"MIK" (space) message & send to 7575

غریب اور تبدیلی !

سوچا تھا کیااور کیا ہوگیا۔ اب خیال آتا ہے ہم بھی کتنے دیوانے تھے! ؎ 
دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں 
مارا گیا غریب اسی اعتبار میں 
لوگ تبدیلی کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ اب سوچتے ہیں کہ وہ دور غنیمت تھا کہ خواب دیکھنے کی گنجائش تو تھی۔ اب کیسے خواب‘ کہاں کے خواب؟ اب تو خیر سے نیند ہی اُڑی ہوئی ہے! علامہ سیمابؔ اکبر آبادی خوب یاد آئے: ؎ 
دعا دل سے جو نکلے کارگر ہو 
یہاں دل ہی نہیں‘ دل سے دعا کیا 
حالات سے ہارے ہوئے کسی بھی نئی امید کے دامن سے وابستہ ہوکر سب کچھ داؤ پر لگانے کے عادی ہوا کرتے ہیں۔ لوگوں نے اِدھر اُدھر سے مایوس ہوکر جب تحریکِ انصاف کی طرف دیکھا تو اُس سے خدا جانے کیا کیا اُمیدیں وابستہ کرلیں۔ کسی کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ یہ جماعت ملک کو حقیقی انصاف کی دہلیز تک پہنچا دے گی۔ کوئی یہ تصور باندھ بیٹھا کہ دکھ بھرے دن بیتے رے بھیا‘ اب سُکھ آیو رے‘ رنگ جیون میں نیا لایو رے۔ مگر ہائے ری ہماری قسمت کہ ؎ 
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا 
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا 
تحریکِ انصاف ملک کو انصاف کی دہلیز تک تو کیا پہنچاتی‘ ہاں مزید سنگینیٔ حالات کے دہانے تک پہنچانے میں ضرور کامیاب رہی ہے۔ خواب تھے تو اُنہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کی تمنا بھی تھی یا پھر اُن کے (اپنے طور پر) شرمندۂ تعبیر ہو جانے کا انتظار تھا۔ اب تو خواب بھی آنکھوں سے نکل کر یوں اُڑن چُھو ہوگئے ہیں گویا کبھی ہماری آنکھوں میں تھے ہی نہیں۔ اُڑنے کا معاملہ خوابوں تک محدود نہیں رہا۔ روز افزوں مہنگائی کے باعث لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ چکے ہیں۔ مہنگائی کا ہتھوڑا ایسا برس رہا ہے کہ لوگوں کے لیے سَر بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ کل تک صرف بجلی کا رونا تھا۔ اب خیر سے سبزی سے آٹے تک ہر چیز کا رونا رویا جارہا ہے۔ عوام ہاتھ جوڑ کر حکومت سے کہہ رہے ہیں: ع
ہمارے دل سے مت کھیلو‘ کھلونا ٹوٹ جائے گا 
آج حالت یہ ہے کہ لوگ تحریکِ انصاف والوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ وہ ہاتھ آجائیں تو کچھ دل کی کہیں‘ کچھ دنیا کی بتائیں۔ ؎ 
تو ہم کو جو مل جائے تو حال اپنا سُنائیں 
خود روئیں کبھی اور کبھی تجھ کو رُلائیں 
وہ داغ دکھائیں جو ہمیں تو نے دیا ہے 
دل توڑنے والے! تجھے دل ڈھونڈ رہا ہے 
اہلِ انصاف کا حال یہ ہے کہ اپنی بات پر قائم بھی ہیں اور کسی کی بات نہ ماننے کی روش پر گامزن بھی۔ لوگ اپنے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔ کم و بیش ڈیڑھ سال قبل جب تحریکِ انصاف نے جیسے تیسے چند اتحادیوں کا اہتمام کرکے حکومت بنائی تھی تب فضاء میں اُمیدیں تھیں‘ آسرے تھے‘ دلاسے تھے۔ اور اب؟ اب یہ حال ہے کہ ؎ 
دل میں ارمان ہی ذرا سے ہیں 
جُھوٹ کیا‘ سچ بھی اب دِلاسے ہیں! 
آج طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکمران سچ بھی بولیں تو لوگ جھوٹ کا مزا پاتے ہیں! ؎ 
لوگ ہر سچ میں عجب جھوٹ کا پاتے ہیں مزا 
مصلحت کہتی ہے اب جھوٹ نہ بولا جائے 
بڑے بڑے دعوے کرنے والے پریشان ہیں کہ اب کسی کو کیا کہہ کر دلاسا دیں۔ ؎ 
یہ عجیب امتحاں ہے کہ تمہی کو بھولنا ہے 
ملے کب تھے اِس طرح ہم تمہیں بے دِلی سے پہلے 
وزیر اعظم نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران وہ جب سٹیج سے گرے تھے‘ تب اُنہیں ایسا ٹیکا لگایا گیا تھا کہ نرسیں اُنہیں حُوریں دکھائی دی تھیں! جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ عمران خان کو حُوریں دکھائی دیں اور عوام کو اُنہوں نے دن میں تارے دکھادیئے ہیں! سراج الحق صاحب کو شاید یاد نہیں رہا کہ (بقولِ اقبالؔ) مسلم عوام کے لیے حُور نہیں‘ صرف وعدۂ حُور ہوا کرتا ہے! 
عوام کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دن میں تارے ہی سہی‘ کچھ دکھائی تو دیا۔ بہت سوں کا تو یہی رونا ہے کہ اس حکومت نے وہ دُھند پھیلائی ہے کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ رونا بلا جواز اور بے بنیاد ہے۔ کم لوگ ہیں‘ جو حکومت کی مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ بے چاری حکومت کو بھی تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کہانی اتنی سی ہے کہ وزیر اعظم نے کئی پوٹلے ایک ساتھ کھول دیئے ہیں۔ ایک طرف سابق حکمرانوں کو‘ اُن کی کرپشن کی بنیاد پر‘ کیفرکردار تک پہنچانے کی کوشش ہے اور دوسری طرف ریاستی مشینری کو لگام دینے کی مساعیٔ جلیلہ ہیں ‘جو اب تک برائے نام بھی اثر پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں‘ جو برسوں‘ بلکہ عشروں میں بگڑے ہوں وہ دِنوں میں کہاں سُدھرتے ہیں؟ لاکھ پُرعزم ہی‘ وزیر اعظم بھی تو انسان ہی ہیں۔ اُن کے صبر کی بھی بہرحال ایک حد تو ہے۔ کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے‘ اگر کل کو عمران خان یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ریاستی مشینری کو زیر دام لانے کی کوشش نے اُنہیں بھی دن میں تارے دکھائی دے گئے ہیں! 
صفِ دشمناں میں انبساط کی لہر سی دوڑی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم کا حوصلہ جواب دیتا جارہا ہے۔ پہلے اُنہوں نے مہنگائی کے ہاتھوں انتہائے اذیت سے دوچار عوام کو یہ کہتے ہوئے بہلانے کی کوشش کی کہ حقیقی سُکون تو انسان کو قبر ہی میں مل سکتا ہے! سُکون کے حصول کا نسخہ بیان کرتے ہوئے وہ قبر کے ذکر پر نہیں رُکے‘ بلکہ مرنے کے بعد کی ایک ممکنہ منزل یعنی حُوروں تک بھی پہنچ گئے! مرنے کی بات ہو تو حُوروں کے بیان کا ''ریلیونس‘‘ تو بنتا ہی ہے! 
حُوروں اور تاروں کے ذکر پر ہمیں 1978 کی فلم ''ماضی‘ حال‘ مستقبل‘‘ کا ایک گیت یاد آگیا ‘جو انتہائی سُریلے غلام عباس نے گایا تھا۔ ؎ 
زندگی تو نے ہر قدم پہ مجھے ایک سپنا نیا دکھایا ہے 
کبھی غم کو خوشی کا رنگ دیا‘ کبھی ہنستے ہوئے رُلایا ہے 
زندگی سے مخاطب ہوتے ہوئے شاعر نے کیاخوب کہا ہے ؎: 
جو کبھی خواب ہم نے دیکھے تھے وہ نظارے دکھادیئے تو نے 
رات کو ہم نے چاندنی دیکھی‘ دن کو تارے دکھادیئے تو نے 
آج کل پاکستانی قوم کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ خواب رہے نہ نظارے۔ چاندنی بھی ہوا ہوئی۔ ہاں‘ دن میں تارے دیکھنے کا آپشن حکومت نے اب تک کھلا رکھا ہے۔ اِس پر بھی قوم رب کا شکر ادا کرے۔ کون جانے کل کو یہ ''عیاشی‘‘ بھی میسر نہ رہے! قوم نے ایک خواب دیکھا تھا کہ کچھ نیا ہو‘ تبدیلی آئے اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ اب آنکھیں شرمندہ ہیں کہ یہ خواب دیکھا تو کیوں دیکھا۔ ذہنوں کے سَر جھکے ہوئے ہیں کہ تبدیلی سے متعلق سوچ پیدا ہی کیوں ہوئی! انصاف کی راہ تو خیر کیا ہموار ہونی تھی‘ تبدیلی کے نام پر جو کچھ رونما ہوا ہے‘ وہ قوم کو انصاف کی ڈگر سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا ہے۔ اِسی لیے تو کسی شاعر نے اس حوالے سے ہی شاہد کہا ہے: ؎ 
دیکھ لو خواب مگر خواب کا چرچا نہ کرو 
لوگ جل جائیں گے‘ سورج کی تمنا نہ کرو 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں