"MIK" (space) message & send to 7575

شادمانی کا پہلا نمبر

دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ کامیابی انسان کو مسرّت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ہر کامیاب انسان کو بالعموم خوش ہی دیکھا گیا ہے۔ خوشحالی انسان کے لیے حقیقی قلبی سکون کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ''Before Happiness‘‘ کے مصنف شان ایکر سماجی معاملات کے محقق ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ جو لوگ ہر وقت خوش مزاجی کو گلے لگائے رہتے ہیں، شادمانی کو اولیت دیتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ کامیابی کے حصول کے بعد انسان کا مسرّت سے ہم کنار ہونا فطری ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جو شادمانی سے ہم کنار رہتے ہیں اُنہی کو کامیابی گلے لگاتی ہے۔
شان ایکر نے اپنی پچھلی کتاب ''دی ہیپی نیس ایڈوانٹیج‘‘ میں اس نکتے پر بحث کی تھی کہ جو لوگ عمومی سطح پر خوش مزاجی کو اپناتے ہیں وہ ڈھنگ سے جی پاتے ہیں اور شاندار کامیابی کی طرف بھی تیزی سے بڑھتے ہیں۔ جو لوگ دوسروں سے زیادہ اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر اپنی پوری ذہانت کام میں کھپاتے ہیں، ان میں قوتِ برداشت بھی پائی جاتی ہے یعنی صبر کرنا جانتے ہیں مگر پھر بھی کامیابی لازمی طور پر ممکن نہیں ہو پاتی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ پائیدار مسرّت کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتے۔ کامیابی کی طرف بڑھنے میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو ہشاش بشاش رہتے ہوئے خوش مزاجی کے ساتھ کام کرتے ہوں۔ شان ایکر نے اپنی حالیہ کتاب میں اس نکتے پر زیادہ زور دیا ہے کہ ہمیں مستقل بنیاد پر اپنی اَپ ڈیٹنگ جاری رکھنا ہوتی ہے۔ ہر انسان سے جڑی ہوئی بنیادی حقیقتوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ ہر نئی حقیقت یا پہلے سے موجود حقیقت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ زمانے سے ہم آہنگ رہتے ہوئے کام نہیں کر پاتے۔ ہم اول و آخر اپنے ماحول کا حصہ ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ہماری حقیقتوں پر بھی اثر مرتب ہوتا رہتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے! ہم ماحول کے بدلنے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ نئی سچائیوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ یوں ہم حالات کے مطابق تبدیل ہونے کا عمل جاری رکھ پاتے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو اپنے ماحول کے مطابق تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ نئی حقیقتوں کا محض ادراک کافی نہیں۔ انہیں قبول کرتے ہوئے ان کے مطابق خود کو بدلنا بھی لازم ہے۔
وقت کی ضرورت کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے پانچ مراحل ہیں : اہم ترین حقیقت کی شناخت اور ادراک، جو کچھ بھی معنی خیز ہے اُسے قابلِ ترجیح قرار دینا، اس وقت کا تعین جب ہم کامیابی کے بہت قریب ہوں، ہر حال میں انتشار سے بچنا ہے اور کام پر توجہ مرکوز رکھنی ہے اور مثبت اقدار کو پھیلاتے رہنا ہے تاکہ دوسروں کو بھی کام کی تحریک ملتی رہے۔ آئیے! اِن مراحل کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری اہم ترین حقیقت کون سی ہے اور ہم اُس سے کس حد تک ہم آہنگ ہیں۔ یہ مرحلہ طے کرے گا کہ ہم چاہتے کیا ہیں، کہاں پہنچنے کی تمنا ہے۔ حقیقت سے باخبر رہنے والے زندگی کو بامقصد انداز سے بسر کرتے ہیں۔ ہمیں بھی طے کرنا ہے کہ ہمارے لیے کون کون سے معاملات معنی خیز ہیں۔ جو چیز ہمارے لیے کچھ معنی رکھتی ہے وہ زندگی کا معیار بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ہمیں ایسی تمام سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے گریز کرنا ہے جن سے ہماری زندگی کی معنویت نہ بڑھتی ہو۔ مثبت اور صحت مند سرگرمیوں میں وقت کھپانا ہی ہمارے لیے کچھ معنی رکھتا ہے۔ جو سرگرمی کچھ معنی رکھتی ہو وہی ہماری ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔
کامیابی کی راہ پر آگے بڑھنے کیلئے یہ اندازہ لگانا لازم ہے کہ کب ہم کامیابی کے نزدیک ہوتے ہیں۔ جس مقام سے ہمیں کامیابی زیادہ دور نہ لگے وہ ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ کوئی معمولی سی بھی غلطی ہمارے معاملات کو بگاڑ سکتی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک طویل مدت کی محنت کے بعد کامیابی کے بہت نزدیک تو پہنچ جاتے ہیں مگر وہاں پہنچ کر یہ سمجھ نہیں پاتے کہ اب آگے کیسے بڑھنا ہے۔
شاندار کامیابی ہم سے بھرپور انہماک بھی طلب کرتی ہے۔ انہماک کا مطلب یہ ہے کہ آپ غیر ضروری باتوں اور سرگرمیوں سے دور رہیں۔ فکر و نظر کا انتشار عمل کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ انتشار سے ہر حال میں دور رہنا ہے، بچنا ہے۔ جو لوگ کام سے کام رکھتے ہیں وہی انتشار سے محفوظ رہ پاتے ہیں۔ زندگی جیسی نعمت کو منفی سرگرمیوں اور منفی باتوں میں ہرگز ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کو مثبت سوچنا ہے اور مثبت باتیں پھیلانا ہیں تاکہ ماحول خوشگوار رہے۔ کامیابی یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ آپ خود بھی مثبت سوچیں اور اپنے متعلقین کو بھی مثبت سوچنے کی تحریک دیں تاکہ وہ زیادہ محنت کرنے کی تحریک پائیں اور اپنے کام سے کام رکھنا سیکھیں۔ مستقبل کی تیاری سب پر لازم ہے مگر اس کے لیے بنیادی شرط ماضی پر نظر ڈال کر اغلاط، کوتاہیوں اور حماقتوں کا جائزہ لیتے رہنا ہے۔ ہم سے جو کچھ بھی غلط ہوا ہے اُس سے سبق سیکھنا لازم ہے تاکہ منفی باتوں سے بچنا اور مثبت اقدار کو گلے لگانا ممکن ہو۔ کسی بھی سطح پر کوئی نمایاں مثبت تبدیلی حادثہ نہیں ہوا کرتی۔ مثبت تبدیلی ہماری شعوری کوشش کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ آپ کو اپنے تمام معاملات پر نظر رکھنا پڑتی ہے تاکہ کوئی بڑی کوتاہی سرزد نہ ہو۔ جب ہم کسی اہم معاملے میں کوئی فیصلہ کرتے ہیں تب پوری ذہانت اُس فیصلے کی تعمیل میں کھپانے کی صورت ہی میں کچھ ہو پاتا ہے، کچھ بن پاتا ہے۔ ہمیں صرف وہ کام کرنا ہیں جن سے ہماری زندگی کی معنویت بڑھ سکتی ہو۔
مصنف کا استدلال ہے کہ کسی بھی شعبے میں دوسروں سے ہٹ کر اور کچھ زیادہ پانے کیلئے انسان کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ دوسروں جتنی محنت کرنے سے دوسروں جتنی ہی کامیابی مل سکے گی۔ شاندار کامیابی کیلئے روڈ میپ تیار کرکے چلنا پڑتا ہے۔ متعلقہ معاملات کی نوعیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ زندگی میں توازن لازم ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ کن باتوں سے ہماری زندگی کی معنویت بڑھ سکتی ہے اور کون سی باتیں ہماری راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوسکتی ہیں۔ ہر انسان اپنی کامیابی کیلئے کریڈٹ کا تنہا حقدار اور ناکامی کیلئے ڈِس کریڈٹ کا تنہا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس معاملے میں آپ کو بھی کچھ استثنا حاصل نہیں۔ اگر آپ اپنی کامیابی کیلئے دوسروں سے مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ان کے وجود کو تسلیم کریں، ان کی صلاحیتوں کی قدر کریں، ان کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ان کا احترام کریں۔ جب آپ کسی کو اہمیت دیں گے تو وہ آپ کی کامیابی میں غیر معمولی کردار ادا کرنے پر متوجہ ہوگا۔ یہ سب کچھ ممکن بنانے کیلئے لازم ہے کہ آپ ہر مرحلے سے اچھے موڈ میں گزریں۔ آپ کا موڈ ہی طے کرے گا کہ آپ کتنی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ خوشگوار موڈ کے ساتھ جینے میں انسان کیلئے اپنا کام بہتر انداز سے مکمل کرنا ممکن ہی نہیں، آسان بھی ہو جاتا ہے۔
کامیابی کیلئے روڈ میپ لازم ہے کیونکہ معیاری روڈ میپ ہی آپ کو بھرپور جدوجہد کے دوران خوش و خرم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہ جانتے رہنا ضروری ہے کہ کون سی سرگرمیاں آپ کو کامیابی کی طرف لے جارہی ہیں اور کون سی سرگرمیاں آپ کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ جب انسان کو اچھی طرح معلوم ہو کہ اس کا سفر کس سمت میں ہے اور منزل کہاں ہے تب وہ پُرسکون ہوکر سفر کرتا ہے۔ یہی شادمانی کا راز ہے۔ معاملات کو زیادہ سے زیادہ واضح ہونا چاہیے۔ ہم اس دنیا میں اس لیے نہیں بھیجے گئے کہ اندر ہی اندر الجھے رہیں اور ڈھنگ سے کچھ بھی نہ کرسکیں۔ شادمانی کے ساتھ جینا ہے اور کچھ کر دکھانا ہے تاکہ مزید شادمانی کا سامان ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں