گزشتہ دنوں وزیر اعظم ایک بار پھر ایک دن کے لیے کراچی آئے۔ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں، معاملات شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ جنہیں وزیر اعظم سے مل کر بہت کچھ کہنا ہوتا ہے، دل کے پھپھولے پھوڑنے ہوتے ہیں وہ سوچتے اور ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایک دن میں ہو ہی کیا سکتا ہے؟ دن شروع بھی نہیں ہوا ہوتا کہ ختم ہو جاتا ہے اور بہت سے لوگ دل مَسوس کر رہ جاتے ہیں کہ ع
آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا!
وزیر اعظم کی اِس بار کراچی آمد بھی ویسی ہی تھی جیسی ہوا کرتی ہے۔ کچھ بھی ہٹ کر نہیں تھا مگر ہاں، ایک بار پر لوگ ضرور حیران ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان نے کیا کوئی کسر چھوڑی تھی کہ وزیر اعظم بھی ستم ظریفی پر مائل ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کی ایک منفرد خصوصیت سامنے آئی ہے یعنی یہ کہ ختم کرنے کی جتنی کوشش کیجیے، یہ فاصلہ اُتنا ہی بڑھتا جاتا ہے!
دونوں طرف کچھ لوگ ہیں جو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں فاصلے بڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے دونوں بڑی جماعتوں کو کسی بھی بیرونی دشمن کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے شیخ رشید کو عمران خان کے ساتھ دیکھ کر سُکھ کا سانس لیتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف چوہدری نثار اور اُن کے ہم خیال لوگوں کی ن لیگ کی صفوں میں موجودگی سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے لوگ اپنے کلیجوں میں ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور تیسری طرف ن لیگ والے پیپلز پارٹی میں چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ہم خیال لوگوں کو دیکھ کر جسم و جاں میں راحت محسوس کرتے رہتے ہیں! ایک وقت تھا کہ راجا ریاض اینڈ کمپنی نے ملک کی واحد عوامی جماعت کے تابوت میں کیلیں ٹھونکنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ اب کیلیں ٹھونکنے کا عمل حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے! اس عمل کو روکنے ہی کے لیے تو سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے۔
مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ ن لیگ کے لیے صرف چوہدری نثار یا پیپلز پارٹی کے لیے صرف اعتزاز احسن کسی حد تک پورس کے ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ جو کردار آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے لیے ادا کیا یعنی اچھی خاصی ملک گیر جماعت کو سمیٹ کر سندھ کی جماعت میں تبدیل کردیا وہی کردار اب خیر سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ن لیگ کے لیے ادا کر رہے ہیں یعنی اسے پنجاب تک محدود رکھنے کی لاشعوری کوشش میں مصروف ہیں۔
اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ صرف پنجاب سے ملنے والی نشستیں ہی ن لیگ کو وفاق میں حکومت بنانے کے قابل بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسے میں میاں صاحب کا پنجاب پر متوجہ رہنا حیرت انگیز ہے نہ غلط۔ مگر اِس بنیاد پر دیگر صوبوں کو طاقِ نسیاں پر رکھنا بھی کسی طور پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور پنجاب میں بھی صرف لاہور کی تعمیر و ترقی پر متوجہ رہنا میاں صاحب اور ان کی پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
میاں صاحب پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ایسے میں ان کا کسی ایک صوبے پر ملتفت رہنا محلِ نظر ہے۔ ایسا کرنا ان کے لیے مزید سیاسی مشکلات پیدا کرے گا۔ چھوٹے صوبوں کا احساسِ محرومی بڑھے گا۔ بلوچستان کے معاملے میں بے اعتنائی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ غیر معمولی طور پر ملتفت ہونا پڑا۔ وہاں شورش پر قابو پانے کے لیے وفاق کی طرف سے مثبت امتیازی سلوک لازم تھا جو روا رکھنا پڑا۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اُسے بھی نظر انداز نہ کیا جائے مگر عمران خان نے جو کچھ کیا ہے اُس کی بنیاد پر حکومت کا خیبر پختونخوا پر متوجہ ہونا ذرا مشکل ہے۔ التفات کی بات کیجیے تو اب سندھ کی باری ہے۔ سندھ میں ایک مدت سے گورننس کا مسئلہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خاطر خواہ انداز سے ڈلیور نہیں کیا جس کے باعث مشکلات بڑھتی گئی ہیں۔ بے امنی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ وفاق نے رینجرز کی مدد سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل کردیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کو لگام دینے میں بھی قابل ذکر حد تک کامیابی نصیب ہوچکی ہے۔
کراچی گو سندھ کا حصہ ہے مگر عملاً ملک سا ہے! یہاں ملک کے ہر خطے اور نسل کے لوگ ہی نہیں بلکہ بہت سی بیرونی نسلوں کے لوگ بھی آباد ہیں۔ ہر مذہب اور رنگ کے لوگ کراچی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اتنے بڑے شہر کے معاملات کسی مقامی سیاسی تنظیم، جماعت یا بلدیاتی ادارے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔
اہل کراچی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے معاملے میں تو بلدیاتی اداروں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے مگر امن بحال رکھنے کی ذمہ داری پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز کو بھی سونپنی ہی پڑے گی۔ شہر کو بین الاقوامی رنگ دینا وفاق ہی کے جگرے کی بات ہوسکتی ہے۔ مگر اب تک ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ملک بھر سے لوگ یہاں پراپرٹی اور کاروبار میں سرمایہ ضرور لگا رہے ہیں مگر شہر کے مجموعی مزاج اور حلیے کو تبدیل یا درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
سید مراد علی شاہ کو یقین تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات ہوگی تو وہ چند ایک ضروری باتیں اُن کے گوش گزار کر پائیں گے۔ مگر کیفیت یہ رہی کہ ع
آنکھوں آنکھوں میں ادھوری سی کوئی بات ہوئی
مراد علی شاہ کو میاں صاحب سے ملاقات کے نام پر صرف پانچ منٹ ملے۔ بہت کچھ کہنا تھا مگر کہہ نہ سکے۔ جو کچھ سوچ رکھا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ؎
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی!
میاں صاحب سے ملاقات کے نام پر عنایت کیے جانے والے پانچ منٹ میں مراد علی شاہ نے کہا کہ اسحاق ڈار، چوہدری نثار اور خواجہ آصف میں سے کوئی بھی بات نہیں سُنتا۔ میاں صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ اگلی بار آؤں گا تو جم کر ملاقات ہوگی، سارے گِلے شِکوے سُنوں گا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ یہ بات سُن کر مراد علی شاہ بُجھ سے گئے اور ناراضی چُھپا نہ سکے۔
میاں صاحب پھر غلطی کرگئے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سے یہ اُن کی پہلی ملاقات تھی۔ میر انیسؔ کا مقطع اُنہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے تھا ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
چند ایک زندہ یا مردہ شخصیات کے اہلِ خانہ کے لیے چند لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کرکے اہلِ کراچی کے دل جیتے نہیں جاسکتے۔ میاں صاحب کیا نہیں جانتے کہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے حوالے سے چوہدری نثار کی گل افشانی کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی مولا بخش اٹھالیا ہے یعنی مولا بخش چانڈیو کو اکھاڑے میں اتارا جاچکا ہے۔ دونوں جماعتیں بظاہر بیان بازی کے ذریعے باہمی تعلقات کے ماحول کا درجۂ حرارت بلند کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ کیا یہ وقت ایسے کاموں پر ضائع کرنے کے لیے ہے؟
کسی بھی اور معاملے کی طرح سیاست میں بھی سارا کھیل ٹائمنگ کا ہے۔ وقت ہی اصل دولت ہے۔ موقع ہاتھ سے جاتا رہے تو پھر کہاں ہاتھ آتا ہے؟ کسی نے خوب کہا ہے ؎
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میاں صاحب کی راہ میں ابتداء ہی سے مشکلات حائل رہی ہیں، رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ خود بھی وقت کی نزاکت کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!
میاں صاحب اور کچھ کریں نہ کریں، کم از کم اپنی طرف کی آگ تو بُجھائیں!
شہری سندھ کی مینڈیٹ ہولڈر ایم کیو ایم اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے۔ 22 اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکاء سے خطاب میں متحدہ کے قائد نے پاکستان کے خلاف جو کچھ کہا اُس کے بعد شہر میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی نوٹس لینا پڑا۔ ایسے میں وزیر داخلہ کو بھیج کر ایم کیو ایم کو دھڑوں میں تقسیم کرنے کی باتیں کروانا قرینِ دانش نہیں۔ وزیر اعظم کو ایک بار پھر کراچی جاکر مقامی اسیٹک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ معاملات خون خرابے کی منزل تک نہ پہنچیں اور ملک کو چلانے والا شہر چلتا رہے۔