چمکتے دمکتے بھارت سے چمچماتی خبر آئی ہے کہ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک بندر نے کتّے کے پِلّے کو گود لے لیا ہے۔ یہ پِلّا سڑک پر لاوارث گھوم رہا تھا۔ خوراک کی قلت سے انتہائی کمزور ہو چلا تھا اور چلتے چلتے نقاہت سے گِر گِر پڑتا تھا۔ ایک بندر نے دیکھا تو اُس کا دل بھر آیا۔ بندر بھی آخر جاندار ہوتا ہے اور اس کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ بندر کے دل میں موجزن ''حیوان دوستی‘‘ نے گوارا نہ کیا کہ پِلّے کو یُوں بے سہارا رہنے دیا جائے۔ اُس نے پِلّے کو گود لے لیا۔ اب دونوں ساتھ رہتے ہیں۔ بندر اُس کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے اور اُسے صاف سُتھرا بھی رکھتا ہے۔
بندر نے اپنی ذمہ داری جس خوبی اور ایمان داری سے نبھائی ہے اُسے دیکھ کر لوگ حیران ہیں۔ فیس بک پر بندر اور پِلّے کی تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں جنہیں اب تک لاکھوں افراد پسند کر چکے ہیں۔ فی زمانہ کسی بندر میں اتنی غیر معمولی ''انسانیت‘‘ دیکھ کر ایک زمانہ حیران ہے۔
بھارت میں بندروں کو ہنومان دیوتا کی اولاد مان کر پوجا جاتا ہے۔ بندر کو ہلاک کرنے پر سخت سزا مقرر ہے۔ اگر کوئی بندر کسی سے کھلواڑ کرے، اس کی کوئی چیز اٹھا کر بھاگ جائے تب بھی اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔ دہلی سمیت کئی بڑے اور چھوٹے شہروں میں بندروں کے ہاتھوں لوگ بہت پریشان ہیں مگر مجبوری یہ ہے کہ بھگانے کے لیے انہیں ڈنڈے یا پتھر سے مار بھی نہیں سکتے۔ بندروں کو چھیناجھپٹی سے روکنے کے لیے کہیں تشدد کا سہارا لیا جائے تو فرقہ وارانہ فساد کا خطرہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ انتہا پسند ہندو بندروں کے خلاف کسی بھی تادیبی عمل کے سخت خلاف ہیں۔ اور اگر یہ تادیبی عمل مسلمانوں کی طرف سے انجام پایا ہو تو سمجھ لیجیے فساد کو برپا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بندروں کے ہاتھوں بھارتی معاشرہ ہمیشہ پریشان رہا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اصلی بندروں والی بہت سی خصلتیں کئی لوگوں میں در آئی ہیں۔ بندروں کی پوجا کرتے کرتے اور بندروں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر کی جانے والی سیاست کے ہاتھوں اب بہت سے قائدین بھی بندروں کی طرح اُچھلنے کودنے ہی کو سیاست سمجھنے لگے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بہت سوں نے اس معاملے میں بندروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بیشتر بھارتی سیاست دان محض دو تین دن میں اپنی کہی ہوئی بات کو بھی بھول جانے یا اُسے own کرنے سے صاف انکار کرکے جس انداز کی قلابازیاں کھاتے ہیں اُسے دیکھ کر شاید ہنومان کی سنتان بھی اپنے فن کو تھوڑا بہت اپ گریڈ ضرور کرتی ہو گی!
بھارت میں ایک بندر کے سینے میں دل دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چلیے انسانوں نے نہ سہی، ایک بندر نے تو انسان ہمدردی اور احساس کی مثال قائم کی! اچھی بات ہے کہ فی زمانہ کسی حیوان کے سینے میں ہی سہی، دل تو پایا جانا چاہیے! مگر ساتھ ہی تھوڑا سا دکھ بھی ہوا۔ جتنی ''انسانیت‘‘ ایک بندر نے ایک پِِلّے کے لیے دکھائی ہے اگر اُتنی ہی انسانیت بھارت کے انتہا پسند اپنی سرزمین پر بسی ہوئی اقلیتوں کے لیے بھی دکھائیں تو بھارت کی دھرتی کسی حد تک تو سورگ کا نقشہ پیش کرے!
مشکل یہ ہے کہ سیاست کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے انتہا پسندانہ اچھل کود مچانے والے اپنی سرزمین پر بسی ہوئی اقلیتوں کو کتے بِلّی کے درجے میں تو رکھتے ہیں مگر اُن سے اتنی ہمدردی بھی نہیں رکھتے جتنی ایک بندر کے دل میں کسی پِلّے کے لیے پائی جا سکتی ہے۔ یہی ایک معاملہ جس میں وہ حقیقی بندروں سے پیچھے رہ گئے ہیں!
بچوں کو اپنانے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا تو وہی ہے جو تامل ناڈو کے بندر نے اختیار کیا ہے یعنی اُنہیں گلے لگا کر، اپنے ہاں رکھ کر اُن کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری قبول کرنا اور دوسرا طریقہ ہے اُنہیں اغوا کرکے پالنا یا بیچ دینا۔ علاقائی سطح پر بھارت سے بہت سی توقعات وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ اور بھارتی قیادت نے گویا قسم کھا رکھی ہے کہ ڈھنگ کی کسی بھی توقع پر پورا نہیں اترنا ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ خطے کا ہر چھوٹا ملک یہ توقع رکھتا ہے کہ بھارت اُس کی سلامتی اور ترقی یقینی بنانے میں معاونت کرے گا مگر نئی دہلی کے بزرجمہر اپنے بندرانہ مزاج کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں یعنی سفارت کاری یا پالیسی کے معاملات میں قلابازیاں کھانا جاری رکھ کر چھوٹوں کی ہر توقع پر پانی پھیرتے رہتے ہیں!
چھوٹے علاقائی ممالک کے معاملے میں بھارت نے بردہ فروشوں والا انداز اختیار کرنے میں کبھی تساہل سے کام لیا ہے‘ نہ شرمندگی محسوس کی ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال بہت واضح ہے۔ بھارتی قیادت نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے سرپرستی کے نام پر اُسے جھپٹ لیا۔ دنیا کو دکھانے کے لیے انداز گود لینے کا تھا اور درحقیقت معاملہ یہ تھا کہ ایک بردہ فروش بغل میں بچہ داب کر اپنی راہ چل دیا!
یہی کچھ بھارت نے دیگر چھوٹے علاقائی ممالک کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔ سری لنکا میں بھارتی مداخلت کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ خرابیوں کے پنپتے رہنے سے معاملات اِتنے بگڑے کہ سری لنکا کو پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کی طرف دیکھنا پڑا۔
نیپال کے معاملے میں بھی بھارتی قیادت نے اب تک ہمدردی کی کوئی رمق نہیں دکھائی۔ بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے بھارتی قیادت نے نیپال کو بھی بغل بچہ بنانے ہی کی روش پر گامزن رہنا پسند کیا ہے۔ نیپال کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف ہمالیائی سلسلے کے پہاڑ ہیں اور دوسری طرف بھارت جیسی کھائی! گویا ع
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے!
مالدیپ جیسے چھوٹے، بلکہ باریک سے ملک کو بھی بھارت نے نہیں بخشا اور اس کے بیشتر معاملات پر حاوی ہونے کی کوشش کبھی ترک نہیں کی۔ بھوٹان بھی بھارت سے کچھ زیادہ خوش کبھی نہیں رہا۔ اس چھوٹی سی ہمالیائی ریاست کو بھی بھارت نے اپنا طفیلی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی طور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ مگر نئی دہلی کی بندرانہ خصلت نے پاکستان کو ورطۂ حیرت میں رکھنے کا بھرپور اہتمام کر رکھا ہے۔ جب بھی معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، بھارت میں یا بھارت کی طرف سے ایسا کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے جو سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات ہونے ہی والے تھے کہ بھارت میں پٹھان کوٹ کے مقام پر ایئربیس پر حملے کا ناٹک رچایا گیا تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا بھی ممکن ہو اور سیکرٹری خارجہ مذاکرات کو آگے بھی بڑھایا جا سکے۔ گویا ایک بندرانہ چھلانگ نے ایک تیر میں دو نشانے والا کام کیا ہے!
ایک بندر نے ثابت کیا ہے کہ اُس کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے اور وہ کسی کے درد کو اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے۔ بھارت میں جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ اگر دنیا بھر کے اچھے انسانوں سے کچھ نہیں سیکھ سکتے تو کم از کم اِس بندر ہی سے کچھ سیکھیں، اپنی سرزمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دیں اور ان کے لیے ویسا ہی سرپرستانہ کردار ادا کریں جیسا مذکورہ بندر نے پِلّے کے لیے ادا کیا ہے۔ بے ہنگم چھلانگیں لگا کر معاملات کو الجھانے کے بجائے بھارتی قیادت کو خطے کا مجموعی مفاد گود لینا چاہیے تاکہ بگڑے ہوئے معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوں اور وہ سب لوگ سکون کا سانس لیں جو اُس کی بندرانہ اچھل کود کے ہاتھوں پریشانی سے دوچار رہے ہیں۔