پاکستانی معاشرے کی خصوصیات کو دنیا بھر میں عام کرنے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے معاشرے ہمارے معاشرے کے بارے میں سُن، پڑھ اور جان کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے افراد کروڑوں کی تعداد میں ضرور ہوں گے جو رہن سہن اور خور و نوش کی بنیاد پر ہمیں کسی اور سیّارے کی مخلوق سمجھتے ہیں! اور وہ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو اِس میں کچھ زیادہ غلط بھی نہیں۔ خصوصیات کی بنیاد پر سوچیے تو ہم اِس زمین و آسماں کے ہوتے ہوئے بھی اِس کے نہیں۔
برطانیہ میں خالص پاکستانی مزاج کا (گورا) بچہ سامنے آیا ہے۔ برطانیہ کے مختلف علاقوں میں ا۔ب پاکستانی برادری بھی خیر سے اچھی خاصی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِس گورے بچے نے اپنی سرزمین پر بسے ہوئے پاکستانیوں سے کچھ سیکھا ہو، تھوڑی بہت ''انسپیریشن‘‘ لی ہو! پاکستانیوں کا مزاج ہے ہی کچھ ایسا چھا جانے والا کہ جہاں جاتے ہیں، سب کو اپنا ''گِرویدہ‘‘ بنالیتے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ دس سالہ کیمبل ہگنز کو ایک عجیب بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ ماہرین نے (جو خود بھی اچھی خاصی بیماری کا درجہ رکھتے ہیں!) کہا ہے کہ کیمبل ہگنز کو ''پائیکا‘‘ نام کی بیماری لاحق ہے۔ بیماری یہ ہے کہ کیمبل ہر وقت کھاتا رہتا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ جو کچھ ہمارا قومی مزاج ہے اُسے ماہرین بیماری قرار دے کر ہمیں de-grade کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! کیمبل کا کیس اس لیے پریشان کن قرار دیا جارہا ہے کہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا ہے۔ اگر یہ بیماری ہے تو پھر 90 فیصد پاکستانی بیمار ہوئے! یعنی یہ کہ ماہرین نے ہمیں خواہ مخواہ بدنام کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم خواہ مخواہ شرمندہ ہوتے رہیں۔ دنیا بھر میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ ہر گھر میں ایک فرد تو ایسا ہوتا ہی ہے۔ امریکی پالیسی میکرز ہی کو لیجیے۔ پورے پورے ملک ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے! اور اِس پر کبھی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔
ماہرین کو پریشانی سے دوچار کرنے والی بات یہ ہے کہ کیمبل کا معاملہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہنے تک محدود نہیں، وہ انٹ شنٹ چیزیں بھی چبا ڈالتا ہے۔ تار، موزے، صابن، پنسل، گڑیا ... جو کچھ بھی ہاتھ لگ جائے، کیمبل کھانا شروع کردیتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیمبل کے ماں اِس کی ذمہ دار ہے۔ اسٹیفنی ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی عادت سے پریشان ہوکر اب کیمبل پر بہت سے دروازے بند رکھتی ہے۔ مثلاً ریفریجریٹر میں تالا لگا رہتا ہے۔ اسٹیفنی کنجوس ہرگز نہیں ہے کہ بیٹے کو کھانے پینے سے روکے۔ قصہ یہ ہے کہ کیمبل ریفریجریٹر میں رکھا کچا گوشت اور سبزیاں بھی نکال کر ڈکار جاتا ہے! ماں نہیں چاہتی کہ الٹا سیدھا کھانے سے بیٹے کی جان پر بن آئے۔ ایک بار ایسا ہو بھی چکا ہے۔ ہوا یوں کہ کیمبل نے منہ چلانے کے شوق میں واشنگ ٹیبلٹس نگل لیں۔ اُس کی اِس حرکت سے لینے کے دینے پڑگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی حالت غیر ہوگئی۔ گھر والے اُسے لے کر بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے۔ ڈاکٹرز نے بر وقت پیٹ کی ''برین واشنگ‘‘ کرکے کیمبل کی! تھوڑی سی تاخیر کی صورت میں اُس کی جان بھی جاسکتی تھی۔
کیمبل کی اِس حرکت سے ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ ضرور پاکستانیوں سے بہت متاثر ہے۔ یعنی خوب کھاؤ اور کچھ بھی کھا جاؤ۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا!
اور ایک کھانے پینے پر کیا موقوف ہے، کیمبل میں پاکستانیوں والی اور بھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً وہ رات کو صرف دو گھنٹے سوتا ہے۔ اور دن میں اُس کی نیند کا دورانیہ نصف گھنٹے سے زیادہ نہیں۔ یعنی 24 گھنٹوں میں صرف ڈھائی گھنٹے ایسے ہیں جو کھانے پینے کی ''یومیہ روایت‘‘ سے استثناء پاسکے ہیں! اگر کیمبل کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا تو بہت جلد وہ پاکستانی طرزِ زندگی کی ایک ''روشن‘‘ مثال بن کر سامنے آئے گا! ہم سونے اور آرام کرنے کا وقت بھی معمولاتِ خور و نوش کی نذر کردیتے ہیں۔
پاکستان کی نئی نسل کا بھی بُنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوتی بہت کم ہے۔ پوری قوم خوابِ خرگوش کے مزے لے لُوٹ رہی ہے اور قوم کا ضمیر بھی ایک زمانے سے سویا پڑا ہے مگر نئی نسل ہے کہ رات کے گلشن میں رت جگے کے گُل کِھلاتے رہنے پر تُلی ہوئی ہے۔ نوجوانوں کو رات رات بھر جگائے رکھنے والی چیزوں کی بھی تو کمی نہیں۔
پروفیسر آل احمد سُرورؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
دولتِ درد ملی، دیدۂ بیدار ملا
لوگ کہتے ہیں غمِ عشق میں کیا رکھا ہے
مگر یہاں تو لوگ غمِ عشق کے پھیر میں پڑے بغیر ''دیدۂ بیدار‘‘ سے بہرہ مند ہیں! آنکھ رات بھر کیوں نہ جاگے؟ ہوٹل رات بھر کُھلے رہتے ہیں، پان کے کیبل رات بھر پلک نہیں چھپکتے۔ اور ڈَبّو اور کیرم کلب کب سوتے ہیں؟ معمول یہ ہے کہ لوگ تیار ہوکر گھر سے رات بارہ بجے نکلتے ہیں۔ پہلے کچھ دیر مٹر گشت ہوتا ہے، پورے علاقے کی خبر لی جاتی ہے، پھر کچھ پیٹ پُوجا کی جاتی ہے اور اِس کے بعد لوگ چائے کے ہوٹل پر بیٹھتے ہیں تو اُٹھنا بُھول جاتے ہیں۔ ع
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
شاید آپ کے ذہن میں یہ خیال اُبھرا ہو کہ کیمبل نے واشنگ ٹیبلٹس کھاکر حماقت کا مظاہرہ کیا۔ جی نہیں، اُس نے واشنگ ٹیبلٹس کھاکر ثابت کردیا کہ وہ ابھی مکمل پاکستانی مزاج کا نہیں ہوا، یعنی کچھ عقلِ سلیم باقی ہے! پیٹ میں دُنیا بھر کا کچرا ڈالتے رہیے تو خرابی بھی پیدا ہوتی ہے۔ پیٹ کا یعنی ہاضمے کا نظام درست رکھنے کے لیے کبھی کبھی صفائی بھی ناگزیر ہو جایا کرتی ہے۔ کیمبل نے یہی سوچ کر واشنگ ٹیبلٹس کھائی ہوں گی کہ پیٹ کی کچھ صفائی ہوجائے۔ یہ ہے خالص برطانوی سوچ۔ ابھی ہم اِس منزل تک نہیں پہنچے۔ ہم اب تک خوب کھانے اور پیٹ کی واٹ لگانے کے مرحلے میں ہیں! کیمبل نے واشنگ ٹیبلٹس نگل کر ثابت کردیا کہ برطانوی بچوں کا صرف منہ ہی نہیں، دماغ بھی چلتا ہے! گویا کیمبل ابھی پاکستانی رنگ میں پوری طرح رنگنے کی منزل سے بہت دور ہے!
کیمبل کو کیا معلوم کہ اُس کی جو عادت اہل خانہ اور ماہرین کو پریشان کر رہی ہے وہی عادت ہمارے ہاں بہت سوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے! یہاں تو بہت سے لوگ پیدا ہی اِس لیے ہوئے ہیں کہ جو کچھ بھی ہاتھ لگے کھا جائیں، ڈکار جائیں۔ معصوم کیمبل شاید اِس بات پر فخر کرتا ہو کہ وہ کچھ بھی کھا سکتا ہے مگر ایک بار پاکستان کی سیر کرکے جائے گا تو آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر شرمندہ ہی ہوتا رہے گا۔ وہ کیا جانے کہ یہاں تو لوگ اختیارات ملنے پر پورے کے پورے ادارے ڈکار جاتے ہیں! اور یہ کام بھی ایسی نفاست اور خاموشی سے ہوتا ہے کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہیں چلتا! کیمبل خود کو حیرت انگیز ہاضمے کا ثابت کرنے کے لیے موزے، صابن، گڑیا، تار، پنسل اور پتہ نہیں کیا کیا کھاتا پھرتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو ایسی اگڑم شگڑم اشیاء نہیں کھانا پڑتیں۔ یہاں خیر سے کھانے پینے کی عام سی اشیاء میں بھی صابن، تار، پنسل اور پتا نہیں کن کن چیزوں کا ''ذائقہ‘‘ پایا جاتا ہے! مگر کوئی ہمارا حوصلہ دیکھے کہ دُنیا بھر کی مُضر اشیاء باقاعدگی سے کھانے کے بعد بھی ہم نے کبھی احتجاج کیا ہے نہ غُرور! اگر ہم بھی کیمبل کی طرح گوری چمڑی کے ہوتے تو دُنیا ہمیں دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جانے کی منزل سے گزرتی!