ایسا لگتا ہے کہ ذہنوں کا خالی پن اب ماحول پر محیط ہوچکا ہے۔ ہر چیز کھوکھلی محسوس ہو رہی ہے۔ ہر معاملے میں خلا ہی خلا دکھائی دے رہا ہے۔ جب پورا ماحول خالی سا لگ رہا ہو تو دل و دماغ پر وحشت سی طاری ہونے لگتی ہے۔ قمر جمیلؔ نے خوب کہا ہے ؎
کیسا عالم ہے کہ تنہائی بھی
در و دیوار سے ٹکراتی ہے
بہت کچھ ہونا ہے مگر ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کسی واضح، مثبت تبدیلی کی آس میں لوگ سوکھ گئے ہیں۔ تھوڑا سا شور اٹھتا ہے، قیامت برپا کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر کچھ ہی دیر میں سارا کا سارا شور اُسی طور بیٹھ جاتا ہے جس طور ساحل سے ٹکراکر سمندر کی موجوں کا جھاگ بیٹھ جایا کرتا ہے۔ جب بھی شور اٹھتا ہے، لوگوں کی اُمّیدیں پھر توانا ہونے لگتی ہیں۔ گمان گزرنے لگتا ہے کہ شاید اب کے موسم کچھ شاداب ہوجائے، کچھ بات بن جائے مگر ڈھاک کے تین پات کے مصداق کچھ بھی نہیں ہوتا، پرنالے وہیں بہتے رہتے ہیں۔ سارے اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں، ساری توقعات بارآور ہوئے بغیر دم توڑ دیتی ہیں ؎
اِسی اِک آس میں اب کے بھی فصلِ گل گزری
وہ ہم سے بات کریں گے صبا کے لہجے میں
وطنِ عزیز کا حال یہ ہے کہ ہر معاملے پر سَنّاٹے کا راج ہے اور یہ سَنّاٹا شور کا مرہونِ منت ہے۔ شور بہت ہے مگر مجال ہے جو کام کی کوئی بات سنائی دے جائے۔ بلا جواز اور بے مصرف بولتے رہنے کو کام سمجھ لیا گیا ہے۔ ادارے ہیں اور دعوٰی بھی کیا جارہا ہے کہ وہ کام کر رہے ہیں مگر کام نے شاید سلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے کہ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا! غالبؔ نے کہا ہے ع
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے
اب مشکل یہ ہے کہ کہیں اگر فی الواقع کوئی کام ہو رہا ہو تو مآل تک بھی پہنچا جائے! جب کام ہی نہیں تو مآل کیسا؟
جب بظاہر پورا نظام تلپٹ ہوچکا ہو تو سب کچھ بے وقعت سا ہو جاتا ہے، ہر کام بے وقت ہونے لگتا ہے۔ اب کے شدید سردی پڑی مگر کراچی میں برائے نام ہی رہی۔ ہر سال شدید سردی سے لدے ہوئے جو دو چار دن نصیب ہوتے ہیں اِس بار وہ بھی نصیب نہ ہوئے۔ بہار کا زمانہ ہے۔ جن میں پُھول کھلتے ہیں وہ دن گل کھلانے پر تُلے ہوئے ہیں! بارش کا انتظار تھا سو وہ بھی نہ ہوئی۔ چند بوندیں برسیں، بہت سوں کی آنکھوں میں آس کی چمک پیدا ہوئی اور پھر ۔۔۔ ٹائیں ٹائیں فِش! ایک اندیشہ تھا ؎
پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
بدنصیبی دیکھیے کہ دوسرے بہت سے خدشوں کی طرح یہ بھی درست ثابت ہوا۔
سردی کا زمانہ گزرنے پر بہار کا موسم آنا تھا۔ پُھول کھلتے ہیں تو ہوا معطّر ہی نہیں، ٹھنڈی بھی ہوجاتی ہے۔ مگر یہ کیا؟ غنچہ و گل کے موسم میں لُو کے تھپیڑوں کی سی کیفیت ہے؟ ہمیں راجیش کھنہ پر فلمایا گیا مکیش کا گایا ہوا فلم ''مریادا‘‘ گیت یاد آرہا ہے ؎
زباں پہ درد بھری داستاں چلی آئی
بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی
گرمی سے ''آراستہ‘‘ اور حبس سے ملتی جلتی کیفیت والے ماحول میں مصطفی کمال نے مزید گرما گرمی پیدا کرنے کی اچھی خاصی کوشش کی ہے۔ وہ الزامات کی پٹاری لے کر آئے۔ لوگ متوجہ ہوئے کہ ع
دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟
لوگ ہر چیز میں نیا پن چاہتے ہیں۔ ویسے تو دنیا میں کوئی چیز بھی نئی نہیں مگر پیشکش کا انداز اچھوتا ہو تو بات کچھ بن جاتی ہے۔ سیف الدین سیفؔ نے کہا ہے ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
خیال تھا کہ مصطفی کمال جب اپنی زندگی سمیت سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں تو شاید کچھ نہ کچھ انوکھا لے کر آئے ہوں گے۔ اُن کی الزامات والی پٹاری سے سانپ کے نکلنے کی توقع تھی مگر نکلی رَسّی، اور وہ بھی خاصے پُرانے بَل والی! ڈرنے ڈرانے والی کوئی خاص بات تھی نہیں مگر کیا کیجیے کہ اس وقت ایم کیو ایم والوں پر رَسّی سے بھی خوفزدہ ہونے کا زمانہ آیا ہوا ہے!
شراب تو پرانی تھی ہی، بوتل بھی نئی ثابت نہ ہوئی۔ خیر، مصطفی کمال اور ان کے ساتھ منظر عام پر آنے والوں نے کچھ نیا کر دکھانے کے دعوے کے ساتھ اپنی اننگز شروع کی ہے۔ اُن کے لیے سیاسی پچ خاصی ''گراسی‘‘ ہے یعنی کوئی بھی گیند اُن کی وکٹیں اڑا سکتی ہے۔ گویا بہت سنبھل کر کھیلنا ہوگا۔
پاکستانی سیاست کی ریاضی بہت عجیب ہے۔ متحدہ کی حد تک اس وقت ''مائنس‘‘ کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہر مساوات، خواہ کہیں سے چلی ہو، مِنہا کی منزل تک پہنچ کر رک رہی ہے، دم توڑ رہی ہے۔ ''مائنس ون‘‘ کے چکر نے بہت سوں کو گھن چکر بنا ڈالا ہے۔ بہت سے معاملات ایک دوسرے کو ضرب دیتے دکھائی دے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف تقسیم، بلکہ تقسیم در تقسیم کا ہے! جہاں اصولی جمع تفریق ترک کردی جائے وہاں ایسے ہی حساب کتاب کی رونمائی ہوا کرتی ہے!
مصطفٰی کمال اور ان کے ساتھیوں کی آمد سے تھوڑی بہت ہلچل ضرور پیدا ہوئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو صفائی مہم ہی سہی۔ کم و بیش پانچ سال سے حالت یہ ہے کہ شہر میں کچرے کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا معقول بندوبست نہیں۔ سب کچھ ''آٹو سسٹم‘‘ پر چل رہا ہے۔
شہرِ قائد کے مکین حیران ہیں کہ راتوں رات ان کا نصیب کیسے جاگ اٹھا کہ یاروں کو کچرے کا خیال آگیا۔ ایسے میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کیا اب کچرا بھی اس وقت ٹھکانے لگایا جایا کرے گا جب اچھی خاصی سیاسی ہلچل برپا ہوا کرے گی، دھما چوکڑی مچا کرے گی؟
میڈیا نے پیالی میں طوفان اٹھانے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے۔ ایک بڑی سیاسی تنظیم کی دھڑے بندی ہو رہی ہو اور میڈیا والے خاموش بیٹھ رہیں؟ ایسا تو بس خواب و خیال ہی میں ہوسکتا ہے۔ متحدہ کی وکٹیں گِرنے پر کچھ لوگ بہت خوش ہیں اور چند ایک کی خوش گمانی ہے کہ اب کے معاملات بہت حد تک کامیابی کی منزل تک پہنچ کر دم لیں گے۔ مگر خدشات بھی پنپ رہے ہیں۔ شہر میں خوں ریزی بھی تو ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے بہت سے رہنماؤں کی طرح عام کارکن بھی شدید شش و پنج کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس پر بھروسہ کیا جائے اور کسے اپنی صف سے الگ ہوتا ہوا گردانا جائے۔ عبیداللہ علیمؔ خوب یاد آئے ؎
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے!
کراچی کے نصیب میں کیا لکھا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لوگ محبت کے دعووں کے ساتھ آتے ہیں، اپنی مرضی کا کھیل جی بھرکے کھیلتے ہیں، جو کچھ بٹورنا ہوتا ہے وہ پورے اہتمام سے بٹورتے ہیں اور پھر اہلِ شہر کی ناقدری کا رونا روتے ہوئے اپنی راہ لیتے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کے لیے جو کچھ سوچا اور کیا جانا چاہیے وہ سوچا اور کیا نہیں جارہا۔ پہلے معاملات کو بگڑنے دیا جاتا ہے اور پھر جب صورت حال ٹائم بم کی سی ہوجاتی ہے تب ہوش میں آنے کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ اہلِ اختیار خُم ٹھونک کر میدان میں نکلتے ہیں اور سب کچھ درست کرنے کے نام پر تھوڑی بہت چھانٹی کرتے ہیں۔ اہلِ کراچی بھی یہ سوچ کر خوش ہولیتے ہیں کہ شاید اب معاملات کچھ درست ہوجائیں۔
بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور بہت کچھ ہوتا ہوا دکھانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے مگر فی الواقع کچھ ہو نہیں رہا ہوتا۔ یہی کراچی، بلکہ پورے ملک کا یہی بنیادی المیہ ہے۔ منیرؔ نیازی مرحوم نے معاشرے کے جمود کی طرف کیا خوب اشارا کیا تھا ؎
منیرؔ! اِس شہر پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ!
دعا ہے کہ اب معاملات درستی کی طرف چل پڑیں اور جیسی حرکت دکھائی دے رہا ہو ویسا ہی سفر بھی ہو رہا ہو!