روزنامہ ''دنیا ‘‘کی ٹرین ملتان اسٹیشن پر پہنچ گئی۔
''دنیا گروپ‘‘ نے ایک اور منزل مارلی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ''دنیا‘‘ کے ڈیروں اور بسیروں کی دنیا وسعت اختیار کر رہی ہے، کامیابی ہے کہ قدم چومتی جارہی ہے۔ سُرخ رُو ہونے کا عمل جاری ہے۔ شالا نظر نہ لگے! اللہ نے چاہا تو ع
سُرخ رُو آئیں گے ہر معرکۂ عشق سے ہم
دنیا نیوز پر روزنامہ دنیا کے ملتان ایڈیشن کی آمد کے حوالے سے پہلے اشتہار اور پھر تعارفی تقریب دیکھ کر مرزا تنقید بیگ ایسے جذباتی یعنی بے چَین ہوئے کہ ہمیں بُلا بھیجا۔ اُن کا ہمیں بُلا بھیجنا عموماً خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا کرتا ہے۔ ہم تشویش میں مبتلا ہوئے مگر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہونٹوں پر نمائشی مسکراہٹ سجالی تاکہ مرزا کو ہمارے دل کی حالت کا اندازہ لگانے میں کچھ وقت لگے۔
مرزا نے، جو ہمیں بالعموم آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، اب کے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہم مزید مبتلائے تشویش ہوئے۔ جہاں ہمیشہ کِھنچائی کی جاتی ہو وہاں اگر آؤ بھگت ہو تو ذہن کے کھیت میں خدشات اور وسوسوں کی فصل کیوں نہ اُگے؟
مرزا نے روزنامہ دنیا کے ملتان ایڈیشن کی آمد پر مبارک پیش کی جو ہم نے جھٹ قبول کی کیونکہ وہ کسی کو کسی بات پر ہدیۂ تبریک کم کم پیش کیا کرتے ہیں۔ پھر اہل خانہ کو بہ آوازِ بلند حکم دیا کہ ہمارے لیے چائے اور اس کے ساتھ بسکٹ وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔ یہ سن کر ہم تو حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئے۔ مرزا کبھی اِتنی تیزی نہیں دکھاتے کہ ہم پہنچیں اور وہ چائے منگوالیں۔ ہم ان کی صحبت میں ایک آدھ گھنٹہ گزار لیتے ہیں اور وہ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اب ''حقِ محنت‘‘ یعنی اُن کی الٹی سیدھی ''گزارشات‘‘ جھیلنے کا معاوضہ لیے بغیر نہیں ٹلیں گے تب وہ چائے کا آرڈر جاری کرتے ہیں!
چند منٹ گزرے تھے کہ چائے تشریف لے آئی اور اپنے جِلو میں بسکٹ اور باقر خانیاں بھی لائی! یہ اہتمام دیکھ کر ہم مزید پریشان ہوئے۔ سمجھ نہ آیا کہ اس ''خلوص‘‘ کو کیا سمجھیں، کیا نام دیں کیونکہ مرزا کا اندازِ پذیرائی خوش کُن کم اور حیران و پریشان کُن زیادہ تھا! ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی اور دنیا سے آئے ہیں اور مرزا ہماری راہوں میں محض پلکیں نہیں بچھا رہے بلکہ خود بھی بچھے جارہے ہیں!
چائے کا دور شروع ہوا تو مرزا نے دنیاگروپ کے بارے میں خیالات کے اظہار کی بھی ابتداء کی۔ وہ دنیا گروپ کی خوبیاں گنواتے گئے اور ہم محسوس کرتے رہے کہ ہمیں زیادہ گنتی نہیں آتی! دنیا کی خوبیاں گنوانے کے معاملے میں مرزا استغراق اور ہم استعجاب کے عالم میں تھے! کہاں تو وہ ہمارے لکھے پر گرفت کرتے نہیں تھکتے اور کہاں دنیا گروپ کی ایسی اور اتنی ستائش! ہم سوچنے لگے ؎
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ مرزا نے ''آمدم برسرِ مطلب‘‘ کا سگنل دے دیا یعنی دل کی بات زبان پر لے آئے۔ زیرے کا بڑا بسکٹ منہ میں ٹھونسنے کے بعد چائے کی چُسکی لیتے ہوئے مرزا نے کہا: ''ملتان سے روزنامہ دنیا کی اشاعت کا ایک مطلب یہ بھی تو ہے کہ تمہارے قارئین کی تعداد بڑھ جائے گی۔ اب تم سرائیکی وسیب میں بھی پڑھے جانے لگوگے۔‘‘
ہم نے نیاز مندانہ انداز سے شکریہ ادا کیا تو مرزا نے یلغار آمیز انداز سے کہا: ''تمہارے لیے تو اچھی بات ہے کہ قارئین بڑھ جائیں گے، ہم یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اب سرائیکی وسیب کے لوگ بھی تمہارے نشانے پر ہوں گے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ ہمارے قارئین کا حلقہ وسیع ہونے جارہا ہے تو آپ کو غصہ کیوں آرہا ہے۔ مرزا نے ہماری بات (حیرت انگیز طور پر) سُکون سے سُنی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا: ''پڑھنے والے تو بڑھیں گے مگر اب تمہیں معلوم ہوگا کہ لکھتے کیسے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پڑھنے کے شوقین بھی بہت ہیں اور گرفت بھی خوب کرتے ہیں۔‘‘
ہم نے مرزا کی پریشانی سے محظوظ ہوتے ہوئے جواب دیا کہ اب تک بھی ہم جیسے تیسے لکھتے ہی آئے ہیں اور لوگوں نے پسند بھی کیا ہے۔ ملتان اور قرب و جوار کے لوگ بھی پذیرائی ہی کریں گے۔
مرزا فوراً اپنی کھال میں واپس آگئے یعنی بھڑک کر بولے: ''بس یہی خوش فہمی تو ہے جو تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ تم سمجھتے ہو کہ تم لکھ کر کوئی تیر مارتے ہو۔ کبھی اپنے لکھے پر غور بھی کیا ہے؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ اسلام آباد، لاہور، کراچی، گجرانوالہ اور فیصل آباد سبھی مقامات پر ہمیں پڑھا جاتا ہے۔ زہے نصیب، اب ملتان میں بھی لوگ پڑھیں گے اور انشاء اللہ سراہیں گے۔ آپ کس اندیشے میں دبلے ہوئے جارہے ہیں؟
مرزا نے تُنک کر جواب دیا: ''دیکھو بھائی! اسلام آباد کے لوگ تو اونچی اڑان میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ تمارے یا کسی اور کے کالم پڑھتے پھریں؟ اب آؤ لاہور کی طرف۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ لاہور کے لوگ 'زندہ دلانِ لاہور‘ ہیں! بس، تم نے اِسی چیز کا فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ اُن کی زندہ دلی ہی تو ہے کہ اب تک تمہیں پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اہلِ لاہور کھانے پینے کے شوقین ہیں۔ خدا جانے کیا کیا کھاتے اور ہضم کرلیتے ہیں۔ 'لکڑ ہضم پتھر ہضم‘ کے مصداق لاہور کے 'شکم پرست‘ تمہارا کالم بھی جھیل ہی جاتے ہیں۔ کھانے کے ساتھ یا کھانے کے بعد لَسّی پینا بھی داتا دی نگری میں رواج کا سا درجہ رکھتا ہے۔ خبروں کے نوالے پیٹ میں اُتارنے کے بعد وہ کالم بھی بخوشی ڈکار جاتے ہیں کیونکہ اُس میں تم (اپنے) دماغ کی لَسّی ہی تو پیش کرتے ہو! اور رہا کراچی تو بھائی! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کراچی کے لوگ پڑھنے میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ اہلِ کراچی بُرے حالات کو جھیلتے جھیلتے اب تم جیسے کالم نگاروں کا لکھا جھیلنے کے بھی عادی، بلکہ ماہر ہوچکے ہیں!‘‘
مرزا نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ ہمیں اہلِ ملتان کے حوالے سے سراسیمہ کرکے چھوڑیں گے۔ ایسی یلغار ہو تو کوئی کیا بولے؟ ہمیں سوچوں میں گم دیکھ کر مرزا نے زبانی یلغار کے گھوڑے کو
مزید ایڑ لگائی: ''ملتان سورج کا گھر کہلاتا ہے۔ لوگ ٹھنڈک چاہتے ہیں۔ ملتان اولیاء کی سرزمین ہے تو زبان میں بھی ٹھنڈک اور ٹھہراؤ ہے۔ زبردستی کی گرما گرمی نہیں چلے گی۔ تمہیں اپنا کالم بھی 'ٹھنڈا ٹھار‘ یعنی منٹھار بنانا پڑے گا! اہلِ ملتان حلوہ پسند کرتے ہیں اور خاص طور پر سوہن حلوے کے انتہائی شوقین ہیں۔ تم کھٹّا میٹھا لکھنے کے نام پر میٹھا کم اور کھٹّا زیادہ لکھتے ہو۔ تمہاری کھٹّی تحریریں حیدر آباد دکن میں پسند کی جاتی ہوں تو اور بات ہے، ہم تو اپنے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرسکتے۔ ملتان کے لوگ تب پڑھیں گے جب تم اپنے کالم میں سوہن حلوے کا سا لطف پیدا کروگے۔ مزا نہ آیا تو سرائیکی وسیب کے لوگ کہیں گے 'سانول موڑ مہار‘‘ یعنی پڑھنا ترک کردیں گے۔ یہ سمجھ لو کہ 'طریقِ واردات‘ نہ بدلا تو پکڑے جاؤگے!‘‘
مرزا خواہ مخواہ ہمارے اور اہلِ ملتان کے بیچ دیوار بن رہے ہیں۔ ہم نے ملتان کی زمین پر کبھی قدم نہیں رکھا مگر ''مُلتانی مِٹّی‘‘ کا مزا خوب جانتے ہیں۔ ملتان کا نمک ہم نے بھلے ہی نہ کھایا ہو، اُس کی مِٹّی اور سوہن حلوے سے اپنے ناچیز معدے کو ضرور آسودہ کیا ہے۔ قلم کے ذریعے ملتان کا ''حقِ مِٹّی‘‘ ادا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔
ملتان میں نسلی اور لسانی تنوّع ہے یعنی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ملتان کی سرزمین ''خانوادۂ دنیا‘‘ کو بھی اپنے آغوش میں سمیٹ لے گی۔ اور ایسے میں ہم بھی کہیں نہ کہیں کھپ ہی جائیں گے۔ مرزا جیسے لوگ صرف وسوسوں کی فصل اُگانے اِس دنیا میں آتے ہیں۔ ہم تو اہلِ ملتان کے حوالے سے صرف خوش گمان ہیں! دعا ہے کہ ملتان کی دنیا میں ''ہمارا دنیا‘‘ بھی خوب پروان چڑھے اور ہمارا شمار بھی اِس خِرمن کے خوشہ چینوں میں ہوتا رہے!