برسوں کے عمل میں پنپنے والی عادتیں ایک جھٹکے سے کہاں مِٹتی ہیں؟ جو خرابیاں عشروں میں پروان چڑھتی ہیں‘ اُنہیں کسی ایک اقدام کے ذریعے کسی طور ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں تجاوزات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایک طرف تجاوزات ختم کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے اور دوسری طرف قبضے بھی ختم کرائے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر تجاوزات کی آڑ میں پوری پوری سڑک ہڑپ کرلی گئی تھی۔ گلستان ِجوہر اور غریب آباد میں پرانے فرنیچر کی مارکیٹس ‘اس کی واضح مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان دونوں مارکیٹس کا پھیلاؤ اس قدر تھا کہ ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو رہی تھی اور لوگوں کو گزرنے میں بھی دشواری کا سامنا تھا۔ اسی طور لائٹ ہاؤس میں سڑک کے کنارے واقع پرانے ملبوسات کی دکانیں بھی شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔
تجاوزات کے خلاف جاری مہم نے شہر کے بہت سے علاقوں کو اچھی طرح کلیئر کردیا ہے۔ تجاوزات کے نام پر دکانوں کو آٹھ آٹھ فٹ تک بڑھانے والوں کو اب شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کل تک معاملہ یہ تھا کہ کہیں کہیں تو فٹ پاتھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ اب اُن علاقوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ تجاوزات کے ہاتھوں پورے علاقے کا حلیہ کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ بعض مقامات پر خواتین کو گزرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ متعدد بازاروں میں تجاوزات کا یہ عالم تھا کہ خواتین آسانی سے گزر نہیں پاتی تھیں اور بچے بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے تھے۔ شاپنگ کرنا تو ایک طرف رہا‘ متعدد بازاروں میں داخل ہونے کے بعد یہ فکر لاحق ہوتی تھی کہ باہر کیسے نکلا جائے گا!
اب بہت سے بازار خاصے کشادہ دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ خریداری میں آسانی محسوس کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں کیے جانے والے انسدادِ تجاوزات آپریشن سے شہریوں کے لیے بہت سے معاملات آسان ہوئے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ آسانیوں کے ساتھ چند ایک امور نے مشکلات بھی پیدا کی ہیں۔
نارتھ کراچی میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ دکانوں پر بنائے جانے والے چھجّے گرادیئے گئے یا گروادیئے گئے۔ بعض دکانوں کے آگے ڈیڑھ دو فٹ کی دیواریں بھی تھیں‘ جنہیں منہدم کردیا گیا۔ مقصود یہ تھا کہ دکانوں کے سامنے سے گزرنے والوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ اچھی سوچ ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کی ستائش ہر شہری پر فرض ہے‘ مگر معاملہ یہ ہے کہ دکانوں کے آگے لگنے والے ٹِھیے اب تک نہیں ہٹائے جاسکے۔ بہت سی دکانوں کے سامنے کیبن موجود ہیں۔ ٹِھیے اور کیبن لگانے والے افراد متعلقہ دکاندار کو یومیہ کرایہ دیتے ہیں۔ یہ کرایہ 100 سے 200 یومیہ تک ہے۔ چھجّوں کو تجاوزات میں شمار کرکے گرادینا اب تک اچھا عمل ثابت نہیں ہوا ‘کیونکہ دکانوں سے خریداری کرنے والوں اور بالخصوص خواتین کو اس صورت میں سایا تو میسر تھا۔ چھجّوں کی موجودگی میں دکاندار بھی تیز دھوپ سے بچ پاتے تھے۔ اب دھوپ اُن پر براہِ راست پڑتی ہے اور دکان میں رکھا ہوا سامان بھی خرابی سے دوچار ہوتا ہے۔
شہر کے بیسیوں علاقوں میں سڑک کے کنارے پان کے کیبن‘ ٹِھیے اور ٹھیلے برقرار ہیں۔ انسدادِ تجاوزات کے نام پر کیے جانے والے آپریشن سے باضابطہ دکان لے کر کاروبار کرنے والوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ وہ ٹیکس بھی دیتے ہیں‘ بجلی کے بل بھی ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف سڑک پر کیبن لگانے والے بجلی بھی چراکر استعمال کرتے ہیں اور ٹریفک کے لیے مسئلہ بھی بنتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دس بارہ ہزار ماہانہ کرائے پر دکان لے کر کاروبار کرنے والے تو چھجّا بنانے کے بھی حقدار نہیں‘ مگر سڑک کے کنارے کیبن‘ ٹِھیے یا ٹھیلے لگاکر کاروبار کرنے والے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوری آزادی سے متصف ہیں۔ وہ جہاں چاہتے ہیں‘ کام شروع کردیتے ہیں۔ بیشتر پُلوں کے نیچے کی زمین ایسے لوگوں نے ہتھیالی ہے۔ اس رجحان کی روک تھام کے لیے بظاہر کوئی میکینزم نہیں۔
اصولی طور پر درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ باضابطہ دکان داری کرنے والوں کو سہولتیں دی جائیں اور بعض معاملات میں تھوڑی بہت رعایت سے بھی نوازا جائے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کہیں بھی کیبن یا ٹِھیا لگاکر دھندا شروع کردیتا ہے۔ اُسے کوئی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے نہ یوٹیلیٹی چارجز کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام مسائل باضابطہ دکانداری کرنے والوں کے لیے ہیں۔ اُنہیں ایک طرف تو اچھا خاصا ماہانہ کرایہ دینا پڑتا ہے اور دوسری طرف یوٹیلیٹی چارجز بھی اچھے خاصے ہوتے ہیں۔ بجلی بھی بہت مہنگی پڑتی ہے اور گیس بھی۔ اگر کوئی دکاندار لوہے کا پنجرہ بناکر دکان سے تین چار فٹ باہر کا ایریا گھیر لیتا ہے تو اُس کے خلاف کارروائی درست ہے‘ مگر چھجّے گِرانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ویسے بھی چھجّے راہ چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔
سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں کیے جانے والے انسدادِ تجاوزات آپریشن سے اب تک وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے‘ جو ہونے چاہیے تھے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ تجاوزات ہٹانے کے معاملے میں بھی لیت و لعل اور تذبذب سے کام لیا جارہا ہے۔ بعض علاقوں کو اب تک ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ نارتھ‘ کراچی‘ نیو کراچی‘ ناظم آباد‘ صدر‘ گلستان جوہر‘ غریب آباد اور کئی دوسرے علاقوں میں تجاوزات ختم کردی گئی ہیں‘ مگر اب بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں ‘جہاں سے تجاوزات ختم کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کے نتیجے میں امتیازی سلوک کا تاثر ابھر رہا ہے۔ نالے اور فٹ پاتھ صاف کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے‘ تو پہاڑیوں اور اُن سے ملحق علاقوں کو گھیر کر مکانات تعمیر کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔
اولڈ سٹی ایریا سے بازار ہٹانے کی بات ہو رہی ہے‘ جوڑیا بازار‘ جونا مارکیٹ اور دیگر بازاروں کو سپر ہائی وے منتقل کرنے کی منصوبہ سازی کرلی گئی ہے۔ اب کسی بھی وقت ان تمام بازاروں کو منتقل کرنے کا باضابطہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔ شہر کا حلیہ درست کرنے اور سرکاری زمینوں پر سے قبضے ختم کرانے کے لیے کیا جانے والا آپریشن ہر اعتبار سے مستحسن ہے‘ مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ شہر میں اب بھی کئی علاقے ایسے ہیں جو چائنہ کٹنگ کے ذیل میں آتے ہیں۔ بعض علاقوں میں قبضہ مافیا نے شہریوں کے پلاٹس گھیر کر مکانات بنائے ہیں اور اُنہیں فروخت بھی کر ڈالا ہے۔ ایسے تمام شہری انصاف کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکام درست ہیں‘ مگر اُن کی روشنی میں کیا جانے والا آپریشن منطقی حدود میں رہنا چاہیے‘ تاکہ کسی بھی طبقے کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ قانونی طور پر‘ یعنی باضابطہ دکان کرائے پر لے کر کاروبار کرنے والوں کو تھوڑی بہت رعایت ملنی چاہیے‘ تاکہ انہیں دیکھ کر دوسروں کو بھی قانون کے راستے پر چلنے کی تحریک ملے‘ حوصلہ افزائی ہو۔
قبضے شہر بھر میں ختم ہونے چاہئیں‘ تاکہ شہر کا حلیہ پوری طرح درست کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ چند منتخب علاقوں سے تجاوزات اور قبضے ختم کرنے کی صورت میں یہ تاثر ابھرے گا کہ یہ سب کچھ کسی کے اشارے پر کسی خاص مقصد کے تحت کیا جارہا ہے۔