حقیقت کی دنیا میں ہر طرف مسائل ہیں، پریشانیاں ہیں۔ مسائل کو حل کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر نہ کرے تو مسائل بڑھتے جائیں اور پریشانیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جائے۔
حقیقت کی دنیا میں جو مسائل پائے جاتے ہیں اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی بہتر زندگی بسر کرنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ ایسا آسان نہیں کہ کہہ دیا اور ہوگیا۔ ہمارے ہاں حکومتیں صرف دعوے کرتی رہی ہیں، عمل کی دنیا میں وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ خود بھی کوئی نہ کوئی نشہ پال لیتی ہیں اور قوم کو بھی کسی نہ کسی نشے میں مبتلا رکھتی ہیں تاکہ کسی کا دھیان حقیقی زندگی اور اُس کی مشکلات کی طرف نہ جائے۔ ایک زمانے سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ہماری حکومتیں خوش فہمی یا غلط فہمی کے نشے میں دُھت رہتی ہیں اور عوام کو بھی ایسی ہی کسی کیفیت میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں۔ اور اس کا نتیجہ؟ ہم سبھی دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ رکا ہوا پانی پہلے تو سڑتا ہے، اس میں تعفن پیدا ہوتا ہے، کائی جمتی ہے اور پھر وہ دلدل میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔
پاک چین راہداری پر بھارتی اعتراضات اس بات کی دلیل ہیں کہ بھارت کی تمام خواہشات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی طرف مائل نہ ہوں اور بہتے دریا کا پانی استعمال کرنے کے بجائے جوہڑ کا متعفّن پانی پیتے رہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر چین اقتصادی راہداری تعمیر کر رہا ہے تو بھارت کو معترض ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ پاکستانی حدود میں ہو رہا ہے۔ چین بین الاقوامی تجارت میں
اپنا کردار وسیع کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کو بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ یہ تو خالص پاک چین معاملہ ہے۔ اِس میں بھارتی مفادات کو براہِ راست کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ مگر صاحب، بھارتی ذہنیت کو تو خطرہ لاحق ہے نا! محدود و خود پسند بنیا ذہنیت یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ پاکستان کسی بھی طریقے سے بہتری کی طرف جائے، اس کے لیے خوش حالی کی راہ ہموار ہو۔ چین کا تو کچھ بگاڑا نہیں جاسکتا، ایسے میں پاکستان ہی کو آنکھیں دکھائی جاسکتی ہیں اور دکھائی جارہی ہیں۔
کالم شروع ہوتا تھا نشے کے تذکرے سے۔ پاکستان مخالف رجحان وہ نشہ ہے جسے ہر بھارتی حکومت نے پروان چڑھایا ہے اور اِس نشے میں دُھت رہتے ہوئے دن گزارے ہیں۔ جب کچھ اور نہیں کیا جاسکتا تب پاکستان کی مخالفت تو کی ہی جاسکتی ہے! امریکہ نے بھارت سے سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا تب پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ مگر بنیادی اعتراض یہ تھا کہ صرف بھارت کو کیوں نوازا جارہا ہے اور یہ کہ پاکستان کو اگر کسی جوہری قوت کی طرف سے ایسے ہی معاہدے کی پیشکش کی جائے تو امریکہ اور بھارت کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔ چین نے پاکستان کو سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت کو اس پر بھی تحفظات لاحق رہے ہیں۔ ہم تو آج تک سمجھ نہیں پائے کہ تحفظات کس منطق کے تحت لاحق ہوتے ہیں!
بعض اقوام ہر لحظہ تحفظات کی زد میں رہتی ہیں جیسے بھارت۔ اور بعض شخصیات کو تحفظات یوں اپنے حصار میں لیے رہتے ہیں کہ وہ ان کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمن۔ مولانا کے لیل و نہار تحفظات کے آغوش میں گزرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک تحفظات کے بغیر زندگی بسر کرنا تقریباً حرام کا درجہ رکھتا ہے!
ہر معاملے میں پاکستان کی مخالفت وہ نشہ ہے جس میں ہر بھارتی حکومت چُور رہی ہے۔ آج کی مودی سرکار بھی اِسی نشے میں دُھت ہوکر ہر معاملے میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے درپے دکھائی دیتی ہے۔ پاک چین راہداری پر بھارتی تحفظات ایسے نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکیں۔ اس منصوبے پر مکمل عمل کی صورت میں پاکستان کے طول و عرض میں ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ ملک بھر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ لوگ بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ جب معاملہ پاکستان کی بہتری کا ہو تو بھارت میں تحفظات کا پیدا ہونا ناقابل فہم نہیں۔ ایک کیفیت یہ ہوتی ہے کہ میں نہ کھیل سکا تو تجھے بھی کھیلنے نہیں دوں گا۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ صرف میں کھیلوں گا، تجھے کسی صورت کھیلنے نہیں دوں گا!
بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر پاکستان کے خلاف جانے کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی معاملے میں پاکستان کی گردن دبوچ کر اُسے عالمی برادری کے سامنے ذلیل کیا جائے۔ دِلّی سرکار کی خواہشات کا تو خیر کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہ ع
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ ''دُم‘‘ نکلے!
جیسا معاملہ ہے مگر پاکستان کو نیچا دکھانے یا نقصان پہنچانے کی خواہش وہ دریا ہے جس میں غوطے لگانے سے دِلّی سرکار کا دل بھرتا ہی نہیں۔ ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جب پاکستان پر بس نہیں چلتا تو بھارتی مسلمانوں کی شامت آجاتی ہے۔ دِلّی سرکار پورس کے ہاتھیوں کی طرح اُنہیں کچلنے لگتی ہے۔
پاکستان کی مخالفت کا نشہ بھی بھارت میں خاصا مقبول ہے۔ عموماً یہی نشہ کافی سمجھا جاتا ہے مگر جب کسی معاملے میں ترشی اس نشے کو لات مار کر ایک طرف ہٹاتی ہے تب دِلّی سرکار طوفان کا رخ اپنے مسلمانوں کی طرف موڑ دیتی ہے۔ اِس وقت بھی کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کئی معاملات میں پاکستان کی گردن دبوچنا جب ممکن نہ رہا تو تان ٹوٹ رہی ہے مسلمانوں پر! ہریانہ ان بھارتی ریاستوں میں سے ہے جہاں مسلم مخالف رجحانات برائے نام پائے جاتے ہیں۔ اب ہریانہ کے کئی علاقوں سے بھی مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ نئی دہلی سے صرف 35 کلومیٹر دور، ہریانہ کے ایک گاؤں میں مسجد شہید کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے تین درجن سے زائد مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ سیکڑوں مسلمان پولیس اسٹیشن کے احاطے میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے مگر دِلّی سرکار اب بھی 1947ء کے لمحات میں جی رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے دائرے میں وسعت آتی جارہی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اب بیشتر معاملات میں پیش گوئی کرنا یا بھرپور تیقّن کے ساتھ کچھ کہنا ممکن ہوچکا ہے مگر بھارت میں ریاستی مشینری اور عوام کے ذہنوں سے پاکستان اور مسلم مخالف رویّے کا نشہ کب اترے گا، پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ''امن کی آشا‘‘ کے نام پر دوستی اور مفاہمت کا راگ الاپنے اور عمل کی دنیا میں کچھ کر دکھانے میں بہت فرق ہے۔ اب تک تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت پاکستان کے خلاف جانے کے معاملے میں ایک صفحے پر ہیں۔ یہ صفحہ پلٹے اور پاکستان مخالف طرزِ فکر و عمل کا نشہ اترے تو کچھ بات بنے۔ جب بھی اُس طرف سے دوستی کی بات کی جاتی ہے، ہمارے دل سے یہی نکلتا ہے ع
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!