"MIK" (space) message & send to 7575

خرد کا نام جنوں رکھ دیا …

انسان ہزاروں سال سے اپنا اور پورے ماحول کا معیار بلند کرنے کی بھرپور کوشش کرتا آیا ہے مگر بیسویں صدی نے حقیقی معنوں میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ صدی ہر شعبے میں انقلاب برپا کرنے کا سبب بنی۔ فطری و سماجی علوم سے متعلق تمام نظریات اور فلسفے یوں تبدیل ہوئے کہ کچھ کے کچھ ہو گئے۔ بیسویں صدی میں جن ناول نگاروں نے اپنی تحریر سے ایک زمانے کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘ ان میں آلڈس ہکسلے بھی شامل ہیں۔ آلڈس ہکسلے نے ''بریو نیو ورلڈ‘‘ لکھ کر فکشن کے عظیم مصنفین میں لازوال مقام پایا۔ یہ ناول ڈزٹوپین ہے۔ خوابوں کی جنت کو یوٹوپیا اور خوابوں کے جہنم کو ڈزٹوپیا کہا جاتا ہے۔ ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ دنیا ہماری امنگوں اور امیدوں کے مطابق ہو جائے۔ ہمارے ذہن میں بسی ہوئی جنت کے مقابل بعض ذہنوں میں خدشات اور وسوسوں سے اٹا ہوا جہنم بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ دنیا کہیں ایسی نہ ہو جائے، ویسی نہ ہو جائے۔ 
ہکسلے نے ''بریو نیو ورلڈ‘‘ میں مستقبل کی ایسی دنیا کی جھلک پیش کی ہے جس میں انسان سے اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے مگر یہ سب کچھ بزور نہیں کیا گیا ہے۔ آزادی سلب کرنے کے لیے منفرد طریقہ اختیار کیا گیا ہے ... یہ کہ اُسے مادر پدر آزادی فراہم کر دی جائے! انسان کو ہر معاملے میں اس قدر تفریح فراہم کر دی گئی ہے کہ اُس کی فیصلہ کرنے کی قوت اور کام کرنے کی صلاحیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ معلومات تک عوام کی رسائی روکنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں دنیا بھر کی ضروری و غیر ضروری معلومات تک بھرپور رسائی دی جائے۔ یعنی کام کی چند ایک باتوں کے گرد غیر متعلق باتوں کا ڈھیر لگا دیا جائے! نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ کام کی باتیں غیر متعلق باتوں کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گئی ہیں۔ گویا کسی کو تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے روکنے کے لیے طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنا اچھا طریقہ نہیں۔ ذہن کو بھٹکانے والی سہولتیں کھل کر فراہم کی جائیں۔ بس اتنا کافی ہے۔ 
آلڈس ہکسلے نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ ہر معاملے میں بے لگام یا مادر پدر آزادی وہی نتائج پیدا کرتی ہے جو سخت ترین پابندیاں عائد کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم بھی ایک ایسے ہی دور میں جی رہے ہیں۔ تلوار سے ٹکڑے کرنے کے بجائے ہمیں میٹھی چُھری سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران میڈیا میں انتہائی غیر معمولی، بلکہ انقلاب آور پیش رفت نے سب کچھ بدل کر، الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ زمانہ کب کا گزر چکا ہے جب سیاہ کو سفید ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا تھا‘ اور بات بنتی نہ تھی، لوگ شکوک میں مبتلا رہتے تھے۔ ذہن الجھا ہی رہتا تھا کہ سیاہ کو سفید سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اب ہر معاملے میں اتنے زیادہ آپشن دے دیئے گئے ہیں کہ صحیح اور غلط کے بارے میں تیزی سے یا بروقت کوئی ٹھوس رائے قائم کرنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ 
مستقبلیات کے ماہر اور معروف دانشور ایلون ٹوفلر نے 1970ء میں اپنی مشہور زمانہ کتاب ''فیوچر شاک‘‘ میں انتخاب کے مسئلے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے مشہور فلم ''ماسکو آن ہڈسن‘‘ کے ایک منظر کا خاص طور پر حوالہ دیا ہے۔ منظر کچھ یوں ہے کہ سابق سوویت یونین کا ایک منحرف کسی نہ کسی طور فرار ہو کر امریکہ پہنچتا ہے اور نیو یارک میں سکونت اختیار کرتا ہے۔ وہ روزمرہ استعمال کی چند چیزیں اور چند اشیائے خور و نوش خریدنے کے لیے نیو یارک کے ایک سپر سٹور میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں اُسے ہر چیز کی اتنی ورائٹی دکھائی دیتی ہے کہ انتخاب مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر تک وہ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا خریدے اور کیا نہ خریدے۔ اُس کا ذہن اِتنی ورائٹی دیکھ کر الجھ جاتا ہے اور بالآخر وہ چکرا کر گر جاتا ہے! 
''ماسکو آن ہڈسن‘‘ کا یہ منظر اب ہم سب کی زندگی میں در آیا ہے۔ ہم بھی تو ہر معاملے میں الجھ کر ہی رہ گئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کو برباد کرنے کا اِس سے اچھا طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ اُس میں بسنے والوں کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا جائے؟ جب جھوٹ کو سچ میں اور سچ کو جھوٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہو تب انسان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے خطرناک حد تک محروم ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ذہن ہر وقت شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے، کوئی بھی ڈھنگ کا فیصلہ نہیں ہو پاتا اور اگر کسی نہ کسی طور کوئی ڈھنگ کا فیصلہ کر بھی لیا جائے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ذہنوں کو الجھائے رکھنے کا مقصد میڈیا کی مدد سے بخوبی حاصل کر لیا گیا ہے۔ کون سا معاملہ ہے جو اب کچھ کا کچھ نہیں ہو گیا؟ معاملات نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے کہ کھوٹے اور کھرے کو الگ کرنا اب جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ 
ہر معاملے کو کچھ کا کچھ بنانے اور ذہنوں کو مستقل الجھن میں مبتلا رکھنے کا ہنر اگر کسی کو آتا ہے تو وہ ہیں تحقیق کے نام پر قیامت ڈھانے والے شعبدہ باز۔ جب بھی کسی معاملے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ الجھن سے دوچار رکھنا مقصود ہو، فوراً تحقیق کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ اور پھر سیاہ و سفید کو اس قدر گڈمڈ کر دیا جاتا ہے کہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ سیاہ کیا ہے اور سفید کیا۔ 
ہم اخلاقی زوال کے دور میں جی رہے ہیں۔ جتنی بھی تسلیم شدہ اخلاقی اقدار تھیں وہ اب ہماری نظر میں اپنا مقام اور احترام کھو چکی ہیں۔ یعنی ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ اُن سے دور رہنا ہے۔ اخلاقی اقدار کو اپنی زندگی سے نکال کر ضمیر پر تھوڑا بہت بوجھ بھی محسوس ہوتا ہے۔ اب اِس معمولی سے بوجھ کو بھی ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی پہلے تو کسی کے ذہن میں یہ بات ڈالیے کہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چوری کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ اور جب آپ چوری کرنے پر افسردہ ہوں اور دل پر بوجھ یعنی ضمیر کی خلش محسوس کریں تو تحقیق کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ ضمیر کی یہ خلش بھی آپ کے لیے آگے چل کر سود مند ثابت ہو گی! گویا گھما پھرا کر یہ درس دیا جا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہیے کہ دل پر بوجھ اور ضمیر کی خلش محسوس ہوتی رہے کہ اِس کے نتیجے میں شخصیت زیادہ نکھرے گی! 
دنیا بھر میں نئی نسل کے ذہن سے اخلاقی معاملات کھرچ کر پھینک دیئے گئے ہیں۔ اخلاق سوز فلمیں عام ہیں۔ یہ فلمیں دیکھنے کی عادی نئی نسل کو اب یہ بھی یاد نہیں کہ شرم اور حیا جیسی کچھ باتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اخلاق سوز فلمیں دیکھنے اور کبھی کبھی ضمیر کی خلش محسوس کرنے والوں کے لیے تحقیق کرنے والے بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اخلاق سوز فلمیں دیکھتے ہیں وہ بعد میں کٹّر مذہبی ہو جاتے ہیں! تحقیق کے ذریعے اس نکتے کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اخلاق سوز فلمیں بہت زیادہ دیکھتے ہیں اُن کا ضمیر اُنہیں ملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ لعنت ملامت ہی اُنہیں مذہب کی طرف موڑتی ہے۔ اخلاق سوز فلمیں دیکھنے کے معاملے میں جو جتنا شدید ہو گا وہ بعد میں مذہب کے حوالے سے اُتنا ہی کٹّر ہو جائے گا! 
یہ تحقیق اُن کے لیے یقیناً بہت کام کی ہے جو کوئی بھی بُرا کام کرتے وقت اپنے دل پر بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ گھما پھرا کر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی بُرا کام کرتے وقت ضمیر ملامت کر رہا ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ لعنت ملامت بھی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرے گی یعنی زندگی کا رخ رفتہ رفتہ مذہب کی طرف ہو جائے گا!
تحقیق کے نام پر لوگوں کو مزید گمراہ کرنے کا یہ دور ایسا فتنہ پرور ہے کہ قدم قدم پر رب کی پناہ مانگنا فرض ہو گیا ہے۔ سیاہ کو سفید کی حیثیت سے قبول کرنے پر اکسایا ہی نہیں جا رہا بلکہ اس عمل کو شخصیت کی تعمیر کے لیے اکسیر بھی قرار دیا جا رہا ہے! ایسی کیفیت ہی کے لیے تو کہا گیا ہے ؎
خرد کا نام جُنوں رکھ دیا، جُنوں کا خرد 
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں