کوئی بھی سرکاری مہم جتنے جوش و خروش سے شروع کی جاتی ہے اُتنی ہی سرد مہری سے ختم ہوتی ہے۔ کراچی میں سرکاری سطح پر شروع کی جانے والی ہر مہم تقریباً ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئی ہے۔ کبھی پولیس کو جوش آتا ہے اور کبھی ٹریفک پولیس کو۔ شہریوں کو قانون کی پابندی سکھانے کی راہ پر گامزن ہونے کے بعد ان دونوں محکموں کا سفر اس طور ختم ہوتا ہے کہ لوگوں کو کہنا پڑتا ہے ع
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
کوئی کرے بھی تو کیا کرے؟ یہاں تو قدم قدم پر بے حِسی اور عدمِ تعلق کا راج ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اڑھائی تین سال کے دوران کراچی میں کئی بار گٹکے کو زیرِ دام لانے کی کوشش کی گئی ہے‘ مگر ہر بار سرکاری مشینری ہی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ تین چار ماہ قبل بھی گٹکے پر قابو پانے کی مہم پھر شروع کی گئی۔ اس بار جوش و خروش نمایاں تھا۔ شہرِ قائد کو حقیقی مفہوم میں بین الاقوامی انداز کا شہر بنانے کے لیے جہاں اور بہت کچھ کرنا لازم ہے وہیں گٹکا کھانے کی عادت پر قابو پانا بھی لازم ہے۔ پورے شہر میں گٹکاخور پائے جاتے ہیں۔ گٹکا کھانے والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ جہاں تہاں پیک اُگل کر شہر کو تجریدی آرٹ کا نمونہ بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ جہاں بھی گٹکا کھایا جائے گا وہاں پیک بھی تھوکی جائے گی۔ بہت سی رہائشی عمارتوں کے اندرونی حصے پان اور گٹکے کی پیک تھوکنے والوں کی مہربانی سے اتنے گندے ہوچکے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو اُبکائی آنے لگتی ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی سلیم الطبع انسان کے لیے انتہائی اذیت کا باعث ہے۔ کوئی لاکھ سمجھائے‘ جہاں تہاں پیک تھوکنے والے باز نہیں آتے۔
گٹکا تیار اور فروخت کرنے والوں کے خلاف چلائی جانے والی تازہ ترین مہم بھی دم توڑ چکی ہے۔ عدالتی احکام کے باوجود گٹکے کی تیاری و فروخت کو روکا جاسکا ہے نہ کھانے والوں کے جوش و خروش ہی میں کچھ کمی آئی ہے۔ اب کے رینجرز کو بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔ رینجرز نے بہت سے مقامات پر لوگوں کو روک کر سمجھایا بھی اور دو چار ہاتھ جڑ کر راہِ راست پر لانے کے حوالے سے حُجّت تمام کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس حوالے سے شکایات بڑھیں تو رینجرز پیچھے ہٹ گئے۔ رینجرز بھی ایک خاص حد تک ہی جاسکتے تھے۔ جب لوگ رینجرز سے نہ ڈرے تو پولیس سے کسے خوف کھانا تھا؟ بس‘ پھر کیا تھا؟ گٹکے کے خلاف تازہ ترین مہم بھی ڈھاک کے تین پات کے مصداق ہر طرح کے تاثر سے عاری رہی۔ شہر میں ایک بار پھر گٹکا دھڑلے سے فروخت کیا جارہا ہے اور اُس سے زیادہ دھڑلے سے کھایا جارہا ہے۔
سگریٹ کے ہر پیکٹ پر یہ انتباہ چھپا ہوا ہے کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوسکتا ہے۔ سگریٹ پینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لت اُنہیں موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے‘ مگر پھر بھی وہ سگریٹ پینے سے باز نہیں آتے۔ یہی حال گٹکا خوروں کا بھی ہے۔ گٹکا جس معیار کی اشیا سے اور جس طرح تیار کیا جاتا ہے اُس کے پیشِ نظر لوگوں کو یہ لعنتی چیز کب کی چھوڑ دینی چاہیے تھی ‘مگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گٹکا چبانے والوں کی (یعنی جنہیں گٹکے کے جبڑے چبا رہے ہیں) اُن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ سب کچھ جانتے بُوجھتے بھی ہمیں موت کے منہ میں جانے کا شوق کیوں ہے؟ جس راستے پر چلنے کی صورت میں صرف تباہی اور بربادی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اُس پر چلنے کی لگن ہم میں کیوں پائی جاتی ہے؟ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں دوسرے بہت سے سوالوں کی طرح اس سوال پر بھی غور کرنا ہے کہ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے شوقین کیوں ہیں۔
آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں دو چار دن میں تو نہیں پہنچ گئے۔ ایک زمانہ لگا ہے یہاں تک آنے میں۔ عشروں کی خرابیوں نے بیج کا کردار ادا کیا اور آج ہر طرف تباہی اور بربادی کے تناور درخت کھڑے ہیں۔ پورے معاشرے پر بے حِسی اور بے ضمیری طاری ہے۔ دوسروں کے دکھ درد محسوس کرنے والا ہر انسان یہ سب کچھ دیکھ کر دل مسُوس کر رہ جاتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر پاتا۔
جس طور لوگوں کو گٹکا کھانے سے نہیں روکا جاسکتا‘ بالکل اُسی طور ٹریفک کے قوانین پر عمل کرانے میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ لوگ سگنل توڑنے کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں۔ کسی بھی کام کے لیے قطار بند ہونے کو بھی لوگ اپنی اہانت گردانتے ہیں۔ کسی بھی بینک کے صاف ستھرے ماحول میں صوفے پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے والوں کو بھی شدید مضطرب دیکھا گیا ہے۔ ٹوکن نمبر اچھی طرح معلوم ہونے پر بار بار ٹوکن سکرین پر نظر جاتی ہے اور منہ سے ایک سرد آہ نکل جاتی ہے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ ٹوکن سے قطع نظر پہلے اُسے فارغ کردیا جائے۔ ایک طرف بے صبری ہے اور دوسری طرف بے ذہنی۔ بے ذہنی یوں کہ جن معاملات میں خسارے کے سوا کچھ نہیں اُن سے بھی دامن کش ہونے میں تساہل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ جو راستے صرف مشکلات اور تباہی کی طرف لے جاتے ہیں اُن پر چلنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کی جارہی۔
بُری عادتیں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہیں۔ سوال صرف نفسی یا معاشرتی خرابیوں کا نہیں۔ ہر بُری عادت معاشی معاملات کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ جب سے پابندی کا غلغلہ بلند ہوا ہے‘ گٹکا مہنگا ہوگیا ہے اور جنہیں یہ لَت پڑی ہوئی ہے وہ یومیہ ڈیڑھ سو روپے تک خرچ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ یعنی ہر ماہ ساڑھے چار‘ پانچ ہزار روپے صرف گٹکے کی نذر کردیئے جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گٹکے کے شوقین بالعموم ماہانہ بیس تا پچیس ہزار روپے کمانے والوں کی کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جب کوئی شخص صرف گٹکے کی مد میں اپنی ذات پر ہر ماہ چار پانچ ہزار روپے خرچ کر رہا ہوگا تو والدین‘ بیوی اور بچوں کے حق پر ڈاکا ڈال رہا ہوگا۔ بچوں کی تعلیم اور صحت پر کچھ اضافی رقم خرچ کرنے کو کہیے تو ایسے لوگ بھڑک اٹھتے ہیں‘ مگر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اپنی محدود آمدن کا ایک بڑا حصہ شرم ناک انداز سے ضائع کر رہے ہیں۔
معاشرہ جن لَتوں میں مبتلا ہے اُن سے نجات پانے کے لیے سخت اقدامات بھی ضروری ہیں‘ مگر صرف اُن سے کام نہیں چلے گا۔ لازم ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہنی تربیت کی جائے۔ سکولز میں بھی ''شخصی ارتقا‘‘ کے خصوصی نصاب کے ذریعے بچوں کو بُری چیزیں استعمال کرنے کے بُرے نتائج سے آگاہ کرکے بہتر زندگی کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ ہر لَت ایک ایسی چوکھٹ ہے جس پر ہم اپنے وجود کا بلا جواز جھٹکا کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی وجود کے حوالے سے یہ بے ذہنی اور بے حِسی اب ختم ہونی چاہیے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں وسائل اور شخصی صلاحیت و توانائی میں سے کسی کا بھی ضیاع برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔