"MIK" (space) message & send to 7575

لوگ سمجھاتے رہ گئے…

اب تک دنیا میں کوئی ایسا عامل سامنے نہیں آیا جو عشق کا بھوت اتارنے کا دعوٰی کرے اور پھر اُس دعوے پر کامیابی سے عمل بھی کر دکھائے۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ جسے یہ بھوت چمٹ گیا وہ پھر کسی کا‘ یا کسی کام کا نہ رہا۔ زمانہ ایک طرف اور محبوب ایک طرف۔ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی دیتا ہے۔ کوئی لاکھ سمجھائے، کسی نے نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہو تو کوئی بھی بات کیونکر سمجھ میں آئے؟ اور جب بات سمجھ ہی نہیں نہ آئے تو اُس پر عمل کیوں اور کیونکر کیا جائے؟ ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو 
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
ایک زمانے سے ہم جو کچھ پڑھتے، سنتے اور دیکھتے آئے ہیں اُس کی بنیاد پر بلاخوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ کہیں دل لگانے کے بعد انسان کسی اور کا تو کیا، اپنا بھی نہیں رہ پاتا۔ کھانے کا ہوش رہتا ہے نہ پینے کا۔ اردو شاعری اِس حوالے سے سو طرح کے انتباہی پیغامات سے بھری پڑی ہے۔ ہزاروں فلمی گانے ہیں جن میں گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے رو رو کر التجا کی ہے کہ کہیں دل نہ لگانا، نہ کسی کو دل دینا کہ اِس کے بعد انسان کہیں کا نہیں رہتا مگر جس نے یہ طے کر لیا ہو کہ زمانے بھر سے بغاوت کرکے کہیں دل لگانا ہے یعنی دل کو ٹھکانے لگانا ہے‘ وہ جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے‘ آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ‘ اپنے من کی مرضی کر بیٹھتا ہے۔ یہ بڑی سحر انگیز کیفیت ہوتی ہے۔ جس طور ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سُوجھتا ہے‘ بالکل اُسی طرح عشق کے اندھے کو محبوب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا! ہر شے میں محبوب کی جھلک ملتی ہے۔ اور جھلک بھی ایسی بھرپور کہ باقی سارے نظارے ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگتے ہیں! مگر یہ سب کچھ ایک خاص وقت تک چلتا ہے۔ کچھ ہی وقت گزرتا ہے کہ عاشقِ محترم کے ہوش ٹھکانے آنے لگتے ہیں۔ عشق کی خواب نگری سے جب حقیقت کی دنیا میں واپسی ہوتی ہے تب سنگین مسائل زندگی میں انٹری دیتے ہیں اور اِس کے بعد عاشقِ محترم کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ 
بعض اوقات ہزار سرد و گرم دیکھ چکنے والے بزرگ بھی سادگی کے عالم میں غلط مشورہ دے بیٹھتے ہیں۔ نئی نسل کو تعلیم کی اہمیت سمجھاتے ہوئے وہ اکثر کہہ جاتے ہیں ''بیٹا، دل لگا کر پڑھو‘‘۔ بس، یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔ نئی نسل بزرگوں کی دیگر باتوں کو قبول کرے نہ کرے، یہ مشورہ ضرور قبول کرتی ہے۔ یہ مشورہ دیتے وقت بزرگوں کو شاید یاد نہیں رہتا کہ دل لگانے کے بعد بھی کبھی کوئی پڑھ سکا ہے؟
مثل مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جس نے کہیں دل لگا لیا ہو وہ بھی لاتوں کا بھوت ہو جاتا ہے۔ باتوں کی مدد سے کتنا ہی سمجھائیے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ امریکی ریاست ہوائی کے دارالحکومت ہونولولو میں کچھ ایسا ہی عجیب رونما ہوا۔ 30 ڈورین ینگ نے دل لگانے کی عجیب سزا پائی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ینگ کا دل کسی پر آ گیا۔ کچھ دن اچھے گزرے۔ عاشق ڈھیل دیتا رہا اور معشوق پتنگ کی طرح اونچی اڑتی رہی۔ مگر ظالم زمانے کو یہ کھیل زیادہ دیر کہاں پسند آتا ہے؟ حاسدوں کی نظر لگ گئی۔ دونوں میں اَن بَن ہوگئی۔ ینگ کے لیے یہ ان بن سوہانِ روح تھی۔ وہ بے چارہ یہ نہ سمجھ پایا کہ حُسن والوں کے تو یہی طور ہوا کرتے ہیں۔ یہ بھلا کب کسی کے ہوئے ہیں جو اِس کے ہوتے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھنے میں ینگ ناکام رہا اور جس کے سامنے پھولوں کے ڈھیر لگایا کرتا تھا‘ اُس کے سامنے دلائل کے انبار لگانا شروع کر دئیے مگر سنگ دل محبوب قدموں میں نہ گِرا۔ گرتا بھی کیسے؟ اُس نے تو عشقیہ سٹیٹس کو اَپ ڈیٹ کر لیا تھا یعنی پارٹی بدل لی تھی۔ اگر دل پگھلتا تو دوسری پارٹی نالش کر بیٹھتی۔
جب ینگ نے منانے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو سابق محبوبہ نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ینگ کو حکم دیا کہ بس، اب بس بھی کرو اور جسے چاہا تھا اُسے اَن چاہا کر دو۔ مگر ینگ سے یہ نہ ہو سکا۔ جب وہ نہ مانا تو عدالت نے اُسے باضابطہ حکم دیا۔ یہ حکم بھی ینگ کے سَر سے عشق کا بھوت نہ اتار سکا۔ سابق محبوبہ نے پھر عدالت سے رجوع کیا اور بتایا کہ پچھلی پارٹی اُس کی نئی پارٹی کو بدظن کر رہی ہے۔ ینگ کی دیوانگی اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ اُس نے عدالتی حکم کو ''بالائے طاق کے بھی اوپر‘‘ رکھتے ہوئے صرف تین گھنٹے میں 144 فون کالز کیں اور ٹیکسٹ میسیج بھیج دیئے۔
جج صاحب شاید خود بھی کسی کے ستائے اور جلائے ہوئے تھے، ایسی غضب ناک حکم عدولی دیکھ کر بھنّوٹ ہوگئے۔ اُن کا مَتّھا گھوم گیا۔ ینگ کو طلب کیا گیا۔ عدالتی احکام پر دل کی فرمائش کو ترجیح دینے کی پاداش میں ینگ کو 157 دن قید اور 2400 ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ مگر جج صاحب اتنے تپے ہوئے تھے کہ اتنی سزا سے بھی اُن کی تشفّی نہ ہوئی۔ ینگ کے لیے کچھ اضافی سزا بھی ضروری سمجھی گئی۔ عشق کا بھوت سَر سے اتارنے کے لیے اُسے حکم دیا گیا کہ 144 بار سابق محبوبہ کی تعریف کرے اور ہر جملہ پچھلے جملے سے مختلف ہو۔
ینگ کو اب پچھتاوے اور پریشانی دونوں کا سامنا ہوگا۔ اگر وہ اردو داں ہوتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ ع 
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے!
دل لگانے کا انجام کیا ہو سکتا ہے‘ یہ تو دل لگانے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ خیر، زیادہ مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ تیسری سزا پر عمل کے بطن سے چند خوشگوار نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سزا کی مؤثر تکمیل پر ینگ ایک اچھا فکشن رائٹر بن کر اُبھر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زندگی میں روحانیت کا ٹَچ بھی شامل ہو سکتا ہے کیونکہ جس کی شکایت پر یہ سزا ملی اُسی کی تعریف کرنا پڑی۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ ینگ کو دی جانے والی سزا دراصل قدرت کی طرف سے اُس کے لیے ایک نئے کیریئر کی نوید ہے۔ ایک ہی بات کو 144 طریقوں سے کہنے کا فن ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرنے والے کی صلاحیت اور سکت کو خراجِ تحسین پیش کرنا تو بنتا ہے۔ ینگ اگر چاہے تو اپنے ہی معاشرے میں فکشن رائٹر کی حیثیت سے بھی تھوڑا بہت نام کما سکتا ہے مگر ہمارا مشورہ یہ ہے کہ سزا کی کامیاب تکمیل پر وہ پاکستان چلا آئے۔ ایک ہی بات کو 144 طریقوں سے کہنے کا ہنر اُسے ٹی وی کے کامیاب تجزیہ کاروں کی صف میں انٹری دلا سکتا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جس نے کہیں دل لگا لیا ہو وہ بھی لاتوں کا بھوت ہو جاتا ہے۔ باتوں کی مدد سے کتنا ہی سمجھائیے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ امریکی ریاست ہوائی کے دارالحکومت ہونولولو میں کچھ ایسا ہی عجیب رونما ہوا۔ 30 ڈورین ینگ نے دل لگانے کی عجیب سزا پائی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں