سیاست کیا ہے؟ یہ بات تو معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سیاست کا تعلق ریاست کو چلانے سے ہے۔ ریاستی امور کی انجام دہی میں مرکزی کردار سیاست کا ہوتا ہے۔ عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں ‘وہ ریاست کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں اور اُنہی کی دانش کے مطابق ‘پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ ریاستی مشینری اپنی جگہ اور عوام کی منتخب مشینری اپنی جگہ۔ ریاستی مشینری جو کچھ کرتی ہے‘ اُس کے لیے حکم منتخب نمائندوں کی طرف سے آتا ہے۔ یہ حکم مانتے ہی بنتی ہے۔ ہاں‘ ریاستی مشینری‘ یعنی ریاست کے مستقل ملازمین کسی غلط پالیسی کے نفاذ میں نیم دِلانہ رویہ بھی اختیار کرسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بالکل غلط پالیسی کو تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیں۔
بہر کیف‘ اہلِ سیاست کی طرزِ فکر و عمل بہت سے معاملات پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہر معاشرے میں اہلِ سیاست ہدفِ تنقید بھی بنتے ہیں اور اُن پر جان نچھاور کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ یورپ کے ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کا تصور رکھنے والے معاشروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے اہلِ سیاست مجموعی طور پر پوری ریاست یا معاشرے کا بھلا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں اُن کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کا حال سیاست کے حوالے سے بہت بُرا ہے‘ کیونکہ بہت سے گروہ سیاسی معاملات کو اپنے اپنے مفادات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی گروہوں‘ یعنی جماعتوں کی آپس کی کشمکش ریاستی مفادات کو بھی داؤ پر لگادیتی ہے۔ دیگر بہت سے پس ماندہ معاشروں کی طرح وطن عزیزپاکستان کا بھی تو یہی حال ہے۔
اہلِ سیاست اگر اپنا کام پوری دیانت سے انجام تک پہنچائیں تو معاشرے میں بہت کچھ درست ہوسکتا ہے‘ اصلاح کی صورت نکل سکتی ہے۔ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں عمومی طور پر سندھ اور خصوصی طور پر کراچی کی سیاست کے تناظر میں کسی نے‘ ممکنہ طور پر رئیسؔ امروہوی نے کہا تھا: ؎
بہت دنوں سے یہی شغل ہے سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
یہ ایک شعر اُس عہد کے اہلِ سیاست کی مجموعی روش کو خاصے واضح انداز سے بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ خرابیاں تو ریاستی مشینری میں بھی ہوتی ہیں ‘جسے ہم عرفِ عام میں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی خرابیاں بھی ملک کو مشکلات سے دوچار کرتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ افراد ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ اُن کی غلط کاریاں الگ نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اُن کا بھی محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ اہلِ سیاست کا معاملہ مختلف ہے۔ اُنہیں عوام منتخب کرتے ہیں۔ وہ عوام کی نمائندگی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُن کے باکردار اور باعمل ہونے کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب محاسبے کی بات آتی ہے‘ تب سیاست دانوں‘ یعنی عوام کے منتخب نمائندوں پر زیادہ متوجہ ہوا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ریاستی مشینری بہت سے معاملات میں ناکام ہوئی ہے اور دوسری طرف سیاست دانوں نے اپنے حصے کا کام اُس طور نہیں کیا‘ جس طور کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ دو دھاری تلوار ہے ‘جو عوام کی گردن پر چلی ہے۔ جب عوام کسی کو ووٹ دے کر اپنے کام کے لیے آگے بھیجتے ہیں‘ تب معاملہ کچھ اور ہوتا ہے‘ جسے عوام نے اپنا نمائندہ بنالیا ہو‘ اُس پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ریاستی مشینری کے پُرزوں‘ یعنی افسران و اہلکاروں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ ریاستی مشینری اگر کچھ غلط کرے تو اُس کی توقیر کا معاملہ اٹھ کھڑا نہیں ہوتا۔ عوام کا منتخب نمائندہ اگر اپنا کام کماحقہ انجام نہ دے‘ یعنی دیانت اور محنت سے کام نہ لے تو عوام اُس سے جواب طلب کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ ریاستی مشینری کے پُرزوں کا بھی احتساب لازم ہے ‘مگر اُن کی عزت بالعموم داؤ پر نہیں لگتی۔ عوام کی نمائندگی کے عزم کے ساتھ منتخب ایوانوں میں پہنچنے والوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہوتا ہے۔ معروف فلسفی فریڈرک نطشے نے کہا ہے کہ سیاست دان معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک طرف اُن کے دشمن ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو اُن کے آلۂ کار کے طور پر کام کرتے ہیں! نطشے نے ایک بہت بڑی بات محض ایک جملے میں بیان کردی ہے۔ سیاست دان ریاست کو ڈھنگ سے چلانے کی ذمہ داری یا چیلنج قبول کرتے ہوئے میدان میں آتے ہیں ‘مگر رفتہ رفتہ اپنے ذاتی مفادات کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں‘ وہ محض اپنے مفاد کے دائرے میں گھوم رہا ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کے دشمن تو بہت ہوتے ہیں‘ دوست کوئی نہیں ہوتا‘ جنہیں ہم اُن کے دوست سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ وہ دراصل اُن کے لیے آلۂ کار ہوتے ہیں! سیاست کے تقاضے اہلِ سیاست کو ایسا بہت کچھ کرنے پر مجبور کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں عام آدمی نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ جب کسی سیاست دان کے کرتوت سامنے آتے ہیں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ اب اس حقیقت ہی پر غور کیجیے کہ سیاست کسی بھی سیاست دان کو یہ موقع ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی کو دوست بنائے یا دوست کی حیثیت سے اپنائے۔ بیشتر یا تقریباً تمام ہی سیاست دان صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی اُن کا کون سا کام زیادہ آسانی سے کرسکتا ہے۔ جو جتنے کام کا ہے ‘وہ اُتنا ہی قریب ہے۔ یہ سیاست دانوں کی عمومی روش ہے۔ نطشے نے اِسی بنیاد پر دوستوں کے بجائے ''آلۂ کار‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
سیاست کا بنیادی کام ریاست کو اِس طور چلانا ہے کہ لوگوں کا زیادہ سے زیادہ بھلا ہو۔ فلاحی ریاست کا تصور یقینی بنانے میں سیاست کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی معاشروں میں سیاست دانوں نے فلاحی ریاست کے تصور پر کامیابی سے عمل کر دکھایا ہے۔ سیاسی تربیت اگر نیک نیتی کے ساتھ کی جائے اور ملک کا نظم و نسق عوام کی رائے کے مطابق‘ چلانے والوں کی فکری تہذیب کی جائے تو بہبودِ عامہ یقینی بنانے کی منزل زیادہ دور نہیں رہ جاتی۔ انتہائی مہذب معاشروں میں سیاست بھی خاصی مہذب شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے ہاں معاملات اب تک بہت خراب ہیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود اہلِ سیاست اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔
لازم ہوگیا ہے کہ اہلِ سیاست اپنی طرزِ فکر و عمل میں انقلابی نوعیت کی تبدیلی یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ عوام بھی اس حوالے سے اپنا دباؤ بروئے کار لاسکتے ہیں۔ صرف اُنہیں ووٹ دے کر اپنا نمائندہ بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے‘ جو اپنے آپ کو بدلنے اور بہبودِ عامہ یقینی بنانے کیلئے تیار ہوں۔ انتخابی عمل کے دوران اہلِ سیاست سے مختلف امور پر جواب طلب کیا جائے۔ جو ڈھنگ کی بات کرے صرف اُسی کو اپنا نمائندہ مقرر کیے جانے کے قابل سمجھا جائے۔ جو سیاسی گروہ کارکنوں اور عوام کو محض آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اُن سے جان چھڑائی جائے۔ جب ہر اعتبار سے غیر جانب دار اور دیانت دار اہلِ سیاست ہماری نمائندگی کا فریضہ انجام دیں گے تو ریاستی مشینری سے جواب بھی طلب کرسکیں گے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگا ‘ اس عمل کی ابتداء تو ہو۔ اہلِ سیاست کو اس حوالے سے اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرنا چاہیے‘ تاکہ اصلاح کی صورت نکلے۔ اہلِ سیاست کی اصلاح ہی ریاستی مشینری کی درستی کا راستہ بھی ہموار کرے گی۔