کئی ادوار گزر چکے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل نہیں پائے ہیں۔ یہ ادارہ ہماری معیشتی نفسیات کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ کچھ سوچیے اور کوئی بھی منصوبہ تیار کیجیے‘ آئی ایم ایف ذہن کے پردوں پر ابھرے بغیر نہیں رہتا۔ اور‘ جب آئی ایم ایف کا خیال آجائے ‘تو ذہن کے پردے سے بہت کچھ غائب ہونے لگتا ہے‘ غیر متعلق و غیر موثر سا دکھائی دینے لگتا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ماریا ٹریسا نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلط نہ سمجھا جائے‘ آئی ایم ایف منافع کمانے پاکستان میں فعال نہیں ہوتا۔ جب رکن ممالک مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں‘ تب انہیں پروگرام دیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاست کی آمدنی نہیں بڑھے گی تو مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان میں جو شعبے ٹیکس دینے سے اب تک گریز کر رہے ہیں اُنہیں ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر چارہ نہیں۔ پاکستان کے دو بنیادی مسائل ہیں ؛ لیے ہوئے قرضوں کا چُکانا اور ادائیگیوں کا توازن۔ پاکستان کی آمدنی کا 25 فیصد قرضوں کے بھگتان پر صرف ہو رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں اور خسارے کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ ماریا ٹریسا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس کی چُھوٹ اور سرکاری اداروں کا خسارہ بہت زیادہ ہے۔ توانائی کے قرضے میں گردشی قرضے 700 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں‘ جو انتہائی خطرناک بات ہے۔
ماریا ٹریسا نے جو کچھ کہا‘ وہ بالکل درست ہے۔ ہمارے ہاں معیشت کو متوازن رکھنے والے عوامل خال خال ہیں اور عدم توازن پیدا کرنے والی خصوصیات قدم قدم پر پائی جاتی ہیں۔ ملک کا ایک بڑا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ شہری علاقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ زرعی شعبے پر برائے نام بھی ٹیکس نہیں ‘جس کے نتیجے میں شہری آبادی کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دن رات ایک کرنے پڑتے ہیں۔ ہر چیز پر ٹیکس لینے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس‘ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز کے نام پر جیب خالی کرانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ جب تک زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا‘ تب تک کچھ بھی نہیں ہوگا۔
آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نے متعدد خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ تمام خرابیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان خرابیوں کے دور کیے جانے تک ہماری معاشی مشکلات بھی ختم نہیں ہوں گی۔ محصولات سے ہونے والی آمدنی اخراجات کے تناسب سے اب بھی کم ہے‘ جس کے باعث بجٹ خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گردشی قرضے غیر معمولی حد تک بڑھ چکے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں 700 ارب کے قرضے واقعی خطرے کی گھنٹی ہیں۔
آئی ایم ایف کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ ادارہ دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کو قابو میں رکھنے اور مشکلات سے دوچار معیشتوں کو دبوچنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ بازار میں کئی کتب دستیاب ہیں‘ جن میں آئی ایم ایف اور ایسے ہی دوسرے اداروں کی کارستانیوں کی داستانیں شرح و بسط کے ساتھ مذکور ہیں۔ اس حوالے سے جان پارکنز کی کتاب ''دی کنفیشنز آف این اکنامک ہٹ مین‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔
ماریا ٹریسا نے یہ بات بالکل درست کہی کہ اُن کا ادارہ منافع کمانے نہیں آتا۔ جو ادارہ صرف خرابی اور خسارہ پیدا کرنے کے لیے معرضِ وجود میں لایا گیا ہو ‘اُس کے ذمہ داران کو ایسی ہی بات کہنے کا حق ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ رکن ممالک کو غیر معمولی مشکلات سے نکالنے کے لیے پیکیج یا پروگرام دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف یہ کام خالص ''نیک نیتی‘‘ سے کرتا ہوگا‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خرابیاں ہمیں کسی کے ''خلوص‘‘ سے فائدہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑتیں۔
ہم کئی بار آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوچکے ہیں۔ یہ معاملہ دو دھاری تلوار جیسا رہا ہے۔ ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جُنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
آئی ایم ایف ہے کہ اپنے اطوار بدلنے کو تیار نہیں‘ یعنی پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں کا ناطقہ بند کرنے پر تُلا رہتا ہے اور دوسری طرف پس ماندہ معیشتیں ہیں کہ اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتیں۔ پاکستان اور اِسی قبیل کے دوسرے بہت سے ممالک کے لیے انتہائی لازم ہوچکا ہے کہ باقی سب کچھ بھول کر معیشتی اصلاح پر متوجہ ہوں‘ تاکہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا جاسکے اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی کاسہ لیسی پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
ڈیل کارنیگی نے کہا ہے کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! اس جملے کا انطباق زندگی کے ہر معاملے پر ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت پر بھی یہ منطبق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کل ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ کی توسیع اور دیگر متعلقہ معاملات میں جو کچھ کیا جارہا ہے‘ وہ شدید اضطراب پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ سات عشروں سے جن کے مزے لگے ہوئے تھے‘ وہ کیوں چاہیں گے کہ ہنستی گاتی بستی اُجڑ جائے؟ جو لوگ ماہانہ لاکھوں کماتے ہیں اور انکم ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ ادا نہیں کرتے ‘وہ ٹیکس نیٹ میں لائے جانے پر سیخ پا ہیں۔ ایک زمانے سے صرف تنخواہ دار طبقہ ٹیکس کی چَکّی میں پس رہا ہے۔ اس طبقے کی مشکلات کا اندازہ کسی نے نہیں لگایا۔ اب دوسروں کو بھی ٹیکس کی چَکّی میں پیسنے کی تیاری کی جارہی ہے ‘تو قیامت سی برپا ہوگئی ہے۔
غیروں کو تو جو کرنا ہے‘ وہ کرتے ہی رہیں گے۔سوال یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات درست کرنے کے لیے کہاں تک تیار ہیں اور اس حوالے سے لگن بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح پر مائل نہیں اور اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ہماری معیشت سے کِھلواڑ کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا پیکیج اُسی کی طے کردہ شرائط کے تحت ہوتا ہے۔ ان شرائط کا بنیادی مقصد عوام کا مورال گرانا ہوتا ہے‘ تاکہ وہ بہتر معاشی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہ رہ سکیں۔ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ہمارے ہاں بہتر معیشتی کارکردگی کی گنجائش ہی نہ رہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات جیسے انتہائی بنیادی آئٹمز کو مہنگا کرنا بظاہر بیرونی ایجنڈے کا نتیجہ ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی اداروں کی ترجیحات کی روشنی ہی میں معیشت کا رخ متعین کیا جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی شعبوں میں بہتری کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ سب کچھ افسوس ناک سہی‘ حیرت انگیز نہیں۔ کسی کو ہماری بہبود سے کیا غرض؟ اپنا بھلا ہمی کو سوچنا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں کو مداخلت کا موقع ہمارے پیدا کردہ حالات سے ملتا ہے۔
ہم نے حالات بگاڑ کر ایک بار پھر آئی ایم ایف کو دعوتِ مداخلت دی ہے۔ جو کچھ اب تک ہوچکا ہے‘ کیا وہ ہم میں حقیقی‘ وطن پرستانہ معاشی شعور پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں؟ ڈگمگانے‘ لڑکھڑانے اور گر پڑنے کا سلسلہ کب تک؟
وقت آگیا ہے کہ معیشتی بحالی کے حوالے سے چند ایک کڑوے گھونٹ بھی ہنستے ہوئے پی لیے جائیں‘ تاکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی مداخلت کا راستہ بند کیا جاسکے۔