے اپنی غیر معمولی آبادی کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کی پیداوار بڑھاتے رہنے کی منصوبہ بندی ہر دور میں کی ہے۔ اب چین میں ٹنل فارمنگ کا طریقہ بہت مقبول ہے۔ لفظی ترجمہ تو ''سرنگ میں کھیتی باڑی‘‘ ہوگا۔ ویسے معاملہ یہ ہے کہ ٹنل فارمنگ میں پورے کھت کو پلاسٹک کی شیٹس سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس طریقِ کار پر عمل کرنے سے فصل کو زیادہ سردی اور گرمی کے علاوہ تیز بارش سے پہنچنے والے نقصان سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ ٹنل فارمنگ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے سال بھر فصلیں حاصل کی جاسکتی ہیں یعنی زمین خواہ مخواہ فارغ نہیں رہتی۔ ایک اضافہ فائدہ یہ ہے کہ فصل کی نگرانی پر زیادہ توجہ نہیں دینا پڑتی۔ اس صورت میں جو وقت بچتا ہے اس سے دوسرے بہت سے کام نپٹائے جاسکتے ہیں۔ ٹنل فارمنگ کا طریقہ اگر پاکستان میں بھی اپنایا جائے تو خوراک کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی زرعی اراضی کی زرخیزی سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔ کاشت کار بھی بہت محنتی ہیں۔ دیہات میں رہنے والوں کی زندگی میں محنت بنیادی عنصر ہے۔ ایسے میں اگر تھوڑی سی راہ نمائی کی جائے تو فی ایکڑ پیداوار میں 200 فیصد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اضافہ ناگزیر ہے کیونکہ ہمارے ہاں دیہی معیشت کا ڈھانچا کمزور ہونے کے باعث اچھی خاصی پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔ پیداوار میں 200 فیصد تک اضافہ یقینی بناکر ہم فصلوں کو ضائع ہونے سے بھی بچائیں تو وہ وقت زیادہ دور نہ رہے گا جب ہم خوراک بڑے پیمانے پر برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ایک کھیتی باڑی کا کیا مذکور ہے‘ اب تو ہر معاملے ہی میں ٹنل سے گزرنا لازم ٹھہرا ہے۔ آج کی زندگی سر تا سر سرنگ سے گزرنے کے مرحلے جیسی ہوگئی ہے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت نے تمام معاملات کا بنیادی ڈھانچا بدل ڈالا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے پورے شعبے کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں، اُن کی شکل ایسی بدلتی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔ ٹیکنالوجیز میں تیز رفتار بلکہ برق رفتار پیش رفت نے مستقل حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر انسان کے لیے تبدیلیوں پر نظر رکھنا اور اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار کرنا لازم ہوچکا ہے۔ جس نے بھی اس حقیقت سے انکار کیا وہ کہیں کا نہ رہا۔ زندگی کا ڈھانچا مجموعی طور پر ایسا ہوگیا ہے کہ اب صرف وہی زندہ رہ پاتے ہیں جو صرف تبدیلی پر نہیں بلکہ تبدیلی کے عمل پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ کسی معاملے میں اپنے سامنے اچانک بہت بڑی تبدیلی دیکھ کر پریشان ہونے سے بچنا ہے تو تبدیلی کے پورے عمل پر نظر رکھنا پڑے گی۔ اس طور انسان اپنے آپ کو بدلنے پر بھی متوجہ رہے گا۔ یہ اِس دور کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے۔
کسی بھی شعبے کی مجموعی پیداواری صلاحیت بڑھانا سرنگ سے گزرنے جیسا ہی تو ہے۔ مسابقت اِتنی بڑھ چکی ہے کہ ذہن کو زندہ اور توانا رکھنا حقیقی چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے لیے ایسے موافق حالات پیدا کر رکھے ہیں جن کی مدد سے وہ کسی بھی معاملے میں اپنی برتری برقرار رکھنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک پر بھی اچھا خاصا دباؤ مرتب ہو رہا ہے۔ اپنے لیے موافق حالات پیدا کرنا اُن کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو مسابقت کے لیے زندہ رکھ پاتے ہیں۔ پسماندہ ممالک کا حال بہت برا ہے۔ وہ ایسی پسماندگی کا شکار ہیں کہ دوڑ میں حصہ لینے کے بارے میں سوچنے کے قابل بھی نہیں ہو پارہے۔ ابھی تک اُن کے پاس صرف ایک آپشن ہے: تماشا دیکھنا۔ بیشتر پسماندہ ممالک کا یہ حال ہے کہ اس تماشے ہی سے وہ لطف کشید کرتے رہنے کو وہ زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ بیشتر پس ماندہ ممالک کی مجموعی گراوٹ اس قدر ہے کہ مزید پسماندگی کی گنجائش نہیں رہی۔ ایسے میں وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ چکے ہیں۔ بیشتر اِسی بات سے خوش ہیں کہ وجود برقرار ہے، کسی بھی فرد یا معاشرے کو اب ڈھنگ سے جینا ہے تو ناگزیر ہے کہ کسی نہ کسی طور خود کو تبدیلی کے لیے تیار کرے۔ اس سے قبل اُسے تبدیلیوں کو سمجھنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ یہ ہنر ہر دور کے انسان کو سیکھنا پڑا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
وقت اور حالات کے تقاضے تو سبھی کے لیے ہوتے ہیں؛ تاہم نئی نسل کو اس حوالے سے زیادہ تیاری یقینی بنانا ہوتی ہے۔ نئی نسل کے سامنے زندگی پڑی ہوتی ہے۔ اُن کے لیے امکانات بھی بہت ہوتے ہیں۔ سکت اور رجحان کو وہ اچھی تربیت سے خوب بارآور بناسکتے ہیں۔ والدین، اساتذہ، ماحول اور حکومت سب کو مل کر ایسا ماحول یقینی بنانا ہے جس میں نئی نسل خود کو دورِ جدید کی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرسکے۔ آج کی زندگی جو چیلنجز کھڑے کر رہی ہے اُن کا سامنا نئی نسل زیادہ سکت اور لیاقت کے ساتھ کرسکتی ہے۔ اُسے سرنگ سے کامیاب گزارنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔