"MIK" (space) message & send to 7575

دل اُن کو ڈھونڈتا ہے‘ ہم دل کو ڈھونڈتے ہیں

معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ کائنات کے تمام اصولوں کے تابع ہے۔ جتناگُڑ ڈالیے اُتنا میٹھا ہوگا۔ یہی اصول نمک اور دیگر تمام ذائقوں پر بھی اطلاق پذیر ہے۔ کوئی اگر دیکھے کو اَن دیکھا کرنا چاہے تو اور بات ہے۔ اور ظاہر ہے اِس کا خمیازہ بھی بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ 
تمام پاکستانی انفرادی حیثیت میں جن مسائل سے دوچار رہے ہیں وہی تمام مسائل اجتماعی طور پر جینے میں بھی درپیش رہے ہیں۔ اور یہ معاملہ کیونکر نہ ہو کہ ہم بالکل سامنے کی حقیقتوں کو بھی نظر انداز کرنے سے مجتنب نہیں رہے۔ اللہ نے ہمیں جس نظام کے تحت خلق کیا ہے وہ سب کچھ دیکھتا‘ جانتا اور سمجھتا ہے۔ یہ نظام ہماری کوتاہیوں سے صرفِ نظر ضرور کرتا ہے‘ اُنہیں معاف کسی طور نہیں کرتا۔ سب کو اپنے کِیے کا بھگتان تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور یکسر ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ کسی کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ 
ہم نے سال دو سال یا چند سال نہیں بلکہ عشروں کے عشرے اِس حال میں گزارے ہیں کہ کوئی باضابطہ منصوبہ تیارکیا گیا نہ چھوٹا چھوٹا خمیازہ بھگتنے پر سبق ہی سیکھا گیا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی یوں گزاری جاتی رہی ہے گویا زندگی نہ ہو کوئی بوجھ ہو جسے اُتار کر پھینکے بغیر چارہ نہ ہو۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ وقت نے پکار پکار کر فریاد کے سے انداز سے یاد دلایا ہے ؎ 
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے 
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے 
مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ جو نہ کرنا تھا وہ کیا اور جو کچھ کیے بغیر چارہ نہ تھا اُس کے کرنے سے اجتناب ہی برتتے رہے۔ یہ سب کیوں تھا؟ ہم نے اپنے افکار و اعمال کو بے ذہنی کی چادر کیوں اُڑھائی؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب دینا کل تک محض مشکل تھا‘ اب تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اب سوچنے بیٹھیے تو معاملات کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ کتنی ہی بحث کیجیے‘ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم نے کہاں کہاں کتنی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ 
اپنے لیے چراغ جلاکر روشنی کا اہتمام کرنے پر دوسروں کے چراغوں سے روشنی مستعار لینے کو اِس قدر ترجیح دی گئی ہے کہ اب ہم پرائی روشنی ہی کے عادی ہوچکے ہیں۔ جب معاملہ اِتنا بگڑا ہوا ہو تو اپنی روشنی مزا نہیں دیتی‘ ظلمت پوری طرح مِٹ نہیں پاتی۔ اور ایسی حالت میں اپنے ظاہر و باطن کے متعدد گوشے بے نور ہی رہتے ہیں۔ قومی وجود کے سات عشروں کے دوران فکر و عمل یعنی پالیسی اور سٹریٹجی دونوں حوالے سے کیفیت یہ رہی ہے کہ ؎ 
دنیا سے ہے نِرالا دستور عاشقوں کا 
جینے کی آرزو میں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں 
ہر معاملے میں سہولت درکار تھی‘ تن آسانی جان نہیں چھوڑتی تھی‘ اس لیے ہم سستے بکتے رہے۔ جس نے جو دام لگائے ہم نے قبول کرلیے اور ساتھ ہولیے۔ دنیا قدم قدم پر دانش سے کام لینے کا تقاضا کرتی ہے۔ جس نے دانش سے کنارا کیا اُس کی کشتی بھنور میں پھنسی ہی پھنسی۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بجائے جب دوسروں کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کیجیے گا تو یہی ہوگا۔ کائنات کے اُصول تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ ہماری دنیا اور ہماری زندگی پر بھی اطلاق پذیر ہیں۔ بھلا کیجیے بھلا ہوگا‘ بُرا کیجیے بُرا ہوگا۔ ببول کے پیڑ پر کانٹے ہی اُگتے ہیں‘ گلاب نہیں کِھلا کرتے۔ اور کس میں ہمت ہے کہ ببول کے کانٹوں کو پھول سمجھ کر چُومے! 
مغرب کی کاسہ لیسی کرتے کرتے ہم بھول ہی گئے کہ ہمارے اجتماعی وجود کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور یہ کہ اِن تقاضوں کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور سُود مند نہیں۔ ایک زمانے سے یہ کھیل جاری ہے کہ جو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ہم انہیں زیادہ درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے اور جس جس در سے دُھتکارے جاتے ہیں وہاں بار بار جاکر صدا لگاتے ہیں۔ مغرب کو اپنا بنانے کی کوشش میں ہم اپنا پتا بھی بھول بیٹھے ہیں۔ ؎ 
دِل اُن کو ڈھونڈتا ہے ہم دِل کو ڈھونڈتے ہیں 
بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں 
مغرب کی بڑی طاقتوں نے جب بھی‘ اپنی ضرورت اور مصلحت کے تحت‘ ذرا سا مسکراکر دیکھا تو ہم یہ سمجھے کہ ساری دنیا ہماری ہوگئی‘ ہمارے ہاتھ میں آگئی! اور پھر دل و نظر کی سرشاری کا عالم یہ ہوا کہ ؎ 
زندگی کے سفر میں اکیلے تھے ہم‘ مل گئے تم تو دل کو سہارا ملا 
چل پڑے اِک نئے راستے پر قدم جب تمہاری نظر کا اشارا ملا 
قرض کی پیتے پیتے ذہن و دل پر فاقہ مستی ایسی مسلّط ہوئی کہ ہم پیرِ مغاں کو باپ بنا بیٹھے! سمجھانے والے کم نہ تھے‘ اور اِن میں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ بھی تھے‘ مگر ہم ہی کچھ سمجھنے کو تیار نہ تھے۔ جب تک نشہ چھایا رہا ہمارے فکر و عمل پر مُردنی سی چھائی رہی۔ اب وقت آگیا ہے‘ لازم ہوگیا ہے کہ ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھیں۔ یہ زمانہ کسی کے در پر پڑے رہنے کا نہیں بلکہ زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر سوچنے اور اِس حقیقت پسندی کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کا ہے۔ بہت کچھ سہتے سہتے ہم نے اپنے قومی وجود کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پَتّوں کے کھڑکنے کی صدا سے بھی ڈر لگتا ہے۔ معمولی سطح کی آزمائش بھی آن پڑے تو قدم قدم پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ع
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
اب ایسی آسانی نہیں رہی کہ دِل کسی کو ڈھونڈتا رہے اور ہم دِل کو ڈھونڈتے پھریں۔ جینے کی آرزو میں قاتل کو ڈھونڈنے کا دور بھی گیا۔ آج کے بازار میں صرف ایک سِکّہ چلتا ہے اور وہ حقیقت پسندی۔ جس نے حقیقت سے منہ موڑا یا نظر چُرائی اُس کا چراغ گُل ہوا۔ وقت کے کوئز شو میں تمام لائف لائنز ختم ہوچکی ہیں۔ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب بڑی سمجھی جانے والی کوئی بھی غلطی سرزد ہوئی تو اپنے آپ کو کھیل سے باہر سمجھیے۔ 
وقت قیامت کی چال چل رہا ہے۔ اور اِس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ وقت تو ہمیشہ ایسا ہی کرتا آیا ہے۔ جو کچھ اُسے کرنا ہے وہ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اُس کے مقابل آنے کی بھرپور تیاری کرتے ہیں یا نہیں۔ جو کچھ ہمیں کرنا ہے وہ ہم کرتے ہیں یا نہیں۔ اِسی سے طے ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اب کہاں پہنچیں گے۔ 
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر میں دنیا کچھ کی کچھ ہوچکی ہے‘ یعنی ایسی بدلی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔ ہاں‘ پاکستان جیسے معاشرے تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ جدید علوم و فنون کے حوالے سے ممکن بنائی جانے والی پیش رفت نے قوموں کے ظاہری وجود کو بدلا ہے‘ باطنی وجود وہیں کا وہیں ہے۔ اخلاقی و روحانی پہلو خرابی ہی کی زد میں ہے۔ مال و اسباب کی دنیا میں اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سُراغ پانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ اب کسی کی تلاش میں یوں نہیں نکلا جاسکتا کہ اپنا سُراغ پانا بھی مشکل ہوجائے۔ وقت کی نزاکت صاف کہہ رہی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں‘ تمام فیصلے انتہائی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں کیے جائیں اور اُن پر عمل بھی اِس طور کیا جائے کہ کوئی بے جا یا کمزور مصلحت آڑے نہ آئے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اپنی تلاش میں نکلا جائے اور اپنے لیے نئی منزلوں کا تعین کیا جائے۔ اور ہاں‘ اپنی تلاش میں بھی یوں نکلنا ہے کہ پورا وجود ہاتھ آئے اور پھر عرصۂ دراز تک اپنے آپ کو ڈھونڈنا نہ پڑے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں