سیانے کہتے ہیں ہر بحران کی کوکھ سے چند ایک مواقع بھی جنم لیتے ہیں۔ دیکھنے والی آنکھ میسّر ہو تو انسان ہر پریشانی کے پہلو بہ پہلو چند ایک امکانات بھی تلاش کرسکتا ہے اور کر ہی لیتا ہے۔ شخصی ارتقاء کے موضوع پر دادِ تحقیق دینے والے عشروں سے لکھ رہے ہیں کہ ہمیں کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں بالکل پریشان اور بے حواس نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ غور و فکر کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا چاہیے تاکہ بحرانی کیفیت کی جَڑ میں چھپے ہوئے امکانات کو تلاش کرکے نکالا جاسکے۔
دل و دماغ کی چُولیں ہلا دینے والا یہ فلسفیانہ نکتہ ہمیں ''تخت دِلّی‘‘ کے وزیر اعظم نریندر مودی کی مہربانی سے یاد آیا۔ اُن کی قیادت میں قائم حکومت ہمارے لیے قدم قدم پر مسائل پیدا کر رہی ہے، فتنے برپا کر رہی ہے۔ ایسے میں ہم ہیں کہ محض پریشان ہوئے جارہے ہیں۔ پل بھر کے لیے کوئی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ قدرت نے جب ہر شر کے پہلو میں خیر بھی رکھا ہے تو ہوسکتا ہے کہ مودی سرکار کے بظاہر پریشان کن اقدامات کے سَر پر ہمارے لیے چند ایک امکانات کا ٹوکرا بھی دھرا ہو۔
مودی سرکار نے کالے دھن کا سُراغ لگانے کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے کہ پوری قوم اُس قدم کا ساتھ دینے کے لیے تیز چلتے چلتے محض پندرہ دن گزرنے ہی پر ہانپنے لگی ہے۔ 500 اور 1000 کے نوٹوں کی تنسیخ کا فیصلہ پوری قوم پر بلائے ناگہانی کی صورت نازل ہوا ہے۔ جن کی جمع پونجی ہی بیس تیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں وہ بہت پریشان ہیں اور قطار بند ہوکر بینکوں سے نوٹ تبدیل کرانے کے لیے بے تاب ہیں۔ حکومت اعلان کرچکی ہے کہ منسوخ کیے جانے والے نوٹ 31 دسمبر تک تبدیل کرائے جاسکتے ہیں مگر عوام کی پریشانی ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہی۔ بینکوں کے باہر قطاریں ہیں کہ چھوٹی ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ دونوں بڑے نوٹ منسوخ کیے جانے کے اعلان کے فوراً بعد لوگوں نے بینکوں کے باہر بستر بھی لگالیے تھے! اب بوریا بستر تو کہیں دکھائی نہیں دیتا مگر صبح ہوتے ہی لوگ بینکوں کے باہر قطار بند ضرور نظر آتے ہیں۔
مودی سرکار سمجھ رہی ہے کہ نوٹ منسوخ کرکے اُس نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ جو لوگ نئی دہلی کے ایوان ہائے اقتدار کے ٹھنڈے، آرام دہ کمروں میں بیٹھے ہیں اُن کے نزدیک یقیناً معاملہ ایسا ہی ہے مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔ ملک بھر میں کروڑوں افراد پندرہ دن سے شدید ذہنی خلفشار کا شکار ہیں۔ لوگ نریندر مودی کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان کے خاصے ''ان سوشل‘‘ ریمارکس سوشل میڈیا پر سُنے جاسکتے ہیں! کالے دھن کا سُراغ لگانے اور کالا دھن رکھنے والوں کا ناک میں دم کرنے کا یہ کون سا کارگر طریقہ ہے جس نے پریشان حال عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے؟ بھارت کے 75 کروڑ سے زائد غریبوں کی زندگی میں پہلے ہی کیا کم پریشانیاں ہیں جو اُنہیں اب نوٹ تبدیل کرانے کی مشقت سے بھی دوچار کیا جارہا ہے؟
مودی سرکار کے ''دانش مندوں‘‘ نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ دونوں بڑے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے سے ملک بھر میں معاشی سرگرمیاں کس قدر متاثر ہوئی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شدید ذہنی کوفت کے باعث لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت خطرناک حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ملک بھر میں نچلی سطح پر کروڑوں نہیں تو لاکھوں سودے ضرور منسوخ ہوئے ہوں گے! اور اس کے نتیجے میں عوام آپس میں کس حد تک رنجشوں کا شکار ہوئے ہوں گے؟ خود بی جے پی کے ایک رہنما کے جگر کی پیوند کاری کھٹائی میں پڑگئی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ضلع تکم گڑھ کے قصبے لدھورا کے صدر ہری کرشن گپتا کے آپریشن کے لیے رشتہ داروں اور دوستوں نے مجموعی طور پر گیارہ لاکھ روپے عطیہ کیے ہیں مگر اسپتال کی انتظامیہ نے پرانے نوٹ لینے سے انکار کردیا ہے! پہلے ہی حوصلے ہارے ہوئے ہری کرشن گپتا اِس انکار سے جاں بہ لب ہوچلے ہیں! ایسے میں لوگ اگر سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نہ نکالیں تو اور کیا کریں؟
کرنسی نوٹ منسوخ کیے جاتے ہیں تو اُنہیں تبدیل کرانے کے لیے ایک معقول ٹائم فریم دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سال بلکہ اُس سے بھی زیادہ وقت دیا جاتا رہا ہے۔ مودی سرکار شاید عوام کو مزید دکھ دینا چاہتی تھی اس لیے محض 50 دن کی مہلت دی گئی۔
خیر، اِس پوری بحث سے ہمیں کیا۔ مودی سرکار جانے اور بھارت کے عوام جانیں جنہوں نے ووٹ دے کر خود کو ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی سے ڈسوانا قبول کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب بھارت واسیوں کو کچھ اندازہ ہو کہ جو سرکار خود اُن کا اِس قدر بھونڈے طریقے سے ناک میں دم کرسکتی ہے وہ پڑوسیوں کے لیے کیسی کیسی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہوگی! مگر شاید یہ ہماری خوش خیالی ہے۔ مسائل کی چَکّی میں پِسے ہوئے عوام اب اِتنا سوچنے کے بھی قابل کہاں رہے ہیں؟ کل تک انہیں کمانے سے فرصت نہ تھی اور اب کمائے ہوئے کاغذی زر کو کارآمد بنائے رکھنے فکر میں گُھلے جارہے ہیں!
یہ تو ہوئی شر کی بات۔ اب آئیے شر کے پہلو سے تھوڑا بہت خیر برآمد ہونے کے معاملے کی طرف۔ ایسا نہیں ہے کہ بینکوں کے باہر لگی ہوئی طویل قطاریں صرف بے حواسی میں اضافہ کرتی ہیں۔ کئی شہروں میں یہ قطاریں چند ایک خوش گوار واقعات کو جنم دینے کا باعث بھی بنی ہیں۔
ملک کے کئی حصوں سے خبریں موصول ہوئی ہیں کہ طویل قطاروں میں کھڑے ہونے والوں میں پہلے علیک سلیک ہوئی۔ رسمی دعا سلام نے باضابطہ گفتگو کی شکل اختیار کی اور پھر معاملہ جان پہچان کے مرحلے میں داخل ہوا۔ بینکوں کے باہر طویل قطاروں میں کھڑے ہوئے ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد میں دوستی ایسی پروان چڑھی ہے کہ شاید تاعمر رہے گی۔
اور تمام معاملات دوستی تک محدود نہیں رہے۔ بہت سے شہروں سے یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بینکوں کے باہر طویل قطاریں نوٹ کے ساتھ ساتھ دل بدلنے میں بھی معاون ثابت ہوئی ہیں۔ یعنی کھڑے کھڑے گفتگو ہوئی تو ''لا آف اٹریکشن‘‘ نے جادو جگایا اور دو دل اپنی اپنی ''عِلّتیں‘‘ جھاڑ کر یوں قریب آئے کہ معاملہ ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کے عہد و پیمان تک جا پہنچا۔
کچھ دِل ایسے بھی تھے جن کے درمیان ابھرنے والی دوستی نے ذرا سی دیر میں پرورش پاکر پہلے عمومی سطح کی پسندیدگی اور پھر خصوصی سطح کی محبت کا روپ لینے میں دیر نہیں لگائی! دارالحکومت نئی دہلی میں ایک لڑکا نوٹ تبدیل کرانے قطار میں کھڑا ہوا اور بیزاری دور کرنے کے لیے ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی سے گپ شپ شروع کی۔ لڑکی تو جیسے پہلے سے سوچ کر آئی تھی کہ بینک کی قطار میں سپنوں کا راج کمار بھی تلاش کرے گی۔ دس پندرہ منٹ کی گفتگو کے دوران دونوں تو خیر اپنی اپنی جگہ کھڑے رہے مگر دل نزدیک آتے گئے۔ دونوں کی زبان بول رہی تھی مگر آنکھیں زیادہ بول رہی تھیں! اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ دونوں بینک کی قطار سے الگ ہوئے اور مقامی عدالت میں میجسٹریٹ درجۂ اول کے سامنے قطار بند ہوگئے! بینک کے باہر والی قطار نوٹ بدلوانے کے لیے تھی اور میجسٹریٹ کے سامنے والی قطار دل ملانے والی تھی۔ ذرا سی دیر کی جان پہچان کو دونوں نے زندگی بھر کے رشتے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کورٹ میرج کرلی! اور ایک دہلی پر کیا موقوف ہے، بھارت کے کئی شہروں سے اِسی نوعیت کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
دیکھا آپ نے؟ مودی سرکار کا جو اقدام بظاہر عوام کے لیے شر ہی شر دکھائی دے رہا ہے اُس کے بطن سے کیسا بھرپور خیر کا پہلو برآمد ہوا ہے! آج کل میرج بیورو والے ایک رشتہ کرانے کے پانچ سے دس ہزار روپے لیتے ہیں۔ مودی سرکار کی مہربانی کہ اُس نے نوٹ بدلوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے دل ملادیئے اور وہ کسی میرج بیورو کو فیس کی مد میں ایک پیسہ بھی ادا کیے بغیر زندگی بھر کے لیے ایک ہوگئے۔ نریندر مودی چاہیں تو اگلی انتخابی مہم میں ایسے واقعات کو بھی اپنے کارناموں کی فہرست میں نمایاں مقام پر رکھ سکتے ہیں! بلکہ دِلوں کو ملانے والے ''کارنامے‘‘ یعنی بڑے نوٹ منسوخ کرنے کے فیصلے پر فخر کرتے ہوئے نریندر مودی کہہ سکتے ہیں ع
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارِ کردم!