یہ صفت صرف انسان میں پائی جاتی ہے کہ وہ بہت کچھ دیکھ کر بلکہ سمجھ کر بھی نہیں سیکھتا۔ جن خرابیوں نے معاملاتِ زندگی کو تلپٹ کیا ہوتا ہے اُنہی خرابیوں میں انسان لتھڑا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود بھی پریشان رہتا ہے اور دوسروں کو بھی پریشانی سے دوچار رکھتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا جو کچھ کر رہا ہے‘ وہ اِسی ذیل میں آتا ہے۔ دو عشروں تک افغان سرزمین پر پنجے گاڑے رکھنے کے بعد اب امریکا نے مزید جانی و مالی نقصان کی راہ مسدود کرنے کی خاطر انخلا کا فیصلہ کیا ہے مگر معاملہ وہی ہے کہ چور چوری سے جائے‘ ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ افغانستان سے روانہ ہوتے وقت بھی امریکا نے خرابیاں پیدا کرنے کا عمل ترک نہیں کیا۔ خرابیوں کی نئی کھیتی تیار کی جارہی ہے۔ دو عشروں سے زائد مدت کے دوران افغانستان میں خرابیاں ہی خرابیاں پائی جاتی رہی ہیں اور اب بھی ایسا انتظام کیا جارہا ہے کہ عرصۂ دراز تک خرابیاں ہی رونما ہوتی رہیں گی۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے وہاں بھارت کے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک عشرے سے زائد مدت کے دوران بھارت نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور افغان اسٹیبلشمنٹ میں جڑیں مضبوط کرنے پر بھی توجہ دی۔ پاکستان تو افغانستان سے جُڑا ہوا ہے‘ وہ اگر وہاں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتا ہے تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔ بھارت کس خوشی میں افغانستان کو اپنے لیے کھیل کے میدان میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے؟ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پہلے دورۂ بھارت کے دوران دارالحکومت نئی دہلی میں بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ''امریکا انخلا کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہے گا اور وہاں امن و استحکام یقینی بنانے کے لیے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی‘‘۔
''افغانستان میں کئی پروگرام امریکی تعاون سے چلائے جارہے ہیں جن کا مقصد امن یقینی بنانا اور معاشی استحکام کی سطح بلند کرنا ہے۔ ایسے میں طالبان کی پیش قدمی اور کامیابی کی خبریں تشویش ناک ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اُنہوں نے متعدد مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد لوگوں پر مظالم ڈھائے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے اور ان کے قائدین آزادانہ سفر کرسکیں۔ طاقت کے ذریعے لوگوں کے حقوق کچل کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ دو عشروں کے دوران افغانستان کے عوام نے جو کچھ حاصل کیا ہے‘ اُسے برقرار رکھنے کیلئے افغان قیادت کی حمایت و امداد جاری رہے گی‘‘۔ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کے بجائے اُن کے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ کسی ملک میں دو عشروں کی موجودگی کے بعد انخلا ہو تو چند ایک مضمرات کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا نام لیے بغیر الزام تراشی کرتے ہوئے موصوف نے کہا ''افغانستان کے پڑوس میں ایک ملک ہے جو افغانستان میں امن کے قیام کیلئے وہاں فریقین میں مذاکرات کا خواہاں نہیں‘‘۔ یہ سب کیا ہے؟ معاملات کو جان بوجھ کر مزید خراب کیا جارہا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میں بھارت کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ بھارتی قیادت بھی صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھے بغیر مغرب کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ روس چاہتا ہے کہ اس مرحلے پر افغانستان پُرامن رہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک بھی یہی چاہتے ہیں۔ چین کی طرف سے سارے کا سارا زور معاشی محاذ پر ہے۔ وہ کسی بھی ملک پر براہِ راست حملہ کرنے اور اُس پر اپنا تسلط قائم کرنے کی راہ پر گامزن نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ معاشی معاملات کی موافقت بڑھاکر ایک دنیا کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جائے۔ چین کے معاملات اب تک تو نرم قوت سے شروع ہوکر نرم قوت ہی پر ختم ہوتے آئے ہیں۔
امریکا اور یورپ نے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جو کھیل شروع کیا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے۔ یورپ البتہ اب اس کھیل میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ امریکا چاہتا ہے کہ عالمی امور میں اُس کی بالا دستی برقرار رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ایشیا کے بیشتر حصوں میں عدم استحکام کی فضا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان پر لشکر کشی بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور اب وہاں سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کے باوجود امریکا چاہتا ہے کہ افغان سرزمین پر عدم استحکام کی فضا برقرار رکھ کر پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھے۔ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے اور اِس بار شکر کا کردار بھارت ادا کر رہا ہے۔ طالبان اگر عسکری سطح پر کامیابیاں حاصل کرتے جارہے ہیں تو امریکا یا کسی اور کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں؟ امریکی وزیر خارجہ نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ طالبان نے اقتدار پر قابض ہوکر عوام کے حقوق کا احترام نہ کیا تو افغانستان تنہا رہ جائے گا۔ جب امریکا اور یورپ کی مدد سے افغانستان کی تمام برادریاں مل کر افغانوں اور طالبان کو مار رہی تھیں تب بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تھی؟ امریکی قیادت بھارت کو ساتھ ملاکر معاملات کو تیزی سے بگاڑ رہی ہے اور خطے کے ممالک کو پیغام دے رہی ہے کہ افغانستان کے معاملے میں کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے۔ کیا یہ عمل بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی پر مبنی نہیں؟
بھارت کو ساتھ ملاکر خرابیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش اس لیے کی جارہی ہے کہ پہلے پاکستان نے اور بعد میں وسطی ایشیا کی ریاستوں نے بھی افغانستان میں طالبان پر حملوں کے لیے امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے لیے امریکا کا ساتھ دینا بے عقلی کے سوا کچھ نہ ہوگا کیونکہ روس پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ امریکی افواج کیلئے میزبانی کا ''اعزاز‘‘ پانے سے گریز کیا جائے۔ امریکی قیادت نے حال ہی میں ازبکستان کے وزیر خارجہ کو واشنگٹن بلایا تھا مگر بات بنی نہیں۔ اب امریکا نے خطے میں خرابی کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو نئی دہلی بھیج کر دوسرا ڈول ڈالا ہے۔ بھارتی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ اس بات کا غماز ہے کہ امریکی قیادت خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی پوری تیاری کرچکی ہے اور اب تمام معاملات کو بتدریج طشت از بام کرتی جارہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے۔ افغانستان میں ہمہ گیر نوعیت کی خانہ جنگی پاکستان کے لیے ایک اور بڑی آزمائش ثابت ہوسکتی ہے۔ تارکین وطن کا ایک اور بڑا ریلا آسکتا ہے۔ کورونا کی وبا نے حالات پہلے ہی تلپٹ کردیے ہیں۔ ایسے میں بھارت کی مدد سے خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی امریکی کوششیں غیر معمولی خرابیوں کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ عالمی امور میں چین کو پیش قدمی سے روکنے کی خاطر امریکا کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
ایسے میں طالبان ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے۔ طالبان نے بھی رابطے بڑھادیے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر نے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان اہم سیاسی و عسکری قوت ہیں مگر وہ ترکستان تحریک سے رابطے ختم کریں۔ بیجنگ نے طالبان کو یقین دلایا ہے کہ افغانستان کے مسائل حل کرنے میں اُن کی خاطر خواہ معاونت کی جائے گی۔ طالبان کا خطے کے ممالک سے رابطہ کرکے یقین دہانیاں کرانا خوش آئند ہے۔ اچھا ہوگا کہ پاکستان اس عمل کو وسعت سے ہم کنار کرے اور خاطر خواہ حد تک ''آنیاں جانیاں‘‘ یعنی فعالیت کا مظاہرہ کرے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں وسطی ایشیا جاکر معاملات کو اعتدال کی راہ پر لانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین جاکر اعلیٰ سطح پر بات چیت کے ذریعے خطے کے معاملات کی درستی کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی حاصل کی ہے۔ ممکنہ افغان بحران کے تناظر میں ایران، ترکی اور خطے کے دیگر ممالک سے بھی فوری رابطے ناگزیر ہیں۔