کائنات کن اُصولوں پر قائم ہے اور چل رہی ہے یہ بات ہم نہیں جانتے‘ مگر اِتنا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ اُن تمام اصولوں کی بنیاد عدل و اعتدال اور توازن پر ہوگی؛ اگر ایسا نہ ہوتا تو سب کچھ بہت پہلے تلپٹ ہوچکا ہوتا۔ یہ سب کچھ معاشروں کی حالت دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ جہاں بھی عدل کے اصول سے انحراف کیا جاتا ہے‘ وہاں صرف خرابی رہ جاتی ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں ‘جس میں کچھ بھی اپنے (اصل) مقام پر دکھائی نہیں دے رہا۔ جہاں انصاف ہونا چاہیے‘ وہاں صرف نا انصافی رہ گئی ہے۔ جہاں توازن ہونا چاہیے‘ وہاں عدم توازن کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مصیبت پر مصیبت یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے کی خرابی کا کسی کو کچھ خاص احساس بھی نہیں اور جب احساس ہی نہیں تو غم کہاں سے ہو؟ ہر معاملے کو تمسخر کی نذر کیا جارہا ہے۔ طے کرلیا گیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ادنیٰ درجے کی سنجیدگی بھی اختیار نہیں کی جائے گی۔ ہنسانے کی تازہ ترین کوشش پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی ہے۔
ٹوئٹر پر ایک بیان میں بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ غیر معمولی مہنگائی اور دیگر مسائل کے ہاتھوں عوام کا بُرا حال ہوگیا ہے‘ اُن کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کی چیخیں (شیر کی) دھاڑ میں تبدیل ہوں گی اور پھر حکومت گر جائے گی۔
یہ بیان پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔ اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ بلاول بھٹو کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف والوں کو غریبوں کی ہائے لگے گی‘ وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ہماری بات سُن کر مرزا کی ہنسی کا گراف مزید بلند ہوگیا۔ اُن کے قہقہوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمیں بھی مسکرانا پڑا۔ مسکرانے کے سوا چارہ بھی نہ تھا۔
جب ہنسی کچھ قابو میں آئی تو مرزا بولے ''ہمارے سیاست دانوں کو اب سیاست ویاست چھوڑ کر سٹینڈ اپ کامیڈی کرنی چاہیے۔ یہی اب اُن کے لیے موزوں ترین شعبہ ہے۔‘‘
ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ وہ کسی اور کے نہیں‘ بلاول بھٹو کے بیان پر رائے زنی فرما رہے ہیں۔ دراصل ہم انہیں یہ باور کراتے ہوئے متنبہ کر رہے تھے کہ بندہ دیکھ کر بات کریں! یہ بات سُن کر مرزا پر پھر ہنسی کا دورہ پڑا‘ ہنستے ہنستے بے حال ہوئے‘ پھر جب حال کچھ بحال ہوا تو گویا ہوئے ''کسی بھی زاویے سے سوچ دیکھو‘ گھوم پھر کر اسی نتیجے تک پہنچوگے کہ ہمارے سیاست دانوں کا کام اب صرف ہنسانا رہ گیا ہے۔ سیاست خدا جانے کس کونے میں دُبک کر بیٹھ گئی ہے کہ دکھائی دیتی ہے‘ نہ ہاتھ آتی ہے۔ سیاست تو اب ہو نہیں پاتی اس لیے کامیڈی فرمانے پر گزارا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک صاحب کو رخصت کرتے وقت میزبان نے کہا جائیے‘ آپ کو خدا کے سپرد کیا۔ مہمان نے کہا :حضور! خدا نے تو خود مجھے آپ کے سپرد کیا تھا!
ہمارے لیے لازم نہیں کہ مرزا کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہیں۔ اُن کی بہت سی باتیں بے سَر و پا ہوا کرتی ہیں اُن سے کامیڈی کے سَوتے پُھوٹتے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے بیان پر مرزا نے جو تبصرہ فرمایا وہ ہمارے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ بلاول بھٹو ایک ایسی جماعت کے سربراہ ہیں جو وفاق کی سطح پر چار بار اقتدار میں رہ چکی ہے۔ اتنی بڑی جماعت کے سربراہ کا بیان یقینی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمسخر کی نذر کردیا جائے۔ جب ہم نے بلاول بھٹو کی طرف سے پیش قدمی کی تو مرزا کے دماغ کی ہنڈیا میں اُبال آنے لگا۔ غصے کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگے :تم جیسوں کا یہی تو المیہ ہے۔ جہاں کسی بڑے کے منہ سے کوئی بات سُنتے ہو اُس میں مفہوم تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہو۔ ارے بھائی‘ کبھی کبھی آدمی یونہی کوئی بات کہہ دیتا ہے۔ اب لازم تو نہیں کہ ہر بات میں مفہوم پایا جائے۔ اب یہی دیکھ لو کہ ملک کے غریبوں کا بس اپنے آپ پر تو چلتا نہیں‘ حکومت کے ستون کہاں سے ہلا پائیں گے؟ میر تقی میرؔ نے شاید اسی حقیقت کی طرف اشارا کرتے ہوئے تھا ؎:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
حکومتیں گرانا کس کا کام ہے ‘یہ بات عوام سے زیادہ کون جانتا ہے‘ کیونکہ جب بھی کوئی حکومت گرتی ہے‘ خمیازہ اُنہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ اُنہوں نے سات عشروں تک جھیلا ہے۔ اب کیا عوام اتنے بھولے ہیں کہ اتنا بھی نہ سمجھیں کہ حکومتیں کیسے گرتی اور گرائی جاتی ہیں۔ جو بے چارے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی مشقّت سے اوپر نہیں آ پاتے اُن پر حکومت کو گرانے کی ذمہ داری ڈالنا کہاں کی دانش یا انصاف ہے؟
مرزا کی بات میں تھوڑا سا دم دکھائی دیا تو ہم بجھ سے گئے کہ اب کیا بولیں۔ خیر‘ ہمت کرکے عرض کیا کہ بلاول بھٹو ‘چونکہ عوامی پارٹی کے سربراہ ہیں ‘اس لیے عوام کو عزت دینا جانتے ہیں اور عزت دینا چاہتے بھی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے حکومت گرانے میں غریب کی ہائے کے کردار کا ذکر کرکے سب کو باور کرایا ہے کہ ؎
بجا کہے جسے دنیا اُسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
مرزا نے ہماری بات سُنی تو بہت سکون سے‘ مگر جب جواب دینے پر آئے تو ماحول میں پایا جانے والا سارا سکون غارت کر بیٹھے۔ ''بلاول کی سادگی پر قربان جائیے کہ اُلٹی گنگا بہانے پر تُلے ہیں۔ لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت ‘اگر کچھ غلط کرے تو اپوزیشن اُسے گردن سے دبوچے اور حساب طلب کرے۔ پیپلز پارٹی اس وقت قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہے۔ حکومت کی گردن وہ نہیں ناپے گی تو اور کون ناپے گا؟ عوام؟ وہ بے چارے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں تو سمجھ لیجیے 'مشن امپاسبل‘ کی منزل سے کامیاب گزر گئے! حکومت کو گرانے کا کام اگر کسی بھی درجے میں ہے تو صرف اپوزیشن کا۔ وہ حساب طلب کرے تو بات بنے‘ ماحول بنے؛ اگر حکومتیں غریبوں کی آہوں اور فریادوں سے گرا کرتیں تو پھر رونا کس بات کا تھا۔ رونے دھونے سے گھر تو بگڑ سکتے ہیں‘ حکومتیں نہیں گرسکتیں۔ ٹھیک ہے‘ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں‘ مگر چیخیں تو چیخیں ہی ہوتی ہیں‘ شیر کی دھاڑ میں کیسے تبدیل ہوسکتی ہیں؟ بلاول بھٹو اگر ٹوئٹر کی مدد سے غریبوں کی چیخوں کو شیر کی دھاڑ میں تبدیل کرنے کا طریقہ یا میکنزم بھی بتادیں تو ہم اُن کے شکر گزار ہوں گے۔ حکومت کے کان کھینچنا‘ اُسے راہِ راست پر لانا اور پھر بھٹکنے نہ دینا اپوزیشن کا کام ہے۔ بلاول بھٹو اپنے حصے کی ذمہ داری کو بوجھ عوام کی چیخوں پر ڈالنے کی بجائے پی ٹی آئی کی حکومت کو تیر کی طرح سیدھی رکھنے پر خود محنت کریں۔‘‘
کوئی ہماری پوزیشن بھی تو سمجھے۔ ہم تو عجیب الجھن میں پڑگئے ہیں۔ اِدھر مرزا کا استدلال بہت حد تک درست ہے اور اُدھر بلاول بھٹو ہیں ‘جن کی ذہانت کے ہم معتقد ہیں‘ یعنی اِدھر پہاڑ ہے اور اُدھر کھائی۔ ع
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں؟
اللہ کرے کہ یہ آخری سطور مرزا کی نظر سے نہ گزریں؛ اگر وہ بلاول کی ''دہانت‘‘ کے بخیے اُدھیڑنے پر تُل گئے‘ تو مزید الجھن میں پڑ جائیں گے۔