شہرِ قائد کے مسائل کا پائیدار اور وسیع البنیاد حل تلاش کرنے کی ہر کوشش اب تک ناکام ثابت ہوتی رہی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معاملہ بھرپور سکت اور جوش و خروش سے عاری رہا ہے۔ جب کام کرنے کی نیت نہ ہو تو ایسے ہی تماشے دکھائی دیتے ہیں۔ تین چار ماہ قبل کراچی بھر میں بارش نے جو تباہی مچائی تھی اُس کے بعد ملک بھر میں شور اٹھا تھا کہ کراچی کے لیے کچھ سوچا جائے‘ کچھ کیا جائے۔ بات کچھ سے شروع ہوئی تھی‘ حکومت نے بہت کچھ کرنے کا اعلان کیا۔ معاملہ اعلان تک ہی محدود دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کراچی کے دورے میں 1100 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان پر پورے خلوصِ نیت اور لگن کے ساتھ عمل کب ہوگا یہ پورے یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ کراچی کا بھی کیا نصیب ہے۔ اس کے بارے میں کوئی بھی پورے یقین سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہا۔ دعویدار تو سبھی بنے پھرتے ہیں مگر اس شہر کو بدلنے اور اس کا کچھ بھلا کرنے کے بارے میں سنجیدہ کم ہی ہو پاتے ہیں۔
کراچی کو اس کا جائز حق دلانے کی دوڑ میں سب سے آگے جن لوگوں کو ہونا چاہیے وہ بہت پیچھے ہیں۔ تین عشروں تک شہر پر ہر اعتبار سے حکومت کرنے والوں کو اب تک بیدار ہونے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اس وقت شہرِ قائد کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے والوں میں پاک سرزمین پارٹی اور جماعتِ اسلامی نمایاں ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کا وجود نیا ہے جبکہ جماعتِ اسلامی شہر کا نظم و نسق کئی بار سنبھال چکی ہے۔ عبدالستار افغانی مرحوم کی میئرشپ میں کراچی نے ایک اچھا دور گزارا۔ ان کے بعد ایم کیو ایم آئی اور پھر پرویز مشرف کے دور میں نعمت اللہ خان مرحوم کی شکل میں کراچی کی باگ ڈور ایک بار پھر جماعتِ اسلامی کے ہاتھ میں آئی۔ مرحوم نے سٹی ناظم کی حیثیت سے کراچی کے لیے شاندار خدمات انجام دیں۔ ان کے دور میں کراچی میں کئی منصوبے عمدگی سے مکمل کیے گئے۔
جو کچھ اہلِ کراچی کو ڈھائی تین عشروں کے دوران جھیلنا پڑا ہے اُس کے ازالے اور تمام حقوق کا حصول یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ بڑے پیمانے پر کچھ کیا جائے۔ کراچی کے حقوق کے لیے جماعتِ اسلامی نے باضابطہ تحریک بھی چلا رکھی ہے۔ اس تحریک کی عوام نے خوب پذیرائی کی ہے۔ شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے میں جماعتِ اسلامی کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ اس وقت کراچی کے لیے غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ مسائل تیزی سے حل ہوں اور لوگ سکون سے زندگی بسر کرنے کی راہ پاسکیں۔ چار پانچ سال سے صرف جماعتِ اسلامی کراچی کے حوالے سے بات کر رہی تھی‘ آواز اٹھا رہی تھی۔ اب پاک سرزمین پارٹی بھی کسی حد تک میدان میں آئی ہے اور ایک نئے کراچی کی بات زور و شور سے کی جارہی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ کراچی کے لیے آواز اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن سے امید تھی کہ کچھ کریں گے انہوں نے تو جیبیں اور تجوریاں بھرلیں اور ایک طرف ہوگئے۔ اب جو لوگ کراچی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے۔ اور عوام کا فرض ہے کہ مینڈیٹ بھی سوچ سمجھ کر‘ انہیں دیں جو کچھ کرنے کی نیت‘ عزم اور اخلاص رکھتے ہیں۔
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر سے لوگوں کی آمد یعنی نقلِ مکانی کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود اس کی درست آبادی کو تسلیم کرنے سے وفاق اور صوبے کی سطح پر انکار کیا جاتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر کراچی کی درست آبادی (کم و بیش تین کروڑ) تسلیم کرلی گئی تو سندھ اسمبلی کی نصف نشستیں شہرِ قائد کے کھاتے میں چلی جائیں گی اور یوں صوبے کی حکمرانی بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ شہر کی آبادی دیکھتے ہوئے اس کے بلدیاتی سیٹ اَپ کو بھی اب تک مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔ شہر کے حقیقی سٹیک ہولڈرز یعنی مقامی آبادی کو کسی بھی اعتبار سے سیاسی و انتظامی استحکام کی منزل تک پہنچنے سے روکنے کی بھرپور کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جماعتِ اسلامی کراچی کی حقیقی آبادی کو تسلیم کرانے کے حوالے سے بھی خاصی متحرک رہی ہے۔ دیگر جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ جب تک کراچی کی درست آبادی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تب تک کراچی کو اس کا جائز حق نہیں ملے گا اور مسائل بھی حل نہ ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی خاموش معاہدہ طے پاگیا ہے۔ دو دن قبل ایک بیان میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پی پی پی سندھ میں جبکہ پی ٹی آئی دیگر صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کی خواہاں نہیں۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہوچکی ہے مگر مردم شماری میں اسے ایک کروڑ 60 لاکھ شمار کیا گیا ہے۔ کراچی کی درست آبادی اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا فائدہ صرف کراچی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا سندھ مستفید ہوگا۔ موجودہ لوکل باڈی ایکٹ ختم کرکے کراچی میں با اختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کے حالیہ اجلاس میں کراچی کی مردم شماری کے حوالے سے واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔ اگر کراچی کی درست آبادی تسلیم کرلی جائے تو سندھ اسمبلی میں نصف نشستیں کراچی کی ہوں گی۔ یوں بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ بلدیاتی ایکٹ ختم کرکے کراچی میں خود مختار نوعیت کی مقامی حکومت قائم کی جانی چاہیے۔
پیپلز پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ کراچی قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر پھر بھی وہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے کراچی کے مسائل حل کرنے سے اب تک مجتنب رہی ہے۔ مسلسل نظر انداز کیے جانے سے کراچی کے مسائل مزید پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ اب تاخیر کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ شہر کو ایسا نیا بلدیاتی سیٹ اَپ چاہیے جو حقیقت پسندی کا مظہر ہو۔ شہر کے لوگ تمام اہم معاملات میں حقیقی نمائندگی چاہتے ہیں۔ دودھ دینے والی گائے چارا بھی تو مانگتی ہے۔ اب تک کیفیت یہ ہے کہ کراچی سے صرف وصولی کی جارہی ہے‘ دیا کچھ بھی نہیں جارہا۔ شہر کے مسائل نہ صرف یہ کہ برقرار ہیں بلکہ دن بہ دن پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ تین ماہ قبل بارش کے دوران کراچی کا جو حال ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ موسلا دھار بارش نے پورے شہر کو یکسر مفلوج کردیا تھا۔ شہر کے اندر نقلِ مکانی پہلی بار دکھائی دی۔ کئی علاقے اس طور زیر آب آئے کہ ہفتوں زندگی معمول پر نہ لائی جاسکی۔
کراچی کے معاملے میں اب مزید تساہل و تاخیر کی گنجائش ہے نہ بے لیاقتی کی۔ جو کچھ بھی کیا جانا ہے وہ تیزی سے کیا جائے اور اس طور کہ کہیں کوئی کسر دکھائی نہ دے۔ ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخری لمحات میں جی رہے ہیں۔ کراچی ساحلی شہر ہے مگر پھر بھی اسے بین الاقوامی رنگ نہیں دیا جاسکا ہے۔ اس شہر سے سبھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر اسے کچھ دینے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال اب تبدیل ہونی چاہیے۔ کراچی کو ایسے انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو اپنے معاملات میں واقعی آزاد و خود مختار ہو اور بجٹ کے حوالے سے بھی کوئی مداخلت نہ کی جائے۔ بلدیاتی ایکٹ نے خاصا تنازع پیدا کیا ہے۔ یہ تنازع دور کرکے شہر کو اس کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابی دھاندلیوں نے عوام کے حقیقی نمائندوں کو منتخب ایوانوں تک پہنچنے نہیں دیا۔ جنہوں نے مینڈیٹ کو باپ کی جاگیر اور ''روایت‘‘ سمجھ لیا ہے اُنہیں ایک طرف ہٹاکر عوام کو انہیں آگے لانا چاہیے جو شہر کا درد رکھتے ہیں‘ اس کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک مدت سے کوشاں ہیں۔ جنہوں نے تین عشروں تک شہر کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق لُوٹا انہیں اور ان کی باقیات کو نظر انداز کرکے شہر کے مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے لیے درکار عزم‘ لیاقت اور سکت رکھنے والوں کو موقع دیا جانا چاہے۔