"MIK" (space) message & send to 7575

’’کیکٹس‘‘

ہم کیا ہیں، کون ہیں یہ سوال اکثر پریشان کرتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ پریشان کن سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم ہیں یعنی جیسے ہیں ویسے کیوں ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں سمجھنے اور سوچنے والے خال خال ہیں۔ جنہیں دیکھے کو سمجھنے اور پھر اس پر سوچنے کی توفیق نصیب ہو وہ اس معاشرے میں از کار رفتہ تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا انجام دیکھ کر لوگ چوکنّے ہو جاتے ہیں، تھوڑے کو بہت اور خط کو تار سمجھ کر احتیاط کا دامن تھام لیتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں ایک ادارے کی ٹیم نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز دیے جانے پر پروفیسر ڈاکٹر سحرؔ انصاری کے اعزاز میں تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹیو ابرار احمد نے برادرم مصدّق خواجہ کے توسط سے نہایت خلوص کے ساتھ ہمیں بھی مدعو کیا۔ ڈاکٹر سحرؔ انصاری نے صدارتی خطاب میں جہاں اور بہت کچھ کہا وہیں پاکستانی قوم کی ایک ایسی خاصیت بھی بیان کی جو کم لوگ بیان کر پاتے ہیں۔ 
کون ہے جو یہ بات نہیں جانتا کہ پاکستانی ایک ایسی قوم واقع ہوئے ہیں جو کسی بھی صورت حال کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہوئے صلاحیتوں کا لوہا منواسکتی ہے۔ اور منواتی رہی ہے۔ ڈاکٹر سحرؔ نے نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے زندہ رہنے والی پاکستانی قوم کو ''کیکٹس‘‘ سے مشابہ قرار دیا۔ کیکٹس صحرائی پودا ہے جسے پانی دیا جاتا ہے نہ کھاد ڈالی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ پودا صحرا کی ریت میں پروان چڑھتا ہے اور دنیا پر یہ بات واضح کرتا ہے کہ ارادہ مضبوط ہو تو کسی بھی صورت حال میں خود کو زندہ ہی نہیں رکھا جاسکتا بلکہ پروان بھی چڑھایا جاسکتا ہے۔ 
ڈاکٹر سحر انصاری نے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ذکر کیا تو بات پوری قوم کی مجموعی صلاحیت تک پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم نے ہر دور میں دنیا کو حیران کیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دور کے سخت نامساعد حالات کا سامنا جس پامردی سے کیا گیا اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی کسی بھی طرح کے حالات میں سَر اٹھانے اور مصائب کو منہ دینے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔ جس طور کیکٹس ریگستان کے سخت گرم ماحول میں کسی بھی طور نگہداشت نہ کیے جانے کے باوجود نہ صرف زندہ رہتا ہے بلکہ اپنی بہار بھی دکھاتا ہے بالکل اِسی طور پاکستانی قوم بھی ریتیلی اور سنگلاخ زمینوں پر سَر اٹھاکر جینے والے پودوں کی طرح ہے۔ جس طرح کے حالات کا سامنا پاکستانیوں کو رہا ہے وہ کسی بھی قوم کے اعصاب مکمل طور پر منتشر کرنے کے لیے انتہائی کافی ہیں۔ 
ہم نے مرزا تنقید بیگ سے جب ڈاکٹر سحرؔ انصاری کی نکتہ آفرینی کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی، خلافِ عادت، ڈاکٹر صاحب سے متفق ہوتے ہوئے پاکستانی قوم کے لیے ''نرم گوشہ‘‘ ظاہر کیا! عمومی گفتگو میں جب پاکستانیوں کا بحیثیت قوم ذکر ہوتا ہے تو مرزا کسی بھی ایندھن کے بغیر بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر شرکائِ محفل کا باقی وقت اُنہیں بُجھانے میں کٹ جاتا ہے! 
مرزا کے نزدیک پاکستانی قوم اب صرف اس لیے رہ گئی ہے کہ کوئی نہ کوئی کمال دکھاکر دنیا کو حیران کرتی رہے۔ ایک تماشا ختم ہو نہیں چُکتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ کئی عشروں سے یہی تماشا جاری ہے۔ کبھی ہم تماشا ہوتے ہیں، کبھی تماشائی۔ کام کی کسی بھی بات پر توجہ دینے کا وقت بظاہر کسی کے پاس نہیں۔ دنیا بھر کی غیر متعلق باتیں اِس قوم میں یوں در آئی ہیں کہ اب ان سے پنڈ چھڑانا کبھی کبھی ''مہا سنگرام‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے! 
پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے انکار کرنے والے خواہ کسی قوم کے ہوں، مرزا کے نزدیک وہ کافر کے درجے میں رکھے جانے کے قابل ہیں! ہم نے ہر دور میں خود کو منوایا ہے۔ ایک نہیں، کئی طاقتوں نے راہ میں دیوار نہیں بلکہ دیواریں کھڑی کی ہیں اور ہم ہیں کہ دیواریں یا تو گراتے گئے ہیں یا ٹاپ گئے ہیں۔ 
مگر کیا ہم محض اس لیے رہ گئے ہیں کہ لوگ دیواریں کھڑی کرتے رہیں اور ہم دیواریں گراتے رہیں؟ ایک قوم کی حیثیت سے اپنی بھرپور صلاحیت کا اظہار کیا اب اس امر کا محتاج رہ گیا ہے کہ دنیا ہمیں دہشت گردی کا نشانہ بنائے اور ہم ہر وار سہنے کے بعد مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں اور دنیا سے کہیں کہ ہمت ہے تو اب مار کے دکھا! 
پھول صحرا میں بھی کھلتے ہیں اور بہارِ جاں فزا بھی دکھا جاتے ہیں مگر جنگل میں مور ناچا‘ کس نے دیکھا اور صحرا میں پھول کھلا تو کس نے سُونگھا؟ بات تو جب ہے کہ ''مردانے‘‘ میں آکر بات کی جائے۔ اور ''مردانے‘‘ میں کی جانے والی بات خالص مردانہ وجاہت کی حامل ہونی چاہیے۔ 
پاکستانی دنیا بھر میں جہاں بھی گئے ہیں، اپنا آپ منوانے میں انتہائی کامیاب رہے ہیں۔ تقریباً ہر شعبے میں بہترین صلاحیتوں کے حامل پاکستانی فن اور محنت دونوں کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یورپ میں پاکستانیوں نے خصوصاً زیادہ اور بھرپور کامیابی پائی ہے۔ اور زیادہ دور کیوں جائیے، ڈراموں کی اداکاری اور موسیقی میں ہم ایک بار پھر بھارت کو پریشان کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں! بالی وڈ کے دروازے پاکستانی فنکاروں پر کھلتے جارہے ہیں۔ بالی وڈ سپر اسٹارز کے مقابل پاکستانیوں کی اداکاری کسی بھی اعتبار سے گِری پڑی نہیں۔ کیکٹس کی طرح سخت نامساعد حالات میں پنپنا غیر معمولی اور قابلِ رشک صلاحیت سہی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ گل کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا میدان
گلشن ہے نہ کہ صحرا۔ زمین، ماحول اور موسم کی سختیاں جھیل کر کیکٹس کی طرح زندہ رہ پانا بڑی بات ہے مگر کیکٹس اپنے وجود کی حدود تک ہی کچھ ہے، اُس سے باہر وہ محض کانٹوں کا مجموعہ ہے۔
پاکستانی جہاں بھی گئے ہیں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر، بھرپور کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر نمایاں ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ جب صلاحیتوں کو اظہار کا راستہ ملتا ہے تو منزل سامنے دکھائی دینے لگتی ہے۔ ہماری نئی نسل بھرپور توجہ اور مواقع چاہتی ہے۔ اور اس کے لیے پالیسیوں میں جوہری تبدیلی ناگزیر ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ جس نوع کی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے ان کا شکار ہونے سے بچنا واقعی فن ہے۔ اور یہ فن پاکستانیوں کو ایسا آتا ہے کہ دنیا دیکھ دیکھ کر انگشت بدنداں رہتی ہے۔ کئی بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کے صحرا نے ہماری جڑوں، ٹہنیوں اور پتوں سے نمی کی رمق تک نچوڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر ہم بھی بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والوں کی اولاد ہیں۔ بین الاقوامی اور بین الریاستی تعلقات کے صحرا میں ہم کیکٹس کی طرح ثابت قدم اور پُرعزم رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ صحرائی ماحول کا سبب بننے والے اعمال ترک کرکے ہم میدانوں میں کِھلنے والے پھول بھی بنیں اور اپنی خوشبو سے آس پاس ہی نہیں، دور دراز کے ماحول کو بھی مہکائیں۔ محترم ڈاکٹر سحر انصاری نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست لیکن اگر کیکٹس والی سخت جانی نسبتاً آسان زمین اور کم مشقّت طلب ماحول میں بروئے کار لائی جائے تو؟ یقیناً ہم یوں بدل جائیں گے کہ دنیا بھر مزید ورطۂ حیرت میں پڑ جائے گی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں