بہت سی خصلتیں اپنے آپ کو ضرب دیتی رہتی ہیں۔ اِن خصلتوں کو اور کچھ آتا بھی تو نہیں۔ ایسے میں کسی مثبت بات کی‘ بہتری کی توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے؟ انسانی مزاج کی ایک بنیادی خاصیت یہ ہے کہ یہ خرابیوں کو تیزی سے اپناتا ہے اور اچھائیوں کی طرف بہت مشکل سے مائل ہوتا ہے۔ ماحول میں پائی جانے والی خرابیاں بہت تیزی سے اپنائی جاتی ہیں اور خوبیوں کو اپناتے ہوئے اپنے آپ پر غیر معمولی جبر کرنا پڑتا ہے۔ جبر اِس لیے کہ کسی بھی خوبی یا اچھائی کو اپنانے کے لیے انسان کو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے‘ ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہر اچھی بات آپ کے فکر و عمل کا حصہ بننے کے لیے چند ایک خامیوں اور خرابیوں کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ عام طور پر یہ معاملہ عادات کو تبدیل کرنے سے متعلق ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ سلسلۂ شب و روز کی نوعیت تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ سلسلۂ روز و شب کا مطلب ہے‘ عادات کا ڈھانچہ۔ جب عادات کو بدلنے کی بات آتی ہے تو ذہن خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بات ہو رہی تھی اپنے آپ کو ضرب دیتے رہنے کی۔ ویسے تو خیر طمع کا معاملہ بھی یہی ہے۔ طمع اپنے آپ کو ضرب دیتی چلی جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں انسان کے لیے دلدل گہری ہوتی چلی جاتی ہے‘ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب طمع کی تیار کی ہوئی دلدل سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتاہے۔
ذرا سی توجہ دینے پر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انا اگر جائز اور متوازن ہو تب بھی اچھے خاصے مسائل پیدا کرتی ہے! دنیا کا ہر انسان اپنے وجود کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب کوئی اپنے باطن میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتا ہو اور ظاہر میں خود کو بہت کچھ ثابت کرنے پر بضد ہو۔ زمانے کی روش ایسی ہے کہ انا بالکل درست ہو تب بھی کَھلتی ہے‘ بُری لگتی ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں جھوٹی اور بے بنیاد انا یا انانیت کس نوعیت کی الجھن پیدا کرتی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹی یا بے بنیاد و بلا جواز انا کسی بھی انسان کو اچھی خاصی معقولیت سے دور کرکے جہالت اور بے عقلی کے گڑھے میں گِرا دیتی ہے۔
جھوٹی انا کسی بھی انسان کو آسمان کی بلندی سے گراکر پاتال تک پہنچادیتی ہے۔ جھوٹی انا کے جال میں پھنسا ہوا انسان پیچیدہ سے پیچیدہ تر زندگی کا حامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی جواز کے بغیر اکڑنا جھوٹی انا کی دلیل ہے۔ بلا جواز اکڑ سے انسان صرف اپنی بربادی کا سامان کرتا ہے۔ یہ اکڑ انسان کو بہت سی اچھائیوں اور اچھے انسانوں سے دور کردیتی ہے۔ جس میں جھوٹی انا کی پیدا کردہ اکڑ ہو ‘وہ دوسروں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسرے بھی اُسے آسانی سے قبول نہیں کرتے۔
کسی بھی جواز کے بغیر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنا کسی بھی اعتبار سے معقول رویہ نہیں۔ اس کے برعکس‘ یہ حقیقی اعتبار سے بے عقلی ہی کی ایک واضح علامت ہے۔ کسی ٹھوس جواز کے بغیر خود کو دوسروں سے بہتر گرداننا ایسی ذہنی کجی ہے‘ جو انسان کو پورے ماحول کے لیے اجنبی بناتی جاتی ہے۔ جس طور بعض پودے ماحول سے بہت کچھ کشید کرکے اپنے طور پر پروان چڑھتے رہتے ہیں‘ بالکل اُسی طور جھوٹی انا بھی ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت پنپتی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس عمل کو روکنا یا معقولیت کی حدود میں رکھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
کسی بھی انسان کو جھوٹی انا ہی اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ دوسروں کو کمتر سمجھے اور اُنہیں اُتنی اہمیت بھی نہ دے جتنا اُن کا استحقاق بنتا ہے۔ اور پھر جب انسان تباہی کے گڑھے میں گِر جاتا ہے اور اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ جس روش پر وہ اب تک گامزن تھا وہ غلط تھی‘ تب بھی جھوٹی انا ہی اُسے شکست کے اعتراف اور شرمندگی کے اظہار سے روکتی ہے‘ یعنی جھوٹی انا ہی بربادی کی طرف لے جاتی ہے اور بربادی کا احساس ہونے پر ضمیر کو کام کرنے سے روکنے میں بھی جھوٹی انا ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا سادہ الفاظ میں مفہوم یہ ہے کہ جھوٹی انا دو دھاری تلوار کا سا کام کرتی ہے۔ اِدھر سے بچے تو اُدھر سے کٹے اور اُدھر سے بچ نکلے تو اِدھر سے مارے گئے!
جھوٹی انا دو باتوں سے خوب پروان چڑھتی ہے۔ اول یہ کہ کوئی ٹوکے نہ روکے۔ جب کسی بھی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی تب انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا اور کہتا ہے ؛وہ ہر حال میں درست ہے۔ اپنے آپ کو ہر معاملے میں درست سمجھتے رہنے سے انسان رفتہ رفتہ اس خیال کا حامل ہوتا چلا جاتا ہے کہ اُس میں کوئی خامی یا خرابی پائی ہی نہیں جاتی۔ یہ احساس اُسے ذہنی اعتبار سے ساکت و جامد کردیتا ہے۔
دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر اعتبار سے معقول اور متوازن زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے‘ یعنی یہ کہ فکر و عمل کو جامد رکھنے کی بجائے متحرک رکھا جائے۔ جیسی صورتِ حال ابھرے ویسا ہی ردعمل پیدا ہونا چاہیے۔ ہر انسان کو موقع کی مناسبت سے سوچنا اور اُس پر عمل کرنا چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ذہن ساکت اور جامد نہ ہو‘ یعنی کسی بھی حال میں کوئی ایک رویہ پہلے سے طے نہ کرلیا گیا ہو۔ اگر انسان نے سب کچھ پہلے سے طے کرلیا گیا ہو تو صورتِ حال کی مناسبت سے سوچنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ اگر کسی خاص نسل یا خطے سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں بہت کچھ پہلے سے سوچ لیا گیا ہو تو کسی بھی حوالے سے اُن سے معاملات طے کرتے وقت فکری و عملی اعتبار سے متوازن رہنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔
انسان کو کسی بھی ماحول میں فکر و عمل کے اعتبار سے متوازن اور متحرک ہونے سے صرف انانیت روکتی ہے۔ اگر کوئی اپنی انا کا اسیر ہو تو لوگ اس بات کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ انا کے جال میں پھنسے ہوئے انسان کی سوچ محدود اور عمل محدود تر ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھتا۔ انا کا گراف گرنے پر بات بنتی ہے: ؎
انا کی گرد چَھٹی ہے تو ہم نے دیکھا ہے
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دنیا ہے
جھوٹی انا فریبِ ذات سے دوچار کرتی ہے۔ جب انسان اپنی ذات تک محدود ہو جاتا ہے‘ تب باقی دنیا اُس کے لیے یکسر بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ زندگی کو قدم قدم پر نئی اور حوصلہ افزاء معنویت سے ہم کنار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے ... یہ کہ اپنے آپ کو ماحول یا باقی دنیا سے الگ مت رکھیے اور جھوٹی انا کے گرداب میں پھنس کر سب کچھ غرق مت کیجیے۔ معیاری اور متوازن زندگی بسر کرنے کا ایک ہی راستہ ہے ... یہ کہ جھوٹی انا کو خیرباد کہیے‘ حقیقت پسندی کو اپنائیے ‘تاکہ ماحول سے مکمل مطابقت پیدا کرنا ناممکن یا انتہائی دشوار نہ رہے۔ بقول شاعر: ؎
ڈوب مرنے سے جو بچنا ہے تو ایسا کر لیں
آؤ‘ ہم جھوٹی اناؤں سے کنارا کر لیں