احترام اُن کے لیے جو اپنے زورِ بازو کی بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہی لوگ ستائش کے حقیقی حقدار ہیں جو دوسروں پر انحصار کرنے اور اُن پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے وجود کو ستون بناکر اُس کا سہارا لیتے ہیں۔
علامہ اقبالؔ نے فرمایا تھا ع
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
پاکستان میں کم ہی لوگ ہیں جو علامہ کے کلام کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے وجود اور فن سے کچھ سیکھنے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی اُن سے کچھ سیکھنے اور سیکھے ہوئے پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو اُسے ستائش سے نوازا جائے نہ کہ طنز و تشنیع کے پتھر برسائے جائیں۔
سندھ کے ضلع تھر پارکر کی تحصیل ڈاہلی کے کھنیسر پولیس اسٹیشن نے ایک نئی، انوکھی اور خاصی ''تابندہ‘‘ روایت کو جنم دیا ہے۔ اس تھانے کے ایس ایچ او عطاء محمد لغاری اور منشی لونگ خان راہموں نے تھانے کی عمارت کو حقیقت کا روپ دینے یعنی تعمیر کے لیے 13 دیہات سے چندہ وصول کیا ہے!
بجیر برادری سے تعلق رکھنے والے 23 افراد نے اعلیٰ حکام سے شکایت کی ہے کہ اب تک ہزاروں روپے بٹورے جاچکے ہیں۔ بہت سے دیہات سے بکریاں لے کر فروخت کردی گئیں اور حاصل ہونے والی رقم تھانے کی تعمیر کے لیے مختص رقم میں ملادی گئی۔
اِس معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے ضلع تھرپارکر کے پولیس اہلکاروں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر زیادہ حیرت ہو یا افسوس کا اظہار کیا جائے۔ آج کی اصطلاح میں اِسے ''سیلف فائنانسنگ‘‘ کہتے ہیں! جب کسی صورت بات بن نہ پارہی ہو یعنی کام ہو نہ پارہا ہو تو ''مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کہ مصداق میدان میں آکر اپنے لیے وسائل کا اہتمام خود کرنا چاہیے۔ غور کیجیے تو یہ صریح ''عمل پسندی‘‘ نہیں تو اور کیا ہے!
کھنیسر تھانے کے ایس ایچ او اور منشی نے مل کر جو کچھ کیا ہے اور ماتحت اہلکاروں کو جس طرح کام پر لگایا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری پولیس اُتنی بے دماغ ہرگز نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے! ایک راہ دکھائی گئی ہے، ایک امکان طشت از بام کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کے پیسوں سے تھانہ تعمیر کرنے کا یہ انوکھا آئیڈیا دے کر ایسا چراغ روشن کیا گیا ہے جو وسائل کی تنگی سے دوچار سرکاری اداروں اور محکموں کے لیے راہ نُما کا کردار ادا کرسکتا ہے! ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے دل تو جلاکے سرِ راہ رکھ دیا!
ایک زمانے سے شور برپا ہے کہ سرکاری محکموں اور وزارتوں میں فنڈز کی کمی ہے۔ بہت سے اسکول اس لیے تعمیر نہیں ہو پاتے کہ وسائل نہیں۔ صحتِ عامہ کی بنیادی سہولتوں کے مراکز اور اسپتال تعمیر کرنے میں تاخیر ہوجاتا کرتی ہے کہ فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ اگر حکومت کی طرف سے فنڈز جاری نہیں کیے جاتے تو کیا لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا یا بیمار پڑنا چھوڑ دیں؟ جسم ہے تو بیمار بھی پڑے گا اور بچے ہیں تو انہیں اسکول بھی بھیجنا پڑے گا۔ ضلع تھر پارکر میں عوام سے براہِ راست پیسے وصول کرکے تھانہ تعمیر کرنے کا معاملہ امکانات کی ایک نئی دنیا کی طرف اشارا کر رہا ہے۔ وسائل کی کمی کا رونا رونے والے سرکاری محکموں کے ملازمین اس مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بار بار سرکار سے مانگنا اور شرمندہ ہونا کہاں کی دانش مندی ہے؟ جو کچھ تحصیل ڈاہلی میں ہوا وہ کھل کر دعوتِ عمل دے رہا ہے۔ ؎
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
نہیں دُور بہت شاخِ آشیاں سے ہم!
ایک زمانے سے ہم سنتے آئے ہیں کہ پولیس کچھ کرتی ہی نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ کھنیسر تھانے کے اہلکاروں کو تعمیراتی‘‘ چندہ وصول کرنے کے عمل میں مصروف رکھ کر ایک ''تعمیری‘‘ رجحان سے ہمکنار ہونے پر مائل کیا گیا ہے!
آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ علامہ اقبالؔ نے ہند کے مسلمانوں کو عمل کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا ؎
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مِری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد
ہم نہیں جانتے کہ بستیوں کے تذکرے سے علامہ کیا کہنا چاہتے تھے۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے، مسلمانوں کو اپنی ہی بستیوں کا آٹا گیلا کرتے دیکھا ہے اور دوسری طرف علامہ کے ''اہلِ نظر‘‘ ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کے یہودی فلسطینی علاقوں میں تازہ بستیاں آباد کرنے میں مصروف ہیں! اور ہم سُوئے کوفہ و بغداد کیا دیکھیں کہ اُنہیں تاراج ہوئے زمانے گزر گئے!
علامہ کے اشعار کی عملی تشریح ہر دور کے مسلمانوں نے اپنی فکری و عملی بساط کے مطابق کی ہے۔ اب تازہ بستیاں آباد بھی کی جارہی ہیں تو پُرانی بستیوں کو ویران کرنے کی قیمت پر! شہر میں کچھ نیا بنانا مقصود ہو تو بہت سی یادگاریں داؤ پر لگ جاتی ہیں جیسا کہ لاہور میں اورنج لائن ٹرین منصوبے سے عیاں ہے! ایسے میں تھر پار میں پولیس کے ہاتھوں تھانے کی تعمیر کو نئی بستی کی تعمیر کے کھاتے میں ڈال دینا ہی قرینِ مصلحت ہے۔ کم از کم اِس بات کا کریڈٹ تو دیا ہی جانا چاہیے کہ ''چندہ‘‘ تھانے کی عمارت کے لیے وصول کیا جارہا ہے نہ کہ اپنے گھروں کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے! (یہ اور بات ہے کہ پولیس اہلکاروں کے لیے تو تھانہ ہی گھر ہوتا ہے!)
ویسے عوام کی کمائی سے براہِ راست وصولی کرکے تعمیر کیا جانے والا تھانہ سرکاری پالیسی کا محتاج بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تھانے کی حدود میں رہنے والے عدلیہ سے رجوع بھی کرسکتے ہیں کہ جب تھانہ اُن کے پیسوں سے تعمیر کیا گیا ہے تو سرکار اُن پر اپنی پالیسی کیوں نافذ کرے؟
اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ لوگ تھانے کی عمارت دیکھتے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے پولیس اس خوف کو دِلوں سے نکالنا چاہتی ہو۔ اگر کسی عمارت میں عوام کا پیسہ لگا ہوگا تو اُنہیں اُس میں کچھ نہ کچھ اپنائیت ضرور محسوس ہوگی اور پولیس کے حوالے سے بے جا خوف عوام کے دِلوں سے نکل جائے گا! ایک تیر میں دو نشانے شاید ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے کہا جاتا ہے! یعنی تھانے کی تعمیر کے لیے عوام سے وسائل بھی حاصل کرلیے جائیں اور اُن کے دلوں سے پولیس کا بے جا خوف بھی ٹھکانے لگادیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس طریقے پر عمل سے دوسرے بہت سے سرکاری اداروں کا خوف بھی عوام کے دِلوں سے بڑی آسانی کے ساتھ نکالا جاسکتا ہے!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس طور تھانہ عوام کے پیسوں سے تعمیر کیا جاسکتا ہے بالکل اُسی طور وی آئی پی ڈیوٹی کے لیے بھی تو پیسے اینٹھے جاسکتے ہیں! اگر کوئی چاہتا ہے کہ اُس کی گاڑی کے آگے پولیس کی گاڑی چلے تو جیب ڈھیلی کرے۔ مُفت کی عیّاشی کب تک؟ ایسی صورت میں پولیس اپنے اخراجات پورے کرنے میں بخوبی کامیاب ہوسکے گی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سرکاری خزانے میں بھی کچھ نہ کچھ جمع کرائے! کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں اپنے زورِ بازو کی بنیاد پر جینے کا اِس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہی معاملہ سرکاری اسپتالوں کا بھی تو ہے۔ ملک بھر میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص ایسے سرکاری اسپتالوں کی کمی نہیں جہاں جاتے وقت لوگ سرنج، انجیکشن، ادویہ، پٹی وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور داخل ہونے کی صورت میں ادویہ کا اہتمام بھی خود کرتے ہیں۔ گویا سرکار کی مہربانی عمارت کی فراہمی تک محدود ہے، باقی سب کچھ عوام کا اپنا ہے۔ سیلف فائنانسنگ کی اِس سے بڑی مثال کیا ہوگی؟
ویسے سیلف فائنانسنگ کا تصور نیا نہیں۔ ہمارے ہاں ابتداء ہی سے لوگ اپنے بل بوتے پر بنیادی سہولتیں حاصل کرتے آئے ہیں۔ آپ نے سُنا ہوگا کہ بہت سے شہری اور دیہی علاقوں میں سرکاری اسکول چار دیواری یا فرنیچر وغیرہ سے محروم ہیں۔ ایسے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بچھانے کے لیے چادر یا دری وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ 1972 میں ہم جس سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے اُس میں فرنیچر تو کجا، فرش ہی نہیں تھا۔ یعنی چادر یا دری بچھانے سے پہلے کچی زمین کو اچھی طرح صاف کرنا پڑتا تھا! چار دیواری اور فرنیچر سے محروم سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے اللہ کا شکر ادا کریں کہ فرش تو میسر ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں تو براہِ راست وصول نہیں کی جارہیں!