انسان کو کسی حال میں قرار ہے نہ وہ کسی حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ رب العالمین نے انسان کو جلد باز اور ناشکرا قرار دیا ہے اور ملائک کی زبانی بھی فسادی ہونے کی ''سند‘‘ دلائی ہے۔ صلح اور اصلاح کی سبیل کم کم نکالی جاتی ہے اور لڑنے بھڑنے کے بہانے خوب سوچے اور تراشے جاتے ہیں۔ جب لڑنے کا ٹھوس بہانہ یا جواز مل جائے تو میدانِ جنگ کا سوچا جاتا ہے مگر اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا جاتا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ صدر ہر جا کہ نشینست صدر است۔ یعنی صدر چاہے جہاں کہیں بیٹھے، وہ صدر ہی ہوتا ہے۔ یہی حال کارزار کا ہے۔ جہاں جی چاہے لڑ لیجیے، وہ مقام میدانِ جنگ ہو ہی جائے گا!
زمین اب شاید کم پڑگئی ہے یا تنگ ہوگئی ہے اس لیے انسان فضاء کو میدانِ جنگ میں تبدیل کرنے پر تُل گیا ہے۔ گزشتہ اتوار کو بھارت کی فضاء میں ایسا ہی کچھ ہوا۔ ہندوؤں کی مقدس لڑائی مہا بھارت کا میدان یعنی کروک شیتر موجودہ ریاستِ ہریانہ میں واقع ہے مگر ایک ایرانی جوڑے نے کروک شیتر سے بہت دور جنوبی بھارت کی فضاء میں اپنا کروک شیتر کھڑا کیا!
معاملہ یہ ہے کہ ایک ایرانی جوڑا اپنے بچے کے ساتھ قطر ایئر ویز کے طیارے میں سوار ہوکر قطر کے دارالحکومت دوہا سے انڈونیشیا کے جزیرے بالی روانہ ہوا۔ راستے میں بیگم صاحبہ نے معمول سے کچھ زیادہ پی لی اور پھر بھرپور خماری کے عالم میں بھی اتنا ہوش ضرور باقی رہا کہ اُنہیں میاں کا موبائل چیک کرنے کی سُوجھی! میاں جی سو رہے تھے۔ محترمہ نے شوہرِ نامدار کا انگوٹھا لگاکر اُن کا موبائل آن کرلیا۔ اب بیگم صاحبہ نے موبائل کا محاصرہ کرکے سرچ آپریشن شروع کیا۔ سرچ آپریشن ذرا سی دیر میں آپریشن کلین اپ میں تبدیل ہوگیا۔ موبائل کے خفیہ و عیاں خانوں سے بہت سی غیر عورتوں کی تصاویر، وڈیوز اور کانٹیکٹ نمبرز دریافت ہوئے۔ بھرپور خماری کی حالت میں بھی بیگم صاحبہ نے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگالیا کہ میاں جی جہاں تہاں منہ مارتے پھر رہے ہیں یعنی دھڑلّے سے بے وفائی فرما رہے ہیں۔ آن کی آن میں نشے کا گراف نیچے آگیا اور بیگم صاحبہ نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے میاں جی کو جھنجھوڑ کر خوابِ غفلت سے جگایا۔ اور اِس کے بعد طیارے میں ایسا ہنگامہ برپا ہوا کہ گہری نیند میں ڈوبے ہوئے دوسرے بہت سے مسافر بھی جاگنے پر مجبور ہوگئے۔
میاں کی بے وفائی پر بیگم صاحبہ گھر جاکر بھی لڑ سکتی تھیں مگر اُنہوں نے فضائی سفر کو اپنے ساتھ ساتھ اوروں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ ''یادگار‘‘ بنانے کی ٹھانی اور میاں کی کھنچائی شروع کردی۔ شروع میں تو میاں کو بیوی کی صرف چیخ پکار سنائی دی مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ قیامت برپا کیوں ہوئی ہے۔ پھر جب بیگم صاحبہ نے موبائل فون کا ڈیٹا بھرے طیارے میں یعنی ہجوم کے درمیان میاں کے سامنے رکھا تو چند ساعتوں کے لیے اُن کے بھی ہوش اُڑ گئے۔ مگر خیر، ہوش اُڑنے کا معاملہ میاں تک محدود نہ رہا۔ جب خمار آلود بیگم صاحبہ نے چیخ چیخ کر پورے طیارے کا آسمان سر پر اُٹھالیا تب باقی تمام مسافروں کے بھی ہوش اُڑ ہی گئے۔
کیبن کریو فوراً حرکت میں آیا اور ایرانی بیگم صاحبہ کو سمجھا بُجھاکر کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور یہ باور کرانا چاہا کہ سارا جھگڑا یہیں نہ کریں، کچھ گھر کے لیے بھی اُٹھا رکھیں۔ مگر وہ کہاں ماننے والی تھیں؟ کیبن کریو نے جب اُنہیں پکڑنے کی کوشش کی تو وہ مغلظات بکنے پر اُتر آئیں۔
جب مرکزی پائلٹ کو اس ہنگامے کی اطلاع ملی تو، جیسا کہ پائلٹس کے ساتھ عموماً ہوتا ہے، وہ گھبرا گیا اور بھارتی حکام کو اطلاع دے کر چنائی (مدراس) ایئر پورٹ پر ایمرجنسی لینڈنگ کردی۔ آپس کے جھگڑے میں مسافروں اور طیارے کے عملے کا ناک میں دم کرنے والے ایرانی جوڑے کو بچے سمیت چنائی ایئر پورٹ پر اتار کر پائلٹ طیارہ بالی لے گیا۔
طیارے سے اُتارے جانے پر محترمہ کا نشہ ہرن ہوگیا اور کچھ ہی دیر میں ہوش ٹھکانے آگئے۔ مگر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا یعنی طیارہ اُڑن چُھو ہوچکا تھا۔ بھارت کا ویزا نہ ہونے کے باعث اس ایرانی گھرانے کو دس گھنٹوں تک پولیس کی حراست میں رکھا گیا۔ رات دس بجے اِنہیں کسی اور ایئر لائن کی پرواز سے بالی روانہ کیا گیا۔
یہ بھی خوب رہی۔ جھگڑا کسی کا اور بُھگتا کسی نے۔ میاں کی بے وفائی پر بیوی کا بھڑک اُٹھنا قرین قیاس تھا مگر ایمرجنسی لینڈنگ؟ مسافروں کا وقت ناحق ضائع ہوا اور ساتھ ہی ساتھ قطر ایئر ویز کو مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ جو کچھ بھی ہوا وہ عجلت کا نتیجہ تھا۔ بیوی کو شوہر سے جھگڑنے کی جلدی تھی اور پائلٹ کو گھبراہٹ میں صورتِ حال پر قابو پانے کی خاطر ایمرجنسی لینڈنگ کی جلدی تھی۔
موبائل آن ہو ہی گیا تھا اور میاں کے کرتوت سامنے آہی چکے تھے تو جھگڑا گھر پہنچ کر بھی کیا جاسکتا تھا مگر نہیں صاحب، ایسی حالت میں تماشا کیسے بنتا اور یہ خالص گھریلو معاملہ مرکزی و متوازی میڈیا میں وائرل کیسے ہوتا! میڈیا کی جے جے کار کے اِس دور میں انسان کو ایک بہت بُری لت لگ گئی ہے... یہ کہ ہر معاملے کو کسی نہ کسی طور کوئی ایسا رنگ دیا جائے کہ دل کی بھڑاس بھی نکل جائے اور بات وائرل بھی ہو جائے تاکہ لگے ہاتھوں تھوڑی بہت شہرت بھی بٹوری جاسکے!
سوشل میڈیا کا چلن جب سے عام ہوا ہے، لوگ رائی سے پہاڑ بنانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھی اُڑتے ہوئے تیروں کو بھی اپنی طرف آنے کی دعوت دے دی جاتی ہے یعنی مصیبت کسی اور کے نام کی ہوتی ہے مگر لوگ بخوشی گلے لگاتے ہیں اور سنگین نتائج بھگتتے ہوئے صرف اِتنا چاہتے ہیں کہ معاملہ وائرل ہوجائے! بہت سے لوگ محض حصولِ شہرت کے لیے کوئی بھی پریشانی اپنے نام کرلیتے ہیں اور تاثر یہ دیتے ہیں کہ ؎
خنجر چلے کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!
''وائرل ازم‘‘ کا وائرس اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب تو ذرا ذرا سی بات کو بھی ایونٹ میں تبدیل کیا جانے لگا ہے۔ موٹر سائیکل اوور ہوجائے اور تیل یا پٹرول گرنے لگے تو لوگ وڈیو بناکر اپ لوڈ کردیتے ہیں! موٹر سائیکل پنکچر ہوجائے تو اِس سے پہلے کہ پنکچر والا وھیل کھولے، صاحب اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیتے ہیں! کوئی سڑک پر گر پڑے تو کچھ دیر (از خود نوٹس کے تحت) پڑا ہی رہتا ہے کہ کوئی وڈیو ہی بنالے! بیماری دن بہ دن پختہ سے پختہ تر ہوتی جارہی ہے یعنی لوگ ہر معاملے کے وِیوئلز محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ کل کو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو تکفین کے بعد قبرستان لے جایا جارہا ہو اور وہ کفن سرکاکر اطمینان کرے کہ لوگ اُس کے آخری سفر کی وڈیو تو بنارہے ہیں نا!
اگر کوئی اچھی بات وائرل ہو تو کچھ مضائقہ نہیں مگر یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر منفی یا غیر متعلق معاملہ وائرل ہو رہا ہے اور دوسروں کو بھی تحریک دے رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ اوٹ پٹانگ کرو اور دنیا بھر میں دیکھے جاؤ! خدا ہی جانے کہ انسان کی جبلّی عجلت پسندی کے ہاتھوں چڑھنے اور پروان چڑھنے والا ''وائرل ازم‘‘ کا بخار کب اُترے گا۔