"MIK" (space) message & send to 7575

سُدھرنے کا موسم کب آئے گا؟

کسی بھی مہذب اور منظم معاشرے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ مجموعی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ میں بھی اچھی زندگی بسر کروں اور فریقِ ثانی بھی اچھی زندگی بسر کرنے کے حق سے محروم نہ ہو۔ سیلف ہیلپ کی کتابوں میں اس حوالے سے ''وِن وِن سچویشن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ‘یعنی جیتیں سب اور شکست سے کوئی بھی دوچار نہ ہو۔ 
ایک زمانے سے پاکستان میں اجتماعی یا اجمالی کیفیت یہ ہے کہ کسی بھی طرف سے ہونے والی زیادتی کا بدلہ کسی سے بھی لے لیا جائے اور پھر معاملہ محض بدلہ لینے تک محدود نہیں۔ بدلہ لینے کی ذہنیت بالعموم زیادتی کی طرف لے جاتی ہے ‘یعنی مظلوم ہی ظالم بن جاتا ہے۔ مہنگائی سے لڑنے کے معاملے میں ہمارے ہاں یہی ذہنیت کارفرما رہی ہے؛ اگر کسی چیز کے نرخ میں محض 5 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘ تو اس اضافے کو کم و بیش 25 30 فیصد بڑھاکر آگے بڑھادیا جاتا ہے۔ کوئی جواز طلب کرے ‘تو محض مشتعل ہونے اور لڑنے جھگڑنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ 
کراچی‘ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں ایک طویل مدت سے ماس ٹرانزٹ کا معاملہ دگرگوں رہا ہے۔ حکومتوں نے عوام کو یومیہ سفر کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگوں کو کام پر جانے اور شام کو گھر واپس آنے میں عذاب کی سی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ دس بیس ہزار یا لاکھ دو لاکھ افراد کا نہیں۔ ملک بھر میں روزانہ کروڑوں افراد کو معاشی سرگرمیوں کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے اور یہ سفر اُنہیں کام سے زیادہ تھکا دیتا ہے۔ 
پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ تقریباً پورا کا پورا نجی شعبے کے ہاتھ میں ہے۔ چند ادارے ہیں ‘جو شہروں اور صوبوں کے درمیان بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں اور شہروں کے اندر چند ٹرانسپورٹرز بڑی گاڑیاں اور عوام میں سے کچھ لوگ رکشا یا ٹیکسی چلاتے ہیں۔ یہ سب کچھ چونکہ نجی سطح پر ہو رہا ہے‘ اس لیے جس کا جتنا وصول کرنے کو جی چاہے‘ وصول کرکے دم لیتا ہے۔ 
کراچی میں جو لوگ بارہ پندرہ لاکھ کی کوچ لے کر سڑک پر آتے ہیں‘ وہ فی کس 15 سے 50 روپے تک کرایا وصول کرتے ہیں۔ یہ کرائے بھی اب بڑھائے ہیں۔ کوچ اور ویگن کے ذریعے خاصے طویل فاصلے قدرے کم کرائے میں طے کیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف محض ڈیڑھ دو لاکھ کا سی این جی رکشا لے کر سڑک پر آنے والے فی سوار 60 اور 70 روپے تک وصول کرتے رہے ہیں۔ یہ ذکر ہے‘ اُن سی این جی رکشوں کو جنہیں پیسنجر وین کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ رکشے میں انفرادی حیثیت میں بیٹھنے کے خواہش مند افراد کو غیر معمولی کرایا ادا کرنا پڑتا ہے۔ محض ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے لیے رکشے میں بیٹھیے تو 80 تا 100 روپے لینا عام ہے؛ اگر رکشے میں 15 تا 20 کلومیٹر سفر کیجیے تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ منہ پھاڑ کر کرایا مانگا جاتا ہے اور اس معاملے میں سب نے ''ایکا‘‘ بھی کر رکھا ہے۔ بس سٹاپ پر کھڑے ہوئے کسی بھی رکشے والے سے کہیں چلنے کو کہیے‘ یکساں کرایا بتائے گا۔ کاش کہ ایسا ''ایکا‘‘ پوری قوم میں ہو! 
ٹیکسیوں کا معاملہ اور بھی بُرا ہے۔ ٹیکسی والوں نے طے کرلیا ہے کہ خواہ کہیں جانا ہو‘ ڈھائی تین سو روپے سے کم کی سواری بٹھانی ہی نہیں۔ محض چار پانچ کلو میٹر جانے کے لیے بھی کہیے تو ڈھائی تین سو روپے طلب کیے جاتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں ٹیکسی کو دیکھتے ہی غیر معمولی کرائے کا تصور ابھرتا ہے اور وہ پوچھنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ حکومت کسی کو بھی رکشا یا ٹیکسی چلانے کی اجازت اس لیے دیتی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت ملے اور وہ سفر میں آسانی محسوس کریں۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ رکشا یا ٹیکسی چلانے والوں نے مسافروں کی کھال اتارنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ 
کراچی میں ٹیکسی اور رکشے کی آن لائن سہولت فراہم کرنے والے ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اپنی ایپ کے ذریعے کسی بھی شہری کو اُس کے دروازے پر پک اور ڈراپ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کرائے بھی معقول ہیں۔ کراچی میں اس حوالے سے جو دو بڑے ادارے کام کر رہے ہیں ‘ اُن میں سے کسی کے ذریعے بھی کار منگوانے پر شہریوں کو کرایوں میں بھی غیر معمولی ریلیف مل رہا ہے اور سفر بھی خاصا پُرلطف ہوگیا ہے۔ لاکھ سوا لاکھ کا ٹوٹا پھوٹا رکشا‘ شور مچاتے ہوئے‘ دُھول اور دھواں نگلے پر مجبور کرتا ہوا جہاں تک 400 روپے تک میں لے جاتا ہے‘ وہاں تک خاصی پرآسائش‘ ایئر کنڈیشنڈ (سات آٹھ لاکھ کی) کار محض 350 روپے میں لے جاتی ہے! اور اس سفر میں دھواں یا دھول نگلنی پڑتی ہے‘ نہ شور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نشستیں بھی آرام دہ ہوتی ہیں اور ایئر کنڈیشنڈ ماحول اضافی راحت کا سامان کرتا ہے۔ 
پرائیویٹ اداروں کی رجسٹرڈ کاریں انتہائی معیاری سفر کی سستی سہولت فراہم کر رہی ہیں مگر رکشا اور ٹیکسی ڈرائیورز اب تک خود کو حالات کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دور جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر جانے کا موڈ ہو تو اتنا کرایا مانگتے ہیں کہ مسافر ایک طرف ہٹ جاتا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ اداروں میں گاڑیاں رجسٹر کرانے والے کم کرائے میں کیسے لے جاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ رکشا اور ٹیکسی والے غیر منطقی کرائے وصول کر رہے ہیں۔ رجسٹرڈ گاڑیاں اور رکشے معقول کرایا وصول کر رہے ہیں۔ عام پیلی ٹیکسی خاصی خستہ حالت میں ہوتی ہے۔ یہ ٹیکسیاں اتنی گئی گزری ہیں کہ ان کی re-sale value بھی ختم ہوچکی ہے۔ چند ایک معیاری ٹیکسیاں ہیں بھی‘ تو وہ ساڑھے تین چار لاکھ روپے سے زائد مالیت والی نہیں۔ان ٹیکسیوں کے مالکان بھی طویل فاصلوں کے لیے 500 600/ روپے طلب کرتے ہیں‘ جبکہ ان ٹیکسیوں سے دگنی یا اس سے بھی زائد مالیت کی کاریں چلانے والے‘ اُسی فاصلے لیے محض 350 یا 400 روپے لیتے ہیں۔ اب کوئی بتائے کہ ان رجسٹرڈ کاروں کے مالکان کو حکومت یا کہیں اور کوئی سبسڈی ملتی ہے؟ ظاہر ہے‘ ایسا نہیں ہے۔ 
عام رکشا یا ٹیکسی والے کو اگر رجسٹرڈ گاڑیوں کے بارے میں کچھ بتائیے وہ اپنی طرزِ فکر و عمل کو درست کرنے کے بجائے محض گالیاں بکنے لگتے ہیں! انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ کم کرائے میں سفر کی معیاری‘ بلکہ مثالی سہولت فراہم کرنے والوں کو دیکھ کر بھی پہلے سے اس فیلڈ میں کام کرنے والے اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اُن کی ہٹھ دھرمی بڑھتی جاتی ہے۔ بس اسٹاپ سے سواری اٹھانے کے لیے اُس کے گھر تک آنے کے 50 60 روپے اضافی طلب کرتے ہیں! ایپ اور فون کال کے ذریعے آنے والی کار کا ڈرائیور کسی کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ عام رکشا اور ٹیکسی والوں کا یہ حال ہے کہ فیملی کھڑی ہو اور معمر خواتین ہوں تو روکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ 
سوال صرف پبلک ٹرانسپورٹ کا نہیں ‘بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے رویوں پر نظر ثانی اور اصلاح پر مائل ہونے کا ہے۔ کیا ہمارے لیے مجموعی طور پر جامع اصلاح کے لیے تیار ہونے کا وقت اب بھی نہیں آیا؟ سُدھرنے کا موسم آخر کب آئے گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں