"MIK" (space) message & send to 7575

بات بے بات کیوں پریشانی؟

دنیا کا سب سے آسان کام ہے پریشان ہونا۔ اس میں کچھ سرمایہ لگتاہے نہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ بس پریشان ہونے کا سوچیے اور پریشان ہوتے رہیے۔ اور کبھی کبھی تو سوچنا بھی نہیں پڑتا کیونکہ پانی کی طرح پریشانی بھی اپنا راستہ خود نکال لیتی ہے۔
انسان اگر پریشان ہونے یا ہر وقت پریشانی میں مبتلا رہنے کی ٹھان لے تو وجوہ کی کمی ''تھوڑی نا ہے!‘‘ اب اہلِ بھارت ہی کی مثال لیجیے۔ ایک زمانے سے انہوں نے پتھر پر لکیر کی طرح طے کر رکھا ہے کہ پاکستان کو ''لے کر‘‘ کسی نہ کسی معاملے میں پریشان ہوتے ہی رہنا ہے۔ ایسا کرنا بے غایت ہرگز نہیں۔ انسان کا عمومی مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے غلط کاموں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یعنی کوئی ڈسٹ بن چاہیے جس میں اپنا کچرا پھینکا جاسکے۔ بھارت کی بیشتر سیاسی جماعتیںاپنے ہمسایہ ممالک کو ڈسٹ بن سمجھ کر اپنی پیدا کی ہوئی گند اُس میں ڈالنے کے بعد سکون کے سانس لیتی ہیں۔ یہی حال اب بھارتی جنتا کا ہے۔ وہ ہر معاملے میں پاکستان کی بُو سُونگھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور جہاں کہیں بھی پاکستان کی بُو مل جائے سمجھ لیجیے اُس کی چاندی ہو جاتی ہے یعنی پریشان ہونے اور پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کا موقع مل جاتا ہے!
کان پور بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا اہم صنعتی شہر ہے۔ اس شہر میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ شہر کی فضاء کبھی کبھی خاصی کشیدہ ہو جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکن مسلمانوں کو پریشان کرنے کے فراق میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح ہر معاملے میں پاکستان کو گھسیٹ کر دل کی بھڑاس نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
چار دن قبل کان پور میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک صاحب نے اپنی بچی کی سالگرہ کے لیے جنرل اسٹور سے غباروں کا پیکٹ خریدا۔ گھر لاکر جب یہ پیکٹ کھولا اور غبارے پُھلائے تو وہاں موجود تمام افراد کے منہ پُھول گئے! منہ بھلا کیوں نہ پُھولتے؟ پُھلائے جانے والے غباروں پر ''آئی لو پاکستان‘‘ جو پرنٹ کیا گیا تھا!
ہندی کا معروف اخبار ''جاگرن‘‘ لکھتا ہے کہ بچی کی سالگرہ کے لیے پُھلائے جانے والے غباروں پر ''آئی لو پاکستان‘‘ کے الفاظ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور، جیسا کا خدشہ تھا، پوری کالونی پر سکتہ طاری ہوگیا! لازم ہوگیا کہ اس ''خطرناک‘‘ معاملے کی اطلاع پولیس کو دی جائے۔ پاکستان کا نام آئے اور بھارتی پولیس دَم سادھے بیٹھی رہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ خبر پاتے ہی پولیس فوراً ایکشن میں آگئی اور تحریری رپورٹ کی بنیاد پر اُس دکان تک پہنچ گئی جس کے باعث ''قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تھا‘‘ یعنی جہاں سے غبارے سے خریدے گئے تھے۔ تفتیش کا آغاز ہوا۔ دکان دار کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند غبارے پورے علاقے میں اس قدر سنسنی پُھلادیں گے! پولیس نے دانشوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ''حساس‘‘ معاملے کی چھان بین اس سوچ کے ساتھ شروع کردی کہ ''آئی لو پاکستان‘‘ والے غباروں کی فروخت کا مقصد کہیں معاشرے میں شدید خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا تو نہیں!
کسی معاملے میں پاکستان کا نام آرہا ہو اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکن نچلے بیٹھے رہیں؟ یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ''اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ کے مصداق ''آئی لو پاکستان‘‘ والے غباروں کی اطلاع ملتے ہی بی جے پی کے کارکنوں کے دل ''قومی غیرت‘‘ سے اور جسم جوش و جذبے سے پُھول گئے اور اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے فوری طور پر از خود نوٹس کے تحت سڑک پر آکر احتجاج شروع کردیا۔ خبر میں کہیں ذکر تو نہیں ہے مگر ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ معاملہ بھی آئی ایس آئی کی چوکھٹ تک پہنچانے میں دیر نہ لگائی ہو! سیدھی سی بات ہے، اتنے ''گمبھیر‘‘ معاملے میں وہ آئی ایس آئی کو ملوث نہ کرتے تو ضمیر پر بوجھ رہ جاتا!
ہم نے کالم کی ابتداء میں عرض کیا تھا کہ انسان اگر پریشان ہونے کی ٹھان لے تو بہانوں کی کمی ہے نہ اسباب کی۔ قدم قدم پر ایسے معاملات راہ میں پڑے مل جاتے ہیں جنہیں بنیاد بناکر انسان پریشانی کے دریا میں ''دے مار ساڑھے چار‘‘ قسم کی ڈبکیاں لگا سکتا ہے۔ بھارتی معاشرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ پاکستان کو بنیاد بناکر ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہونا اور بدکنا اب اِس معاشرے کا عمومی مزاج ہوتا جارہا ہے۔ سیکرٹ سروس کس کام کے لیے ہوتی ہے یہ تو ہمیں زیادہ معلوم نہیں مگر اتنا اندازہ ہم ضرور لگا سکتے ہیں کہ ایسا اہم سیٹ اپ کسی بڑے کام ہی کے لیے قائم کیا جاتا ہوگا۔ کسی بڑے معاملے میں سیکرٹ سروس کا ریسپانس کیا ہوتا ہوگا یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں، پاکستانی علاقے سے کوئی کبوتر بھارتی علاقے میں داخل ہو جائے تو بے چاری سیکرٹ سروس کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ اور اگر کبوتر کے پیروں میں کوئی کاغذ بندھا ہوا ہو اور اُس پر کوئی فون نمبر بھی (فرضی ہی سہی) درج ہو تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں! اہلکاروں کی سِٹیاں اور حواس ... سبھی کچھ گم ہو جاتا ہے۔
جب کبھی پاکستان سے کوئی کبوتر بھارتی علاقے میں گیا ہے وہاں ایک ہنگامہ برپا ہوا ہے اور متعلقہ پولیس اسٹیشن اور حساس اداروں کی نیند اُڑی ہے۔ نیند بھلے ہی اُڑتی ہو اور دوڑیں بھی لگتی ہوں مگر ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات کے رونما ہونے پر بھارتی سیکرٹ سروس اور متعلقہ پولیس سکون کا سانس بھی لیتی ہوگی کہ نوکری کا جواز تو پیدا ہوا، کچھ ''کر دکھانے‘‘ کا موقع تو ہاتھ آیا! بزرگوں نے کہا ہے کہ بے کار مباش، کچھ کیا کر۔ بھارتی سیکرٹ سروس اِس مقولے پر خوب عمل کرتی ہے اور ساری محنت پاکستانی کبوتر یا غباروں کو پکڑنے پر صرف کرتی ہے۔ بعض اوقات پاکستانی علاقے سے بھارت میں داخل ہونے والے گیس کے غباروں کو بھی دشمن کا ''ہتھکنڈا‘‘ سمجھتے ہوئے چیک کیا گیا کہ کہیں اُس میں سرویلنس کیمرا تو نصب نہیں! خدا جانے یہ کون لوگ عقل سے کام لینا کب سیکھیں گے؟ پاکستان کا نام آئے تو یہ ذرا ذرا سی بات پر بے حواس ہو اُٹھتے ہیں۔ قدم قدم پر ع
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
والی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ کہاں تو علاقائی سپر پاور ہونے کے دعوے اور کہاں پاکستان کے کبوتروں اور غباروں سے سہم سہم جانا! جن کے ارادے بلند ہوں وہ کبوتروں اور غباروں کی نیچی اُڑان میں الجھنا پسند نہیں کرتے۔ مگر صاحب، مُلّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق بھارتی حساس اداروں کی دوڑ صرف پاکستان اور اس کے بھی معمولی واقعات تک ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں ااتا کہ پاکستانی کبوتروں یا غباروں کے ہاتھوں بھارت میں خطرے کے گھنٹے کب تک بجتے رہیں گے! کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ بات بات پر خطرہ کس بات سے محسوس ہوتا ہے۔ ایسی اور اس قدر بے اعتمادی کیوں ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں