کل کا دن بھی عجیب تھا۔ دو عالمی دن ایک ساتھ وارد ہوئے۔ ہر سال 8 مئی کو تھیلے سیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اور ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ماں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ کل یہی ہوا۔ ایک طرف تھیلے سیمیا میں مبتلا بچوں کے مرجھائے ہوئے، زندگی اور موت کے درمیان کشمکش سے دوچار چہرے دکھائی دیئے اور دل بھر آیا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر ماں کی عظمت کے حوالے سے اقوال کی بہار تھی۔ ایسے میں دل کا عجیب حال ہوا۔
ماں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جو انکار کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرے وہ اس بات کے لیے بھی تیار رہے کہ اس کا شمار کسی مخلوق میں نہ کیا جائے۔ ماں کی محبت (یا ماں سے محبت) کیا ایسی چیز ہے جو سال میں ایک آدھ مرتبہ ''سیلیبریٹ‘‘ کی جائے؟ یہ تو وہ جشن ہے کہ پل پل منایا جانا چاہیے۔ مگر خیر، مغرب کی اور بہت سی باتوں کی طرف ماں سے محبت کے اظہار کی خاطر متعیّن دن کو بھی ہم نے بخوشی اپنا لیا ہے۔
تھیلے سیمیا کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک ہفتہ قبل نذیرالحسن نے یاد کیا۔ نذیرالحسن تھیلے سیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج میں مصروف ایک غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان کی مہربانی سے ہم سال میں دو ایک مرتبہ اللہ کا بھرپور شکر ادا کرنے کی طرف مائل ہو پاتے ہیں۔ وہ ایسے کہ جب ہم تھیلے سیمیا سینٹر میں اس مرض سے دوچار پھول سے بچوں کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہو پاتا ہے کہ صحتِ کاملہ کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم اس نعمت کو کتنے عمومی انداز سے لیتے ہیں!
قرآن میں انسان کو ناشکرا اور عجلت پسند قرار دیا گیا ہے۔ جب تک انسان کسی نعمت کے مقابل مصیبت سے دوچار نہیں ہوتا، کماحقہ شکر ادا کرنے پر مائل نہیں ہوتا۔ جب تک پیٹ بھرا ہو، بھوک کے بارے میں اور بھوکے رہ جانے والوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ اسی طور جب تک صحت رہتی ہے، بیماری سے بچے رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ تھیلے سیمیا میں مبتلا بچوں کو دیکھنے پر ایک طرف تو ان سے بھرپور ہمدردی کا دریا دل میں موجزن ہونے لگتا ہے اور دوسری طرف اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے کہ اس نے صحت ایسی نعمت سے نواز رکھا ہے۔
اتوار کو دل و دماغ کی عجیب حالت تھی۔ ایک طرف ماں کی یاد تھی اور دوسری طرف تھیلے سیمیا سے لڑنے والے بچوں کے پھول سے چہرے۔ جس طور بیمار پڑنے پر صحت کی قدر معلوم ہوتی ہے بالکل اسی طور ماں نہ رہے تب معلوم ہوتا ہے کہ اس ہستی کی شکل میں اللہ نے کیسی نعمت سے نواز رکھا تھا۔ ماں کو ملکِ عدم میں آباد ہوئے 16 برس بیت گئے۔ کبھی ایسا لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں اور کبھی یہ محسوس ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔
کل یعنی اتوار کا دن عجیب کشمکش میں گزر رہا تھا۔ دو اہم عالمی دن ایک ساتھ وارد ہوئے اور ذہن ان میں تقسیم ہو کر گیا۔ ماں کی محبت اور تھیلے سیمیا سے دوچار بچوں کے حوالے سے یہ دن جذبات کو ابھارنے کے لیے کافی تھا۔ ایک طرف ماں کی یاد اور دوسری طرف تھیلے سیمیا میں مبتلا بچوں کے نصیب میں لکھی ہوئی اذیت۔ جو محسوس کرے یا کرنا چاہے وہی بتا سکتا ہے کہ یہ کیفیت کیا ہوتی ہے۔
ابھی ہم اُدھیڑ بُن ہی میں تھے کہ مرزا تنقید بیگ کا فون آ گیا۔ ہم نے موبائل فون کی سکرین پر مرزا کا نام دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔ مرزا اور کال؟ اُن میں تو قیامت کی خِسّت پائی جاتی ہے۔ عام طور پر ایس ایم ایس سے آگے نہیں بڑھتے۔ اور اگر کبھی بات کرنا لازم ہو تو مِس کال دیتے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ بیل پر بیل دیئے جا رہے ہیں۔ ہم سمجھ گئے کہ اُنہوں نے ہمارے سُکون کو ذبح کرنے کے لیے ضرور کوئی چُھری تیار کر رکھی ہے۔ اور ہمارا خدشہ درست ثابت ہوا۔ یہ بھی ہمارا ہی نصیب ہے کہ کبھی کوئی اچھا گمان درست ثابت نہیں ہوا، صرف خدشات ہی اپنے آپ کو سچ ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں!
ہم نے کال اٹینڈ کی تو مرزا نے خاصے چہکتے ہوئے انداز سے ''صبح بخیر‘‘ کہتے ہوئے ہمارا خیر مقدم کیا۔ ہمارے ذہن میں ابھرنے والے خدشات مزید توانا ہو گئے۔ مرزا جب نمایاں چہکار کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کرتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں کوئی نہ کوئی عجیب و غریب بات ہماری راہ تک رہی ہوتی ہے۔ اور پھر مرزا نے خود ہی پردہ اٹھا دیا۔ ہم نے چند رسمی جملوں کے بعد کال کرنے کی غایت جاننا چاہی تو مرزا نے کہا: ''بس یونہی، تمہیں مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے۔‘‘
ہم مزید حیران ہوئے کہ ہمیں مبارک باد چہ معنی دارد؟ ہم نے مبارک باد کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ جاننا چاہی تو مرزا نے کہا: ''بھئی، تم شاید بھول گئے ہو کہ آج ایک خاص دن منایا جارہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ چلو، تمہیں مبارک باد ہی دے دی جائے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ آج مدرز ڈے بھی ہے اور تھیلے سیمیا کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ماں کے عالمی دن کی مناسبت سے ہمیں مبارک باد دینے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! اور رب کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم تھیلے سیمیا سے بہت دور ہیں۔ ایسے میں مبارک باد کس بات کی؟
مرزا نے اپنے لہجے میں مزید چہکار پیدا کرتے ہوئے کہا: ''آج ایک اور عالمی دن بھی منایا جارہا ہے۔ ہم نے سوچا اپنے دوستوں کو یاد بھی کر لیں اور انہیں یاد بھی دلا دیں تاکہ وہ اپنے عالمی دن کو ذرا ڈھنگ سے منائیں۔‘‘
ایک اور عالمی دن؟ ہم مرزا کی بات سن کر مزید حیران ہوئے۔ دو عالمی دن تو منائے جا رہے ہیں۔ کیا ایک اور عالمی دن منایا جا رہا ہے؟ ایک ہی دن تین عالمی دن! خیال گزرا کہ مرزا کہیں مذاق تو نہیں فرما رہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ مئی کی 8 تاریخ کو وہ اپریل فُول کیسے منا سکتے ہیں؟
بہت سوچنے پر بھی کچھ یاد نہ آیا تو ہم نے مرزا سے کہا کہ اب پہیلیاں نہ بُجھوائیے اور صاف صاف بتائیے کہ آج اور کس چیز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
مرزا نے کہا : ''حیرت ہے، تم بھول گئے۔ بھئی آج گدھوں کا بھی عالمی دن منایا جا رہا ہے! دنیا بھر میں گدھوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔ جدید ترین گاڑیوں اور دیگر سہولتوں سے آراستہ اِس دور میں بھی بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں گدھے انسانوں کے سب سے بڑے ساتھی ہیں۔ دنیا بھر کے گدھوں کو ان کی محنت اور وفاداری پر خراجِ تحسین پیش کرنا انسانوں پر فرض ہے۔ اس فرض کی تکمیل ہی کے لیے 8 مئی کو عالمی یومِ خَر منایا جاتا ہے۔‘‘
مرزا کی بات سُن کر چند ساعتوں کے لیے تو ہم سُنّ ہو کر رہ گئے۔ دوسری طرف سے مرزا کی شرارتی ہنسی کی آواز آتی رہی۔ اُن کی ہنسی تھمی تو ہمارے حواس بھی کچھ بحال ہوئے اور ہم اپنے آپ میں واپس آئے۔ حواس بحال ہوتے ہی ہم نے عرض کیا: آپ کی 'خر شناسی‘ کو داد دینا پڑے گی کہ آپ نے ہمیں مبارک باد دی۔ مگر خیر، اِس میں کچھ بھی حیرت انگیز نہیں۔ ہم چونکہ آپ کے دوست ہیں تو ظاہر ہے ایک نہ ایک دن تو ہمیں خَروں کی ہم سَری کرنا ہی تھی! آپ کو کیا معلوم کہ آپ سے دوستی کی بنیاد پر کتنی ہی بار لوگوں نے ہمیں گدھوں کے قرب و جوار میں شمار کیا ہے! مرزا یہ ساری باتیں سُن کر ذرا بھی بے مزا نہ ہوئے۔ ہم صحافیوں کی طرح وہ بھی خاصی موٹی کھال کے ہیں۔ کوئی بھی بات اُن پر آسانی سے اثر انداز نہیں ہوتی۔ اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ جس میں ہمارا بینڈ بج رہا ہو تو وہ اپنی تحقیر کی بھی ذرا پروا نہیں کرتے!
کیا عجیب اتفاق تھا کہ مدرز ڈے اور تھیلے سیمیا ڈے کے دو راہے کو عالمی یومِ خَر نے ''تِراہے‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ ایک ٹکٹ میں تین مزے ہو گئے اور مرزا کے لیے تو واقعی یہ دن بہت مزے کا تھا کہ ہمارا ریکارڈ لگانے کا ایک اور اچھا موقع ہاتھ لگا!