زندگی قدم قدم پر دھوکا بھی دیتی ہے۔ سچ ہے نا؟ یقینا‘ مگر یہ بھی اللہ کے انعام کی ایک شکل ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ زندگی دھوکا دے رہی ہے‘ مگر در حقیقت دھوکے باز‘ فریبی خود کو بے نقاب کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ کا انعام اور کیا ہو کہ کوئی دھوکے باز خود کو بے نقاب کرے‘ ہمیں اس کے لیے کچھ خاص تگ و دو نہ کرنی پڑے؟
کل فرید خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ‘چونکہ نجی کاروبار کرتے ہیں‘ اس لیے کاروباری گھرانوں سے اچھی دعا سلام ہے۔ انہوں نے ایک قصہ سُنایا۔ ہوا یہ کہ دو کاروباری گھرانے کاروباری معاملات نمٹاتے نمٹاتے بہت نزدیک آگئے اور پھر انہوں نے کاروباری معاملات کو اپ گریڈ کرتے ہوئے رشتے کی منزل تک پہنچانے کی ٹھانی۔ دونوں گھرانے مڈل کلاس سے کچھ اوپر تھے۔ بنگلوں میں رہنے والے‘ کاروں میں گھومنے والے‘ پھر یوں ہوا کہ لڑکی والا گھرانہ گردشِ زمانہ کی لپیٹ میں آگیا۔ دو تین غلط کاروباری فیصلوں نے غضب ناک خسارے سے دوچار کیا۔ مالی معاملات ایسے بگڑے کہ اُن کے لیے بڑا بنگلہ رکھنا‘ کئی کاروں کا متحمل ہونا ممکن نہ رہا۔ دانش کا تقاضا یہ تھا کہ یہ گھرانہ اپنا معیارِ زندگی تھوڑا نیچے لاتا اور معاملات کو درست کرتا اور اُس نے یہی کیا۔ بڑے بنگلے کی جگہ بڑے‘ عالی شان اپارٹمنٹ نے لی۔ اس گھرانے نے اِس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور بات بھی یہی تھی کہ معاملات ہاتھ سے بالکل ہی تو نہیں نکلے تھے۔
لڑکے والوں نے یہ تماشا دیکھا تو دستِ تعاون دراز کرنے کی بجائے جان چُھڑانے میں عافیت جانی! جب لڑکی والوں کی مالی حیثیت متاثر ہوئی تو اُنہوں نے رشتہ برقرار رکھنا مناسب نہ جانا اور بات ختم کردی۔ لڑکی والوں کی مالی حیثیت متاثر ہوئی تھی‘ مگر اِتنی بھی نہیں کہ کوئی اِتنا مایوس ہوجائے۔ اس موقع پر ایک شعر یاد آگیا ‘جو ہمیں شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے سُنایا تھا ؎
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دِلوں پر یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے!
لڑکے والوں نے اپنا ظرف ظاہر کردیا تھا۔ اور اچھا ہوا کہ یہ کام اُنہوں نے ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت کیا‘ کسی اورکو زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔
خیر‘ لڑکے والوں کے فیصلے نے لڑکی کے دل و دماغ کو جکڑ لیا۔ وہ اپنے وجود اور پورے ماحول سے بیزار ہوگئی۔ کھانا پینا کم کردیا‘ ملنا جلنا برائے نام ہوگیا۔ پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ ہر وقت منہ بسورے ایک طرف پڑی رہتی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر گھر والے کڑھتے رہتے تھے۔ فرید خان کا اُن سے رابطہ تھا۔ ایک دن لڑکی کے والد نے فرید خان کو یہ سب کچھ بتایا تو انہوں نے لڑکی سے بات کی اور اُسے مطمئن کردیا۔ سمجھانا صرف اتنا تھا کہ جن لوگوں نے شادی سے قبل ہی یہ سب کچھ کردیا ‘اُن کا تو شکر گزار ہونا چاہیے! اگر وہ کہیں شادی کے بعد اپنی ذہنی اور فطری اصلیت ظاہر کرتے اور مالی حیثیت گھٹ جانے کی بنیاد پر لڑکی کا جینا حرام کرتے تو؟ محض رشتہ طے ہو جانا کوئی مشکل منزل نہیں۔ اگر شادی ہو جائے اور اور اولاد بھی منصۂ شہود پر آجائے ‘تب اگر کوئی فریق اپنی اصلیت ظاہر کرے تو معاملات قیامت کی سی کیفیت پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
فرید خان کی باتیں لڑکی کی سمجھ میں آگئیں۔ اُس نے بیزاری اور مایوسی ترک کی اور دوبارہ زندگی کی طرف آگئی۔ نارمل انسان کی طرف رہنا شروع کیا اور پڑھائی بھی مکمل کی۔ یہ گھرانہ خدا نخواستہ گیا گزرا تو تھا نہیں۔ کچھ ہی مدت کے بعد پھر سیٹ ہوگیا۔ ٹھیک ہے‘ پہلی سی دولت مندی نہ سہی‘ مگر قابلِ رشک زندگی بسر کرنا ناممکن نہ رہا۔ ہر حال میں جذبۂ تشکر سے سرشار رہنے کا انعام اللہ نے یوں دیا کہ اُسی لڑکی کا ایک بہت بڑے کاروباری گھرانے میں رشتہ ہوگیا!
معاشرے میں ایسے بہت سے کیسز آپ نے سُنے ہوں گے کہ کسی نے پیار میں دھوکا دیا تو فریقِ ثانی کے لیے ڈھنگ سے جینا دوبھر ہوگیا۔ کوئی کاروبار میں دھوکا دے دے تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا ہے۔ روشن شمع بھی اندھیرا بکھیرتی محسوس ہوتی ہے۔ لڑکی دھوکا دے جائے تو لڑکا پاگل ہو جاتا ہے اور لڑکا بے وفا نکلے تو لڑکی گوشہ نشین ہوکر روتے روتے خود کو ہلکان کرتی رہتی ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ (بالعموم) جہاں جو کچھ کرنا ہوتا ہے‘ اُس کا الٹ کرتا ہے۔ معمولی گھریلو جھگڑے میں شوہر کے ذہن میں پہلا خیال یہ ابھرتا ہے کہ طلاق دے کر جان چھڑائے۔ بیوی بھی پلک جھپکتے میں سوچتی ہے اس آدمی سے خلع لے کر نئی‘ پُرسکون زندگی بسر کرے۔ یہ شیطان مردود ہے ‘جو حتمی مرحلے کے حل کو پہلے مرحلے میں پیش کردیتا ہے! جب شیطان راہ سُجھاتا ہے تو ایسی ہی ''منزلوں‘‘ کی طرف لے جاتا ہے۔
اس دنیا کے لوگوں سے کیا شکوہ؟ دینی تعلیمات کی رُو سے دیکھا جائے تو یہ دنیا محض دھوکا ہے‘ سراب ہے۔ پھر کسی بھی بات کا شکوہ کیسا؟ اگر کوئی دھوکا دے‘ آنکھیں پھیرتے ہوئے راہ بدل لے تو ہمیں اُس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اپنی اصلیت بے نقاب کردی اور ہم مزید خسارے سے بچ گئے!
کسی کی مدد کرنا اچھی بات ہے‘ مگر کبھی کبھی نیکی بھی گلے پڑ جاتی ہے۔ فرض کیجیے آپ نے کسی کی مدد کی اور وہ کچھ دن بعد پھر مدد طلب کرتا ہے۔ آپ پھر مدد کردیں۔ اور تیسری بار مدد مانگنے پر آپ انکار کرتے ہیں۔ وہ بضد ہو اور آپ زچ ہوکر پھر انکار کریں اور وہ پھٹ پڑے‘ پچھلے احسانات بھول کر آپ کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں پھیلائے تو اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ چوزہ انڈے سے باہر آگیا‘ ملمّع ایک ہی رگڑ سے اتر گیا! کم از کم اِس بات پر تو اللہ کا شکر ادا کیجیے‘ اُس نے اپنی اصلیت ظاہر کرکے آپ کو مزید خسارے سے بچالیا!
رشتوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی ایک فریق صرف مالی حیثیت دیکھ کر چل رہا ہو اور فریقِ ثانی کی مالی حیثیت میں محسوس ہوجانے والا فرق واقع ہونے پر راستہ بدل لے‘ آنکھیں پھیر لے اور رشتہ توڑ دے تو اِسے اللہ کا کرم ہی جانیے کہ اُس کی اصلیت بے نقاب کردی۔ کسی کی بے وفائی کا رونا روتے رہنے‘ ماتم کرتے رہنے سے کیا حاصل؟ یہ تو مقامِ شکر ہے۔ ہر بے وفا جب وفا کی راہ سے الگ ہوکر اپنا ظرف بتادیتا ہے تو ہمارے لیے خاصی آسانی پیدا کرتا ہے۔ سب سے بڑی آسانی تو یہ کہ اُس کی اصلیت جاننے کے لیے ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اور یہ کہ ہم مزید نقصان سے بچ گئے جو وفا کی آس لگائے رہنے کی صورت میں واقع ہوسکتا تھا۔ اِس لیے ہر بے وفا کا شکریہ۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں‘ جس میں صرف اور صرف حقیقت کا سِکّہ چلتا ہے۔ چلنے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک راہ ہے ... حقیقت پسندی۔ اگر کوئی اور راہ دکھائی دے رہی ہے تو اُسے محض دھوکا جانیے۔ خونی رشتے تو خیر مقدر کی بات ہیں۔ دوستی سے رشتے تک ہر تعلق کا قائم کیا جانا‘ برقرار رکھا جانا ہم سے حقیقت پسندی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کوئی راہ میں ساتھ چھوڑ کر الگ راہ پر گامزن ہوجائے تو سجدۂ شکر بجا لائیے کہ اللہ نے بے مزا کرنے والے مزید سفر سے بچالیا۔ دوستی‘ محبت اور رشتہ ... ہر طرح کے تعلقات میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ کوئی کسی پر احسان کرتا ہے‘ نہ کوئی کسی کا احسان مند ہوتا ہے۔ معاملہ خلوص سے شروع ہوکر خلوص پر ختم ہو تو زندگی کے سَر پر وفا و بے وفائی کے بوجھ کا پوٹلا دھرا نہیں رہتا۔ کسی کی بے وفائی کا ماتم کرنے سے بہتر یہ کہ اپنے پچھلے انتخاب میں غلطی تسلیم کرتے ہوئے پُرخلوص سوچ رکھنے والوں کو تلاش کیا جائے۔