غیر ملکی قوتوں کی سرگرمیوں کو لگام دینے کے لیے حساس اداروں نے بلوچستان میں بڑا ہاتھ مارا ہے۔ بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ''را‘‘ کے حاضر سروس افسر کُل بُھوشن یادَو کی گرفتاری نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ہمارے ہاں عدم استحکام پیدا کرنے والے بیرونی خفیہ اداروں میں ''را‘‘ پیش پیش ہے۔ کُل بُھوشن یادو کی گرفتاری اب بھارت کے دفتر خارجہ نے بھی تسلیم کرلی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ کہتے ہوئے جان چُھڑانے کی کوشش بھی کی ہے کہ کُل بُھوشن یادو بحریہ کا اہلکار تھا اور اُس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
کُل بُھوشن یادو سے بے تعلق ہونے کا اظہار کرکے بھارتی دفتر خارجہ نے خالص سیاسی انداز اختیار کیا ہے۔ بہت سے سیاسی اور جرائم پیشہ گروہوں کا بھی یہی طریق واردات رہا ہے۔ جب تک بندہ کام کر رہا ہے یعنی دیا ہوا ٹاسک پورا کرکے دے رہا ہے، اپنا ہے۔ اگر کبھی قانون نافذ کرنے والوں کے ہتّھے لگ جائے تو یہ کہتے ہوئے اپنی راہ لیجیے کہ اِسے تو بہت سے پہلے نکالا جاچکا ہے! گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تُھو تُھو۔
آئیے، اب ہم کُل، بُھوشن اور یادو کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ ہندی میں ''کُل‘‘ خاندان یا خانوادے کو کہتے ہیں۔ زیبائش اور زیور وغیرہ کے لیے ہندی میں ''بُھوشن‘‘ اور ''آبھوشن‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ کُل بُھوشن کا مطلب ہوا خاندان کا نام روشن کرنے والا یعنی خاندان کے لیے طُرّہ امتیاز۔
ہندوؤں میں یادو نچلی ذات ہے جس سے وابستہ لوگ عمومی اور قدرے روایتی نوعیت کے پیشوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اُتر پردیش اور بہار میں لاکھوں یادو مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ دودھ دوہنے اور بیچنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ کُل بُھوشن یادو بھی پاکستان میں اپنی مرضی کے ''علیحدگی پسند مویشی‘‘ تلاش کرکے دودھ دوہ رہا تھا کہ پکڑا گیا! کُل بُھوشن یادو جیسوں کی صلاحیت سے خوب استفادہ کیا جاتا ہے مگر جب سرکار دیکھتی ہے کہ مزید استفادہ ممکن نہیں تو کوئی تعلق نہ ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ کُل بُھوشن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ پہلے تو مویشی کی طرح اُس کی صلاحیتوں کو دوہا گیا۔ کام نکل گیا تو پھر تُو کون اور میں کون! مگر حیرت کیسی اور افسوس کیوں؟ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس کے کاموں میں
پڑوسیوں کو مستحکم دیکھنے کے دعویدار بھارت کا عشروں سے یہی وتیرہ رہا ہے۔ بغل میں چُھری اور منہ میں رام رام۔ مگر اِس پر بھی کیسی حیرت اور کہاں کا افسوس؟ بھارتی قیادت کی ہر آن یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست کا ناطقہ بند کردیا جائے۔ پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمبا والا کو دفتر خارجہ طلب کرکے بلوچستان میں ''را‘‘ کے ملوث ہونے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایک مراسلہ اُن کے سپرد کیا۔
کُل بُھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد بھی مہا راج کو شرم نہ آئی۔ ذرا نئی دہلی کی ''اعلٰی ظرفی‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ ''را‘‘ کے حاضر سروس افسر یا ایجنٹ کے پکڑے جانے پر بھی بیان داغا گیا ہے کہ بھارتی قیادت پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے! اگر مستحکم کرنے کی یہی صورت ہے تو ہم غیر مستحکم بھلے۔ ع
ایسی محبت سے ہم باز آئے!
ایسے ہی رسمی اور روایتی قسم کے بیانات داغ کر بھارتی قیادت اِس خوش فہمی میں مبتلا معلوم ہوتی ہے کہ اُس کی ہر بات پر مکمل بھروسہ کیا جارہا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ''محبّانِ وطن‘‘ کی کمی نہیں جو ذرا سے ذاتی فائدے کے لیے بھارت کے ہر اقدام کو سراہتے رہنے کو زندگی کا بنیادی مقصد اور فرض گردانتے ہیں!
عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں بھارت سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی ضرورت دکھائی نہیں دیتی۔ سوال حریف کے حجم اور طاقت کا نہیں۔ یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ حالات ہمارے لیے کس حد تک leverage پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان کا محلِ وقوع اُس کے لیے غیر معمولی strategic leverage پیدا کرنے کا وسیلہ بھی ہے۔ دُنیا حیران ہے کہ جب اپنی بات کسی حد تک منوانے کی پوزیشن بن ہی رہی ہے تو بات منوانے سے گریز کیوں کیا جارہا ہے۔ بھارت سے ہر معاملے میں دبنے اور پسپا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ممبئی حملوں پر بھارت کے آگے سِپر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے کہ اُس نے اب تک سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملے پر سورج جیسے انتہائی روشن حقائق بھی تسلیم نہیں کیے۔
کُل بُھوشن یادو کی گرفتاری ایسا معاملہ ہے جس پر ڈھول پیٹ کر پاکستان عالمی برادری میں اپنی پوزیشن قابلِ رشک حد تک بہتر بناسکتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں ہی محاذوں پر بھارت کو نیچا دکھانے اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کا اچھا موقع ہاتھ لگا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر آنے کا وقت ہے۔
اگر اس معاملے کے شکنجے میں پاکستان کی گردن پھنس رہی ہوتی تو اِس وقت پوری دنیا میں ڈھول پیٹا جارہا ہوتا۔ بھارت نے پکڑے جانے والے جاسوس کو اپنا شہری تسلیم کرکے معاملہ دبانے کی کوشش کی ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی دو روزہ دورے پر پاکستان میں تھے کہ کُل بُھوشن یادو پکڑا گیا۔ ہماری ٹائمنگ لاجواب رہی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے، جیسے کہ توقع تھی، ایران کے صدر سے ملاقات میں یہ معاملہ بھی اُٹھایا۔ ایرانی قیادت پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کو، ''را‘‘ کے ہاتھوں، پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ ایرانی صدر نے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد کہا کہ اس ملاقات میں بھارتی خفیہ ادارے کی بلوچستان میں سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے خصوصی بیان جاری کردیا جس میں صراحت کی گئی تھی کہ آرمی چیف نے ایرانی صدر سے ملاقات کے دوران بلوچستان میں ''را‘‘ کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایرانی سرزمین کے استعمال کیے جانے کا اِشو اٹھایا اور ایرانی قیادت سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکے۔ ایرانی صدر یا ان کے معاونین نے خواہ کچھ کہا ہو، جب آئی ایس پی آر نے ایرانی صدر سے آرمی چیف کی ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کا حصہ (ایران کے سرکاری بیان کے جواب میں) خصوصی طور پر جاری کیا تو اُسے درست نہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب کچھ گنجائش پیدا ہوئی ہے کہ ہم اپنی پوزیشن کو محسوس کریں اور اُس سے بھرپور استفادہ ممکن بنائیں۔ حالات ساتھ دے رہے ہوں تو شیر بننے اور دہاڑنے میں کوئی ہرج نہیں۔ کبھی کبھی سینہ تان کر آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی بھی اپنائی جاسکتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات بھارت کو بھی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ تھوڑی سی ہمت چاہیے، کام بنتے دیر نہیں لگے گی۔ ؎
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم