بہت کچھ ہے‘ جو ہمیں میسر ہے مگر ہم اُس بہت کچھ کو روتے رہتے ہیں جو قدرت نے ہمارے نصیب میں نہیں لکھا۔ معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ جو کچھ بخشا گیا ہے اُس سے مستفید ہوکر زندگی کو پُرلطف بنانے کے بجائے روتے اور کڑھتے رہیے۔ اس روش پر گامزن رہنے سے کیا ملتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے یا اِس پر غور کرنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔
ویسے تو خیر پاکستانی معاشرے میں سو طرح کے ذہنی امراض پائے جاتے ہیں ‘مگر اِن میں چند اتنے جاندار ہیں کہ پورے معاشرے کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ اپنے حال میں خوش نہ رہنا بھی ایک ذہنی مرض ہے۔ حالات درست کرنے کی تحریک محسوس نہ کرنے کو بھی ذہنی امراض میں سے سمجھیے۔
ایک مرض اور بھی ہے‘ جو قیامت سے کم نہیں۔ یہ ہے موازنے کا مرض۔ ہر پس ماندہ اور پریشان حال معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے حالات اور معاملات سے کسی بھی طور خوش نہیں رہتے اور اپنا موازنہ دوسرے معاشروں کے لوگوں سے کرکے روتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔ کتنا ہی سمجھائیے‘ ایسے لوگ اپنی اس مذموم و مردود روش سے ہٹنا گوارا نہیں کرتے۔
موازنے کی بیماری انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ یہ بیماری ایسی حالت میں مزید شدت اختیار کرلیتی ہے جب انسان طے کرلے کہ کسی خاص معاشرے کے لوگوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بدنصیب سمجھتے رہنا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بہت کچھ دیکھنے‘ جاننے اور سمجھنے کے باوجود آج بھی اس بات پر خاصا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے تھا! اُن کی نظر میں پاکستان‘ خاکم بدہن‘ بلا جواز قائم کیا گیا تھا! ایک ''نظریہ‘‘ یہ بھی ہے کہ انگریزوں کو جاتے جاتے دودھ میں مینگنیاں ڈالنی ہی تھیں اس لیے ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیئے تاکہ دونوں ریاستیں لڑتی رہیں اور خطہ کبھی امن کی راہ پر گامزن نہ ہو۔ در پردہ یہ کہنا مقصود ہے کہ پاکستان کا قیام اس حوالے سے چلائی جانے والی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ انگریزوں کی مہربانی ہے! جو لوگ انگریزوں کا دور یاد کرکے آج کے حالات کو روتے اور کوستے رہتے ہیں اُن کا استدلال یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی ہر حال میں موجودہ آزادی سے بہتر تھی!
ایک زمانہ تھا کہ ہمیں معلوم نہ ہو پاتا تھا کہ بھارت میں لوگ آزادی کے بعد کس طور جی رہے ہیں۔ جو لوگ رشتہ داروں سے ملنے بھارت جاتے رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت میں عام آدمی کس سطح پر جی رہا ہے۔ اب ہمیں بھارت کے بارے میں جاننے کے لیے زیادہ تگ و دَو کرنے کی ضرورت نہیں۔ بھارتی چینلز بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ آن لائن اخبارات بھی بھارت کے بارے میں اتنا کچھ بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کی تشفّی ہو جاتی ہے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہتی ہے‘ وہ بھارت کے حقیقت پسند اور انتہائی قابل فلم میکرز پوری کردیتے ہیں۔
بھارت میں فلم میکرز ابتداء ہی سے غیر معمولی قابلیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند بھی رہے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے تاریک گوشوں کو دنیا کے سامنے لانے میں کبھی تساہل برتا ہے‘ نہ خِسّت سے کام لیا ہے۔ مین سٹریم کے مقابل متوازی سینما بھی اپنے وجود کو منوانے کی صلاحیت کے ساتھ زندہ رہا ہے۔ اور اب تو مین سٹریم سینما کی بیشتر فلمیں بھی بہت حد تک تلخ حقیقت کا لمس لیے ہوئے ہوتی ہیں۔
آج کل ایسی فلمیں بھی بنائی جارہی ہیں ‘جن میں پورے بھارتی معاشرے کا اصل روپ دکھانے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ شمالی بھارت کے تناظر میں بنائی جانے والی فلموں میں اخلاق سوز مناظر کے ساتھ ساتھ گالیوں کی بھی بھرمار ہوتی ہے ‘جو معاشرتی سطح بیان کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان فلموں کے ذریعے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ اس وقت بھارت میں عام آدمی کا کیا حال ہے یا یہ کہ اُس کی کیسی درگت بنی ہوئی ہے۔
معاشی اعتبار سے تو خیر ہم بھی بہت اچھے نہیں۔ یہاں بھی عام آدمی کی مشکلات کم نہیں۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا عام آدمی محض معاشی الجھنوں کا شکار نہیں‘ بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے ‘جو اُس کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔ صوبائیت‘ علاقائیت‘ ذات پات کی بنیاد پر تقسیم‘ لسانی و ثقافتی تعصب‘ مذہبی منافرت اور دوسری بہت سی عِلّتوں نے بھارتی معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ خرابیوں‘ خامیوں اور بُرائیوں کا سب سے زیادہ بوجھ غریب کے سر پر آ پڑا ہے۔ ملک بھر میں تمام مذاہب اور طبقات سے تعلق رکھنے والے غریب جانوروں کی سی سطح پر جی رہے ہیں۔
چند برسوں کے دوران ایسی متعدد فلمیں بنائی گئی ہیں ‘جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں ایک عام آدمی کی زندگی کس حد تک عذاب کی صورت ہے۔ سوال صرف غربت نہیں‘ معاشرتی تفریق کا بھی ہے۔ کسی کی جیب خالی ہو تو وہ کسی نہ کسی طور خوش رہتے ہوئے جی سکتا ہے‘ لیکن اگر اُسے انسان ہی نہ سمجھا جائے اور تھوڑا سا بلند ہونے کے لیے کسی بھی سطح پر مدد کی کوشش ہی نہ کی جائے تو؟
آج کی متعدد فلمیں خیالی پلاٹس کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر بنائی جارہی ہیں ‘جو بھارتی معاشرے کی پرتیں اتارنے کا وسیلہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ فلم ''شری لانسر‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ یہ فلم بنگلور کے ایسے نوجوان کے بارے میں جو لیپ ٹاپ‘ انٹر نیٹ اور سوشل ویب سائٹس کا دیوانہ ہے۔ خالص عوامی زبان میں کہیے تو دَھتّی! نام ہے شریپَد نایک۔ شریپَد رسمی و روایتی سی نو سے پانچ قسم کی نوکری نہیں کرنا چاہتا۔ اُسے دفتر یا کسی اور بند جگہ بیٹھنے سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ وہ شہر بھر میں گھومتا ہے اور فری لانسر کی حیثیت سے ''متن نگاری‘‘ کرتا ہے۔ کسی نے ای میل لکھوائی اور سو دو سو روپے تھمادیئے۔ کسی نے اشتہار کا متن تیار کروایا اور پانچ سو روپے دے کر چلتا کیا۔ شریپَد کی ماں کا انتقال ہوچکا ہے اور والد اُس کی طرزِ زندگی سے بہت پریشان اور فکر مند ہیں۔
شریپَد کا ایک دوست اُسے اپنی شادی پر چندی گڑھ بلاتا ہے۔ ریٹرن ٹکٹ اور رہائش کا انتظام بھی وہی کرتا ہے۔ چنڈی گڑھ والا دوست شریپَد کو اپنے مقامی دوستوں سے ملواتا ہے۔ اُن سب کے عمومی رویے اور بے ہنگم طرزِ زندگی سے بہت کچھ بیان ہوتا ہے۔ خواتین اور بالخصوص دوست کی بیوی کی موجودگی میں بھی اپنائی جانے والی طرزِ گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ کس سطح پر جی رہے ہیں۔ شریپَد کو دوست کے دوست اپنے ساتھ منالی لے جاتے ہیں ‘جہاں کسی بات پر سیخ پا ہونے کے بعد اُسے مار پیٹ کر سبزی کے ٹرک میں ڈال دیتے ہیں۔ یہاں سے شریپَد کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ اور وہ بمشکل گھر واپس آ پاتا ہے۔
یہ ایک فلم بھارتی معاشرے کے کئی تاریک گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایسی ہی اور بھی بہت سی فلمیں ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ زمین کا جو ٹکڑا ہم لے سکے وہ اللہ کی رحمت کی نمایاں ترین نشانی کے سوا کچھ نہیں۔ پوری دیانت سے تجزیہ کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ بہت سی خرابیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم اب تک معاشرتی سطح پر خاصے بلند ہیں اور ہم میں اچھی خاصی انسانیت زندہ ہے؛ اگر اب بھی معاملات سمجھ میں نہ آئیں تو پاکستان کو بلا جواز سمجھ کر یہاں گزاری جانے والی زندگی کو عذاب سمجھنے والے ذرا دس پندرہ دن کے لیے بھارت کا چکر لگا آئیں اور وہاں دو تین شہروں میں عام آدمی کی حالت دیکھ لیں تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ جہنم اس طرف ہے یا اُس طرف!۔