شاعرِ خُمریات ریاضؔ خیر آبادی خیر سے باریش اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ زندگی بھر اُمّ الخبائث سے دور رہے، برائے نام بھی نہ پی یعنی ایک قطرہ بھی حلق نہ اُتارا۔ گویا ؎
لطفِ مے تجھ سے کیا کہیں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں!
والا معاملہ تھا۔ مگر اُن کی شاعری دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ وہ زندگی بھر شراب بنانے اور بیچنے والوں کی ''ایجنٹی‘‘ کرتے رہے! شراب کے اثرات کی انتہا بیان کرتے ہوئے ریاضؔ خیر آبادی نے کہا تھا ؎
کم بخت نے شراب کا ذکر اِس قدر کیا
واعظ کے مُنہ سے آنے لگی بُو شراب کی!
شمال مغربی اسپین کے قصبے وِگو سے خبر آئی ہے کہ ایک صاحب کم و بیش 107 سال کے ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ سوچیں گے 107 سال تک جینا کون سی حیرت یا فخر کی بات ہے۔ ٹھیک ہے، مگر محض شراب کے سہارے اتنی طویل عمر پانا یقینا حیرت کا باعث ہے!
انتونیو ڈوکیمپو گارشیا کے بارے میں جس نے بھی پڑھا ہے، حیرت زدہ رہ گیا ہے۔ اُن کی زندگی سُرخ شراب کے ساتھ اور اُس کے سہارے گزری۔ وہ سُرخ شراب کے اِس قدر رسیا تھے کہ پانی کو بُھول ہی گئے۔ یومیہ چار لٹر سُرخ شراب پینا اُن کا معمول تھا جس پر وہ مرتے دم تک کاربند رہے۔ سُرخ شراب پینا اُن کے لیے خُمار آلود ہونے کی خواہش کا اظہار نہیں تھا، بلکہ غیر ارادی اور فطری عمل تھا۔ گویا ع
پی رہا ہوں اگرچہ پیاس نہیں
انتونیو گارشیا شراب کشید کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ سال بھر میں وہ 60 ہزار لٹر شراب تیار کرتے تھے۔ تین ساڑھے تین ہزار لٹر اپنے
لیے رکھتے تھے اور باقی بیچ دیا کرتے تھے۔ لوگ اُن سے شراب خوشی خوشی خریدا کرتے تھے کیونکہ وہ شراب کے ''غیر مُضر‘‘ اثرات کا چلتا پھرتا اشتہار تھے! اگر کبھی کوئی کسی کو ٹوکتا کہ شراب پینے سے جگر چھلنی ہو جاتا ہے، حواس مختل ہو جاتے ہیں اور قویٰ مضمحل ہونے لگتے ہیں تو وہ انتونیو گارشیا کا حوالہ دے کر کہتا کہ اگر شراب واقعی تیزی سے موت کی طرف لے جاتی ہے تو انتونیو گارشیا کے معاملے میں شراب نے اپنے ہی اصول پر عمل ترک کیوں کردیا ہے! کیا اُن کا جگر سٹیل کا بنا ہوا ہے کہ گلنے سڑنے کا نام ہی نہیں لیتا؟ اور یہ کہ اُن کے قویٰ مضمحل اور حواس مختل کیوں نہیں ہوتے؟ شراب نوشی کے شدید نقصانات کی دہائی دینے والے انتونیو گارشیا کو دیکھ کر چُپ ہو جاتے تھے! بڑے میاں نے زندگی بھر دُخترِ رز کو منہ لگایا اور اِس بات پر نازاں رہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے کافر لگی ہوئی! جو لوگ پانی کو زندگی کی بنیاد کہتے نہیں تھکتے تھے اور دن بھر صاف پانی پیتے رہنے کی خوبیاں گِنواتے رہتے تھے وہ انتونیو گارشیا کو پانی کے بغیر اچھی خاصی زندگی بسر کرتا ہوا دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر چُپ کی مُہر لگالیا کرتے تھے! محترم نے اپنی طرزِ عمل سے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی کہ کوئی ''پرو واٹر‘‘ گروپ احتجاجی تلوار سونت کر ''اینٹی وائن‘‘ تحریک چلائے!
بادہ و جام کو فروغ دینے کے معاملے میں اردو شاعری کبھی نیم جاں
نہیں رہی۔ خُم و ساغر کے فوائد گِنوانے والے شُعراء اِتنے ہوئے ہیں کہ اُنہیں آسانی سے شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اِن میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خُوب پی کر صحت مند رہتے ہوئے خاصی لمبی عمر پاتا اور ثابت کرتا کہ دُختر رز کو مُنہ لگائیے تو موت آسانی سے مُنہ نہیں لگاتی!
بلا نوشی کا کمال یہ ہے کہ ہمارے شعراء غارت گرِ ہوش کا بھی خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتے ہیں! ؎
آیا مِری محفل میں غارت گرِ ہوش آیا
پیمانہ بکف آیا، مے خانہ بدوش آیا!
غالبؔ نے گہرے فلسفیانہ نکات کے بیان میں بھی شراب کے ذکر کو لازم سمجھا۔ کہتے ہیں ؎
ہرچند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
فیض احمد فیضؔ نے بھی (فریقِ ثانی کی مرضی معلوم کیے بغیر) اپنے آپ کو انگور کی فرزندی میں دے رکھا تھا! فیضؔ صاحب اور بادہ و جام اِس قدر شیر و شکر، بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہوچکے تھے کہ محبوب کے رُوٹھنے کے اثرات محض فیضؔ صاحب پر نہیں بلکہ مینا و جام پر بھی مرتب ہوتے تھے! ؎
ویراں ہے مے کدہ، خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دِن بہار کے!
اکبرؔ الٰہ آبادی اگرچہ قوم کی اصلاح پر از خود نوٹس کے تحت مامور تھے مگر وہ بھی کبھی کبھی بادہ و جام کے حق میں کچھ نہ کچھ بول دیا کرتے تھے۔ اُنہی کا شعر ہے ؎
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے!
یعنی چوری اور ڈاکے سے موازنہ کرتے ہوئے اُنہوں نے ساغر و مینا سے محبت کو جائز اور قابل قبول قرار دیا۔ یہ صراحت انہوں نے البتہ نہیں کی کہ تھوڑی سی پینے پر ہنگامہ برپا ہونے سے اُن کی کیا مُراد ہے؟ وہ ہنگامہ جو اُن کے پینے پر لوگ برپا کیا کرتے تھے یا وہ ہنگامہ جو پینے کے بعد آپے سے باہر ہوکر وہ خود برپا کر بیٹھتے تھے! بادہ و ساغر کی مدد سے کائنات کی ارفع و اعلیٰ گتھیاں سلجھانا غالبؔ جیسی عظیم ہستیوں کا مشرب تھا۔ یاروں نے پینے پلانے کو زندگی کے تمام مسائل سے گلوخلاصی کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ کسی نے از خود نوٹس کے تحت فتویٰ جاری کر رکھا ہے ؎
پینا حرام ہے نہ پلانا حرام ہے
پینے کے بعد ہوش میں آنا حرام ہے!
ہمارے فلم میکرز نے بھی عوام کے ذہن کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر شراب کی شان میں گائے جانے والے قصیدے اپنی فلموں میں شامل کیے ہیں۔ ایسے گیتوں کو سُن کر عوام کچھ دیر کے لیے ''بیوڑے پن‘‘ کی کیفیت طاری کرکے جہاں بھر کے غموں سے نجات پالیتے ہیں! ایک فلمی گانے میں مہدی حسن نے پینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شغل رنج و غم سے دُور رکھتا ہے ؎
پیو اور جیو جب تک دم میں ہے دم
پینے کے بعد آتا نہیں پاس کوئی غم
کس کی مجال تھی کہ شہنشاہِ غزل کا محاسبہ کرتا لیکن اگر ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کوئی عام آدمی جام و مینا سے دل لگا بیٹھتا تھا تو رنج و غم بھلے ہی دور بھاگ جاتے ہوں مگر پولیس تیزی سے صرف قریب ہی نہیں آجاتی تھی بلکہ گردن بھی ناپ لیا کرتی تھی! پھر کوئی چاہے جتنا یقین دلاتا کہ کسی کے مشورے پر پی ہے، جواب یہی ملتا تھا کہ مشورہ کسی کا تھا مگر مُنہ تو سو فیصد اپنا تھا! اور یوں پی کر جُھومنے والے ہتھکڑی چُوم کر رہ جاتے تھے!
نشے تو مارکیٹ میں اور بھی بہت ہیں۔ سوشل میڈیا کا نشہ کیا کم ہے؟ سمارٹ اور اینڈرائڈ فون پر مصروف رہنا بھی نشے جیسا ہوکر رہ گیا ہے مگر انگور کی بیٹی کا اب بھی کوئی جواب نہیں۔ اِس کا جادو اب بھی سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
اِس کی بیٹی نے اُٹھا رکّھی ہے سَر پر دنیا
یہ تو اچھا ہوا انگور کے بیٹا نہ ہوا!
انتونیو ڈوکیمپو گارشیا نے مثال کی حیثیت سے سامنے آکر شرابیوں کے سَر فخر بلند سے کردیئے ہیں اور وہ شراب کے صحت بخش پہلو کے حوالے سے خاصے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت جلد بالی وڈ والے شراب کے فوائد کی تھیم پر کوئی فلم بنا ڈالیں۔ یُوں بھی فلمی دنیا کے بیشتر وابستگان پیو اور جیو جب تک دم میں ہے دم پر یقین رکھتے ہیں!