آج دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا غلغلہ ہے۔ درحقیقت غلغلہ کم اور رونا زیادہ ہے۔ کیا چھوٹے اور کیا بڑے‘ سبھی اِس سے ڈرے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے خوفزہ ہونا ویسے تو فطری ہے کیونکہ اِس کے ہاتھوں اِتنی زیادہ اور اِتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ سب کچھ تلپٹ کردینے والی تبدیلیاں تو واقع ہوکر رہیں گی۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مجموعی کیفیت سمندری طوفان کی سی ہے۔ طوفان کو تو روکا نہیں جاسکتا مگر ہاں! اُس سے بچنے کی تدبیریں سوچی جاسکتی ہیں‘ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ طوفان یا سیلاب کو برا بھلا کہنے یا اُس کا رونا رونے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، بچاؤ کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کیا مصنوعی ذہانت کوئی نئی چیز ہے؟ ہمارا اِس سے واسطہ کبھی نہیں پڑا؟ کیا ہم مصنوعی ذہانت کے پہلو بہ پہلو زندگی بسر کرتے آئے ہیں؟ معاملہ ایسا ہی رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کیا ہے؟ مشینی ذہانت یعنی جو کچھ کسی مشین کو بتایا جائے وہی ہو۔ کیا ایسا نہیں ہوتا رہا؟ ایک زمانے سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ 1940ء کے عشرے میں کمپیوٹر کی ابتدائی ایجاد کے بعد سے انسان کے لیے معاملات وہ کہاں رہے جو اِس سے قبل تھے؟ کمپیوٹر کے استعمال نے ابتدائی مراحل میں سست رفتاری ہی سے سہی‘ زندگی کو خود کاری (automation) کی دہلیز تک پہنچا دیا تھا۔ یہ سب کچھ 1950ء کے عشرے میں شروع ہوچکا تھا۔ پھر یہ سب کچھ ہمارے لیے نیا کیسے ہوگیا؟ بات اِتنی سی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں آپس میں یوں جڑتی گئیں کہ بہت کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ اب تیزی اِتنی ہے کہ بعض معاملات ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہوتے ہیں مگر ہم ڈھنگ سے یا کماحقہٗ سمجھ نہیں پاتے۔ سوال مصنوعی ذہانت کا نہیں‘ اُس کی تیزی کا ہے۔ کم لوگوں نے ہی یہ اندازہ لگایا تھا کہ مصنوعی ذہانت ان کی زندگی میں اِس حد تک داخل اور متصرف ہو جائے گی کہ پھر کچھ خاص کرنے کو رہے گا نہیں۔
آج کوئی بھی شعبہ مصنوعی ذہانت کی دسترس سے باہر نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ کسی کام کو تیزی سے کرنا ہو تو مصنوعی ذہانت کا اطلاق ناگزیر ہے۔ اب کوئی بھی مقامِ کار مصنوعی ذہانت سے مدد لیے بغیر ڈھنگ کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ تو کیا ہم مصنوعی ذہانت کے آگے ہتھیار ڈال دیں؟ بادی النظر میں ہم یہ جنگ پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ کیا واقعی انسان مصنوعی ذہانت سے ہار چکا ہے؟ کیا اب زندگی کو مصنوعی ذہانت پر انحصار کی منزل سے دور نہیں لے جایا جاسکتا؟ ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔ ایسا نہیں کہ انسان کا ذہن اب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بھی انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ جو چیز انسان نے بنائی ہے وہ کیونکر انسان سے بڑھ کر ہوسکتی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سب کچھ مصنوعی ذہانت کے سپرد کرنے کا سوچ لیا ہے۔ انسان کو ذہن سے کام لینے میں الجھن محسوس ہونے لگی ہے۔ اب ہر شعبے کا یہ حال ہے کہ اُس سے وابستہ افراد دن رات اِس فراق میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنا کام آسان بنائیں۔ زور کام کو آسان بنانے پر ہے، معیاری بنانے کی فکر کسی کسی کو لاحق ہے۔ پوری دنیا یہی حال ہے۔ معاشی سرگرمیوں سے آسانی سے نپٹ کر انسان زیادہ سے زیادہ فراغت یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے۔ اِس فراغت کو کس طرح بروئے کار لانا ہے؟ یہ سوچنے والے خال خال ہیں۔
نئے سال کو شروع ہوئے تین ہفتے سے زائد ہو چلے ہیں۔ ہر سال کی طرح اِس سال کے لیے بھی بہت سی پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا عمل دخل ایک طرف کام آسان بنائے گا، کارکردگی کا گراف بلند ہوگا اور دوسری طرف بے روزگاری بھی بڑھے گی کیونکہ انسانوں کی ضرورت گھٹتی جائے گی۔ کم و بیش ہر معاملے میں، ہر شعبے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف زندگی آسان ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف معاشی اور معاشرتی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بیشتر کاموں میں انسان کی ضرورت گھٹنے سے آجر تو بہت حد تک مزے میں ہیں مگر اجیر پریشان ہیں کیونکہ کسی بھی وقت اُنہیں جواب مل جاتا ہے اور پھر اُن کے لیے گزر بسر کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی بیروزگاری سیاسی اور معاشرتی سطح پر بھی شدید اضطراب پیدا کر رہی ہے۔ آئیے! صرف ایک شعبے کا جائزہ لیتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا پیدا کردہ چیلنج کتنا بڑا ہے۔
نیا سال شروع ہوا ہے تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لیے بھی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ٹنسل ٹاؤن یعنی فلم نگری کے حوالے سے بھی زیادہ سے زیادہ جدت کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز نے فلمی دنیا کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایکشن اور سائنس فکشن فلموں میں نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے جو انسان کو واقعتاً کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے۔ فلم میکنگ کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ رواں سال جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے کہانی بیان کرنے کا عمل زیادہ انٹر ایکٹو اور پرسنلائزڈ بنے گا۔ مصنوعی ذہانت فلموں اور وڈیو گیمز کو بہت تیزی سے تبدیل کر رہی ہے۔ لوگوں کو تفریح کے جو آئٹم دستیاب ہیں ان کی تعداد میں نئے سال کے دوران غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا جائے گا۔ بہت حد تک یہ معاملہ پھولتے ہوئے غبارے جیسا ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لیے بھی تیزی سے، زیادہ اور غیر معمولی تاثر کا حامل مواد تیار کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ 2025ء کی آمد تک انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں 90 فیصد آن لائن مواد جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا تیار کردہ ہوگا! ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند برس بعد یہ بھی ہوگا کہ پوری کی پوری فلم کی تیاری کے لیے انسانوں کی ضرورت برائے نام رہ جائے گی۔ کہانی لکھنے سے فلم تیار کرکے حتمی شکل میں سامنے لانے تک پورا عمل مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں انجام کو پہنچنے لگے گا۔ اس وقت بھی اینی میٹڈ فلموں کی صورت میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ فلم کی تیاری کے دوران وقت بچانے کے لیے ڈبنگ، ایڈیٹنگ اور سپیشل ایفیکٹس کا معاملہ مصنوعی ذہانت کے حوالے کیا جارہا ہے۔ فلم میکرز کسی بھی فلم کا بجٹ تیار کرتے وقت مصنوعی ذہانت سے کام لینے کی صورت میں لاگت گھٹانے کا فیکٹر ذہن نشین رکھتے ہیں۔
2024ء میں فلم ''ہیئر‘‘ (Here) بھی ریلیز ہونے والی ہے۔ شہرہ آفاق فلم ''Forrest Gump‘‘ کی ٹیم کو دوبارہ ملانے والی اس فلم میں مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام اداکاروں کو جوان دکھایا جائے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے فلمیں تیار کرنے کا عمل ایسا آسان نہیں جیسا تصور کیا جارہا ہے۔ فنکاروں اور مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم چلانے والوں کے درمیان قانونی جنگ ہوگی، مقدمات دائر کیے جائیں گے اور معاملہ ہرجانے ادا کرنے کی منزل تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
تخلیقی کام کرنے والوں کو مصنوعی ذہانت جیسی انقلابی ٹیکنالوجی کے تیز رفتار عروج کا سامنا ہے۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی بے چینی کو اپنی تخلیقات میں بھی منتقل کریں گے۔ ایسے میں ''ٹرمینیٹر‘‘ جیسی بہت سی فلموں کا انتظار کیا جانا چاہیے جن میں انسان اور مشین کا مقابلہ دکھایا جائے گا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہمارے لیے کتنے اور کیسے چیلنجز کھڑے کر رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم مصنوعی ذہانت کے پیدا کردہ کسی بھی چیلنج سے بحسن و خوبی نپٹنے کے لیے تیار ہیں؟ ایسا لگتا تو نہیں! ہم نے مصنوعی ذہانت کو دیکھا اور پرکھا ہے اور اِس کے ہاتھوں الجھنوں کا شکار بھی ہیں مگر اِس سے نپٹنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر رہے۔ یہ تصور کرکے سُکون کا سانس لیا جارہا ہے کہ سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا۔ ایسا پہلے کب ہوا ہے کہ اب ہوگا۔ ہر چیلنج سے ازخود نپٹنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو کوئی چھوٹا سا چیلنج بھی دھیرے دھیرے بڑے بحران میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ہم سے عمل چاہتی ہے اور وہ بھی فوری اور معاملہ فہمی کے ساتھ۔