ہم نے تو سُن رکھا ہے اور آپ نے بھی سُنا ہی ہوگا کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اِسی اصول کے تحت ہر اُس معاملے سے خوشی ملتی ہے جو دشمن کے لیے پریشانی کا باعث ثابت ہو۔ اگر اپنی فتح ممکن نہ ہو پائے تو دشمن کی شکست کو بھی اپنی ہی فتح مانتے ہوئے بھرپور خوشی، بلکہ جشن منایا جاسکتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دہلی کے رہنے والے پانڈے جی کا بیٹا ہائر سیکنڈری اسکول یعنی بارہویں جماعت کے بورڈ کے امتحان میں ناکام ہوگیا۔ بیٹے کی مارکس شیٹ دیکھ کر پانڈے جی کا پارہ چڑھ گیا اور اُنہوں نے بیٹے کو مغلظات سے نوازنا شروع کردیا۔ پانڈے جی مارکس شیٹ دیکھتے جاتے تھے اور بیٹے کی ''عزت افزائی‘‘ فرماتے جاتے تھے۔ قریب تھا کہ پانڈے جی مغلظات کی منزل سے ایک قدم آگے بڑھ کر بیٹے کی ''چھترول‘‘ کا فیصلہ فرماتے، کسی نے پانڈے جی کے کان میں کچھ کہا اور موسم تبدیل ہوگیا! بیٹے کو گالیاں بکتے بکتے پانڈے جی نے منہ کو بریک لگایا اور آگے بڑھ کر بیٹے کو گلے لگالیا۔ لوگ حیران رہ گئے کہ یہ پانڈے کو اچانک کیا ہوگیا۔ گھر والوں کے ذہن میں یہ خدشہ ابھرا کہ کہیں پانڈے جی کا ذہنی توازن تو بگڑ نہیں گیا!
بات یہ تھی کہ کسی نے اطلاع دی تھی کہ اُن کے دفتری حریف کا بیٹا بھی بارہویں کے امتحان میں فیل ہوگیا ہے اور معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔ اُس کے مجموعی مارکس پانڈے جی کے سپوت کے مجموعی مارکس سے کم تھے! پانڈے جی کے لیے یہ بھی خوش ہونے کا موقع تھا کہ حریف کے بیٹے کی طرح اُن کا بیٹا بھی فیل تو ہوا مگر مارکس زیادہ لاکر اُس نے خاندان کی ناک اونچی رکھی!
انسان بھی کیا کمال مخلوق ہے، کہاں کہاں سے خوشیاں کشید کرتا ہے! اور معاملہ محض خوشیاں کشید کرنے تک محدود نہیں، غم اگر آسانی سے نہ مل رہا ہو تو انسان کسی نہ کسی معاملے سے اپنے حصے کا غم بھی کشید کر ہی لیتا ہے۔ پانڈے جی بھی صرف خوش ہونے کے معاملے میں نہیں بلکہ دکھی ہونے کے معاملے میں بھی عجیب واقع ہوئے ہیں۔ پڑوسیوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ چند برس قبل پانڈے کی بیٹی نے اسکول میں ٹاپ کیا۔ پانڈے جی بہت خوش ہوئے مگر پھر کچھ ہی دیر میں اُن کی ساری خوشی کافور ہوئی اور اِس کا سبب یہ تھا کہ کسی اور اسکول میں اُن کے حریف کی بیٹی محض کامیاب ہوئی یعنی کوئی پوزیشن حاصل نہ کرسکی مگر اُس کے مجموعی مارکس پانڈے جی کی بیٹی کے مجموعی مارکس سے زائد تھے!
جب میڈیا کے نمائندوں نے پانڈے جی سے رابطہ کرکے اُن سے پوچھا کہ آخر وہ اپنے بیٹے کی ناکامی کے باوجود اِس قدر خوش کیوں ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ ''بیٹے نے واقعی میرا بھرم رکھ لیا ہے۔ لوگ کامیابی کے لیے محنت کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ میرے بیٹے نے میرے حریف کے بیٹے کو پیچھے چھوڑنے کی خاطر ناکام ہونے کے لیے کتنی محنت کی ہوگی۔ دہلی کے امتحانات میں نمبر تو ایسے ملتے ہیں جیسے کہیں شربت بٹ رہا ہو۔ ایسے میں نمبر لینا اُتنا مشکل نہیں جتنا نمبر نہ لینا!‘‘
اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ دونوں ہی کو فکر لاحق ہوئی کہ بیٹے کے فیل ہونے پر بھی مٹھائی بانٹنا، جشن منانا، بھنگڑا ڈالنا تو ذہنی خلل کی علامت ہے۔ سب نے مل کر طے کیا کہ پانڈے جی کا کیس نفسی پیچیدگیوں کے کسی ماہر کے سامنے رکھا جائے۔ ایک معروف سائکاٹرسٹ سے رابطہ کرکے اُنہیں پانڈے جی کی کہانی سُنائی گئی تو وہ جناب بھی دور کی کوڑی لائے۔ آں جناب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پورے معاملے کو پاکستان سے جوڑ دیا!
پاکستان کا نام سُنتے ہی بھارت کے عام باشندے اور بالخصوص ہندو بِدکنے لگتے ہیں۔ پانڈے جی کے گھر والوں نے جب سائکاٹرسٹ کی زبان سے پاکستان کا نام سُنا تو سہم گئے۔ بھارت کے ایک عام ہندو گھرانے کے خالص گھریلو معاملے میں پاکستان کی انٹری! ''ہائے رام‘‘ اور ''بھگوان ہماری رکشا کرے‘‘ کہتے ہوئے سب نے دل تھام لیے۔ دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں خفیہ ایجنسیوں کو بھنک بھی پڑگئی تو وہ ''پاکستانی لِنک‘‘ کے بارے میں پوچھنے آ دھمکیں گی!
جب پوچھا گیا کہ ''پاکستانی سِنڈروم‘‘ کیا ہوتا ہے تو سائکیاٹرسٹ نے کہا کہ ''پانڈے جی کے ذہن میں خالص پاکستانی ذہنیت در آئی ہے۔ (یہاں بھی در اندازی کا الزام!) جب کوئی ناکام ہوتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے مگر یہ دکھ دشمن کو بھی ناکام دیکھ کر مِٹ جاتا ہے۔ پاکستان جب کسی بڑے ٹورنامنٹ میں بھارت سے ہار جاتا ہے تو پوری قوم سوگ میں ڈوب جاتی ہے۔ مگر جب اُسی ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے میں بھارتی ٹیم کسی سے شکست کھاکر ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائے تو پاکستانیوں کے دِل اور چہرے کِھل اٹھتے ہیں۔ اپنی شکست کا غم بھول کر بھارت کی شکست پر جشن منایا جانے لگتا ہے، مٹھائی تقسیم کی جانے لگتی ہے۔ پانڈے جی کا معاملہ بھی کچھ کچھ ایسا ہی ہے۔ بیٹے کے فیل ہونے کا غم ضرور تھا مگر یہ غم اُس وقت دور ہوگیا جب حریف کا بیٹا بھی فیل ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کُھلا کہ بیٹے کے مارکس زیادہ ہیں!‘‘
سائکاٹرسٹ نے اپنی ماہرانہ رائے تو دے دی مگر یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کی شکست پر بھارت میں جشن منانے والوں کی تعداد پاکستانیوں سے کم از کم سات گنا ہوتی ہے! تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ بھارت میں لاکھوں، بلکہ کروڑوں پانڈے جی ہوں گے جو پاکستان کی ناکامی کے منتظر رہتے ہوں گے کہ یہ ہارے تو جشن منایا جائے۔ اگر اُس سائکاٹرسٹ کو اپنی مہارت پر اِسی قدر ناز ہے تو ذرا اِس نکتے پر بھی غور کرے کہ بھارتی قوم کو سب سے ہارنا منظور ہے، پاکستان کے ہاتھوں شکست کسی طور قبول نہیں۔ اور اگر اِس کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی کا سہارا بھی لینا پڑے، کچھ بارگیننگ بھی کرنا پڑے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ کسی ٹورنامنٹ میں اگر پاکستان سے سامنا ہو جائے تو عزت بچانے کے لیے حکومتی سطح پر بھی رابطہ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز کو بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ورلڈ کپ وغیرہ میں پاکستان سے ہارے تو نوبت حکومت کے گِرنے تک پہنچ سکتی ہے! پانڈے جی کے حوالے سے ماہرانہ رائے دینے والے سائکاٹرسٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے معاملے میں دوسروں کی فتح کے منتظر رہتے ہیں یعنی دونوں طرف ایک ہی سِنڈروم کام کر رہا ہے! گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!